بہاولپور حادثے کے بعد چیئرمین سینٹ نے صدر مملکت اورجنرل بیگ نے آرمی چیف کا عہدہ سنبھالا۔ملک میں نئے انتخابات کا اعلان ہوا۔ انتخابات کے نتیجے میںسویلین وزیرِ اعظم کے منتخب ہو جانے کے بعدوردی پوش حکمرانی کی جگہ’ اقتدار کی تکون ‘نے لے لی ۔ نوے کی دہائی کی تاریخ ابھی کل کی بات ہے، لہٰذا یہاں دہرائے جانے کی محتاج نہیں۔تاہم سیاسی بے یقینی، لوٹا کریسی ، مالی بدعنوانی، خام ریاستی پالیسیوں اور ان سب کے نتیجے میں زندگی کے ہر شعبے میں رونما ہونے والے زوال کو سامنے رکھتے ہوئے اس عشرے کو جب ’عشرہ زیاں‘ کہا جاتا ہے تو ایساکچھ بلا وجہ نہیں ہے۔ سیاسی رہنمائوں کی جانب سے جمہوری اصولوںاور سیاست میں اخلاقیات کی پامالی، مالی لوٹ مار اور مافیا طرزِ حکمرانی کو فروغ دینے کی بناء پر اسٹیبلشمنٹ سیاسی معاملات میں اپنا اثرو رسوخ قائم رکھنے میں کامیاب رہی۔اس امر پر ضرور دو آراء ممکن ہیں کہ ایسا ہونا سیاست دانوں کی اپنی ناکامیوں کا نتیجہ تھا یا کہ اسٹیبلشمنٹ شعوری طور پر اپنی جگہ سے پیچھے ہٹنے کو تیا رنہیں تھی ۔ چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ واضح برتری کے باوجود بے نظیر بھٹو کو پہلی خاتون وزیرِ اعظم کے طور پراعتماد کا ووٹ لینے کی دعوت اسی وقت ملی جب وزارتِ خارجہ سمیت اہم عہدوں پرفائز ہونے والوں کے کہیں اور سے دیئے گئے نام انہوں نے قبول کر لئے ۔ بے نظیر بھٹو کو اقتدار تو سونپ دیا گیاتاہم اُن کے ساتھ برتائو میں بھروسے کا فقدان نمایاں رہا۔منتخب وزیرِ اعظم کے خلاف عدم اعتماد لائے جانے کے لئے باقاعدہ آپریشن کے ذریعے خفیہ منصوبہ بندی کی گئی۔ اس باب میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے منظورِ نظر میاں نواز شریف پر اسامہ بن لادن سے فنڈز وصول کئے جانے کا الزام آج بھی دہرایا جاتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بے نظیر کو اقتدار سے باہر رکھنے کے لئے نوازشریف ہی کی سربراہی میں آئی جے آئی بھی ’انجنیئر‘ کی گئی تھی۔ جنرل اسلم بیگ کے طرزِعمل کی بناء پر ہی سیاسی حکومت نے کامیاب چال چلتے ہوئے ان کی ریٹائر منٹ سے کئی ماہ قبل نئے آرمی چیف کا تعین کر دیا۔جنرل آصف نواز سینڈ ہرسٹ کے گریجوایٹ اور عسکری پسِ منظر رکھتے تھے۔ ان کا پہلا فرمانِ امروز فوجی روایات کی طرف لوٹنے کی ان کی خواہش کا مظہر تھا۔ فوج کونمائشی مظاہروں، پروٹوکول اورسٹاف ڈیوٹیز میں اپنائے جانے والے ’زیرو ایرر سنیڈروم ‘کی بجائے Realism پر مبنی ایسی پیشہ وارانہ قابلیت کے حصول کی ضرورت پر زور دیا گیا کہ جس میں انسانی غلطیاں نہ صرف قابلِ قبول ہوں بلکہ بالآخر مقامی کمانڈرزاُن کی ذمہ داری بھی خود قبول کریں۔سیاسی معاملات سے دوری اختیار کرنے کی کوشش کی گئی ۔چنانچہ شہری سندھ میں حکم ملنے پر ایک بے لاگ آپریشن کے ذریعے دہشت گردی کی کمر توڑدی گئی۔آپریشن کے ثمرات بعد ازاں سیاسی مصلحتوں ہی کی نذر ہو گئے ۔ افغان سکیورٹی پالیسی کو ازسر نو استوار کرنے کا فیصلہ ہوا۔ پاک، بھارت افواج کے مابین پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں والے ان تعلقات کو بحال کرنے کی شعوری کو ششوں کا آغاز ہوا جو متحارب مگر پروفیشنل افواج کے مابین معمول کی بات سمجھے جاتے ہیں۔ بد قسمتی سے دوسری جانب ہماری سیاسی قیادت سپہ سالار کو نا صرف سیاسی الجھنوں میں الجھاتی رہی بلکہ دام میں پھنسانے کے لئے انہیںرشوت پیش کرنے جیسی بھونڈی حرکتیں بھی دیکھی گئیں۔ فوج میں ’اپنے بندوں‘ کی ترقیوں کے لئے سفارشوں تک سے اجتناب نہ کیا گیا۔ جنرل آصف نواز کے اچانک انتقال کے بعد آنے والے آرمی چیفس نے سیاسی رہنمائوں کی باہمی چپقلش، مالی کرپشن کی داستانوں اور ایک دوسرے کو گرانے کی کوششوں کے باوجود سیاست میں براہِ راست مداخلت سے گریز کیا۔جنرل کاکڑ کا نام تاریخ میں ہمیشہ ایک پروفیشنل سپاہی کے طور پر لیا جائے گا۔ تاہم ہم ان کے دورکے واقعات کو دہرانے سمیت، جنرل کرامت کے نا مناسب استعفے، جنرل مشرف کی تعیناتی، کارگل جنگ اوربعد ازاں جنرل مشرف کے مارشل لاء اور ان کے دور اقتدارکی روداد جیسے معاملات سے صرفِ نظر برتتے ہوئے اکیسویں صدی میں داخل ہوتے ہیں کہ یہیں سے پاکستان آرمی کی ایک نئی نسل وجود میں آتی ہے۔جری، مستعد ، سر فروش اور عشروں سے ادارے پر لگنے والے دھبوں کو اپنے خون سے دھونے والی نسل۔ سوات اور دیگر قبائلی علاقوں میں جب طالبان دہشت گردوں نے نوجوان افسروں اور جوانوں کے گلے کاٹنے اورلاشوں کی بے حرمتی کا سلسلہ شروع کیا تو پاک فوج کے نوجوان افسروں نے پسپاہونے کی بجائے، آگے بڑھ کر جنگ کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ۔ دنیا کی عسکری تاریخ ایسی کسی بھی بے چہرہ جنگ میں ریاستی افواج کی متحیر کر دینے والی قربانیوں اورکا میابیوں کی خیرہ کُن داستان سے خالی ہے۔ یہ داستان مگر شہیدوں کے خون سے لکھی گئی تھی۔ ہردس شہید ہونے والوں میں ایک نوجوان افسر شامل تھا۔کئی ایک زندہ رہتے تو آج جرنیل ہوتے۔ جنرل ہارون اسلم جیسے کمانڈرز سفاک دہشت گردوں سے لدی وادیوں میں اترنے والے ہراول دستوں کا حصہ تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ حالیہ برسوں میںپاک فوج کا کوئی ایک جرنیل،افسر اور جوان ایسا نہیںکہ جو گزرے بیس برسوں میںآگ اور خون کے دریا کو تیر کر نہ گزرا ہو۔ملک کے اندرکوئی قبرستان ہی ایسا ہو گاکہ جہاں کوئی شہید ابدی نیند نہ سو رہا ہو۔ کوئی خاندان ہی بچا ہوگا کہ جس کا تعلق کسی غازی سے نہ جڑتا ہو۔ بیرونی محاذ پر پاک افواج نے سفاک دشمن کے خلاف جنگ یوں جیتی کہ دنیا ششدر رہ گئی ۔ملکوں ملکوں عسکری اداروں میں جسے نصاب کے طور پڑھایا جاتا ہے۔دہشت گردوں اور مذہبی انتہا پسندوںسے نبرد آزما افواج پاکستان کو اسی دور میںمگر ایک اور بے چہرہ دشمن کا بھی سامناتھا۔یہ بے چہرہ دشمن کوئی اور نہیں، معاشرے کے ہر شعبے میں موجود ففتھ جنریشن جنگ کے ’ففتھ کالمنسٹ‘ اور’جمہوریت پسندی‘ کا نقاب اوڑھے مغربی طاقتوں کے مقامی کارندے تھے۔یہ بے چہرہ جنگ بالآخر ہم نے جیتی یا ہاری، اس کا فیصلہ تاریخ کو کرنا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پچھہتربرس پہلے برٹش انڈین آرمی سے ٹوٹ کر عشروں پر محیط مدو جزر کا سفر طے کرنے کے بعدپاک آرمی ایک جری لڑاکا فورس اور ایک قومی ادارے کا روپ دھار چکی ہے۔سوال مگر یہ ہے کہ ایک قومی ادارہ کب تک قومی امنگوں سے لاتعلق رہ سکتا ہے؟لہو سے رقم ہماری تاریخ ہمیںکیا سبق سکھاتی ہے؟وقت کچھ ایسا آن پڑا ہے کہ دورِ حاضر پرجس قدر کم لکھا اور بولا جائے،ایک از کارِ رفتہ سپاہی کے حق میں اتنا ہی بہتر ہے۔ موسم بہار، موسم بہار کے بعدچلچلاتی گرمیوں ، گرمیوں کے بعد لہو جما دینے والی سردیوں کی طویل تر ہوتی چلی جانے والی راتوں ، اوراِن تاریک سرد راتوں کے اندرعوام کو ایک بار پھر حق ِ رائے دہی سے محروم رکھے جانے کی خاطر بُنی جانے والی سازشوںکی دل دوزداستان ، پچاس برس بعدتو کوئی لکھے گا۔ ہم کہانی یہیں ختم کرتے ہیں۔