مسان اور سوہان ریلوے سٹیشن کے درمیان خوشحال خان ایکسپریس کا انجمن اور 7 بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں،جس سے 20 مسافر زخمی ہو گئے۔ مسافر ریلوے پر سستا، محفوظ اور بروقت منزل پر پہنچنے کے لیے سفر کرتے ہیں لیکن ریلوے کا سفر سستا ہونے کے ساتھ غیر محفوظ ہوتا جارہا ہے۔ گزشتہ پانچ سال میں ٹرینوں کے 520 حادثات جبکہ 14 بڑے سانحات ہوئے ہیں، اس کے باوجود محکمہ ریلوے ٹرین کے سفر کو محفوظ بنانے میں ناکام ہے۔ ریلوے کا نظام قدیم ضرور ہے لیکن فرسودہ نہیں، اس وقت بھی 85 فیصد حادثات پھاٹک یا پھر سگنل نہ ہونے کے باعث ہوتے ہیں۔ وزیر ریلوے شیخ رشید نے وزارت سنبھالنے کے بعد بہتری کے وعدے کئے تھے، اب وقت ہے کہ وہ اپنے وعدوں کو ایفا کریں۔ عوام کو نئی حکومت سے بے شمار توقعات ہیں۔ ریلوے انجنوں میں اضافہ، زمینوں پر قبضے کا خاتمہ، سگنل سسٹم کو جدید طریقوں پر استوار کرنا اور چاروں صوبوں میں پھاٹک نصب کرنا، وزارت ریلوے چاروں صوبائی حکومتوں سے تعاون لے کر ہر صوبے میں پھاٹک کی تنصیب شروع کرے۔ اس سے وفاقی وزارت پر بوجھ بھی کم پڑے گا اور مسائل بھی حل ہو جائیں گے۔ ٹرین کو چلانے سے قبل تحریری طور پر آفیسر سے انجن کی فٹنس اور راستے کی کلیئرنس حاصل کی جائے۔ اس طرح حادثات سے بچا جا سکتا ہے۔ریلوے میں کرپشن نہیں کی گئی بلکہ اس کا خون چوسا گیا جس میں نیچے سے اوپر تک ہر کسی نے حصہ بقدر جثہ وصول کیا حالانکہ ماضی میں اقتدار میں رہنے والوں نے اداروں کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ماضی کی نسبت آج ریلوے میں بہت بہتری آئی ہے لیکن موجودہ حکومت سے عوام نے جو توقعات وابستہ کر رکھی ہیں انہیں پورا کیا جائے اور ریلوے کو ترقی یافتہ ممالک کے برابر لانے کی کوشش کی جائے۔