کسی سیانے کا قول ہے کہ جب دلیل ختم ہو جاتی ہے تو گالی شروع ہوتی ہے۔عمران خان پوری زندگی اس قول کا سب سے زیادہ شکار رہے ہیں، اور انکے ہاتھوں رہے ہیں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ دلیل والے ہیں غلیل والے نہیں۔ سیاست میں آنے کے بعد توعمران خان کے حوالے سے ہمارے ہاں زرخیز ذہن کے مالک لوگ ایسی ایسی کمال کی کہانیاں پیش کر رہے ہیں کہ گھٹیا پن کے نئے نئے ریکارڈ رقم ہو رہے ہیں۔ وزیر اعظم کو ازدواجی زندگی کے حوالے سے پھر افواہوں کا سامنا ہے جس کی اگرچہ انکی طرف سے وضاحت کر دی گئی ہے لیکن ایک خاص ٹولہ کوئی نہ کوئی درفنطنی کی ذاتی زندگی کے حوالے سے چھوڑتا رہتا ہے۔لگتا یوں ہے کہ عمران خان کی شادی سے یہ لوگ اذیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں، کیوں ہوتے ہیں یہ تو وہ خود بتا سکتے ہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ اگر خان کی شادی ناکام ہو جائے تو انکے گھروں میں شادیانے بجنے لگتے ہیں، وجہ اسکی بھی کبھی سمجھ نہیں آئی کہ عمران خان کے اکیلے ہو جانے پر یہ کس امید پرخوش ہوتے ہیں۔ اگر شادی نہیں کی توگھٹیا الزامات کی بوچھاڑ ‘اگر کر لی تو پھر ازدواجی زندگی کے بارے میں عجیب و غریب کہانیاں گھڑنی شروع کر دی جاتی ہیں۔الزامات لگانے والوں کو یہ بھی پتہ ہے کہ وزیر اعظم کے پاس ہر قسم کی اطلاعات حاصل کرنے کی ایک بھرپور مشینری موجود ہے جن میں سے بیشتر محکموں کو لوگوں کی ذاتی زندگی میں جھانکنے کا خاطر خواہ تجربہ بھی ہے اور ریکارڈ بھی۔لیکن جو لوگ عمران خان کی ذاتی زندگی کے حوالے سے الزامات گھڑتے ہیں یا انکی ازدواجی زندگی کے بارے میں افواہیں تیار کرتے ہیں انکو عمران خان کی شرافت پر اس قدر یقین ضرور ہے کہ انکے بارے میں وہ اس قسم کی کوئی اطلاع عوام کو فراہم نہیں کریں گے جو شاید ان پراپیگنڈے کے شوقین لوگوں کے لئے شرمندگی کا باعث بنے۔ اس قسم کے الزامات کی سیاست کسی زمانے جماعت اسلامی کا شیوہ ہوتا تھا ۔ ستر کی دہائی میں جب وہ ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی مقبولیت کا مقابلہ نہ کر پائی تو انکی ذاتی زندگی کے حوالے سے اسی قسم کے الزامات سننے میں آتے تھے۔ لیکن جماعت نے اسکے بعد اس قسم کے الزامات کو اپنی سیاست کا حصہ نہیں بنایا۔بد قسمتی سے جب سے جنرل ضیاء کے زیر سایہ مسلم لیگ نے جنم لیا تو یہ کام بہت شدّومد سے جاری ہوا ۔ 1988ء کے انتخابات میں محترمہ بینظیر بھٹوشہید اور محترمہ نصرت بھٹو مرحومہ کی ذاتی زندگی سے متعلق الزامات کی ایسی گھٹیا مہم شروع کی گئی کہ خدا کی پناہ۔مہم کا آغاز اس وقت مسلم لیگ پنجاب نے کیا تھا اور یہ مہم ـجاگ پنجابی جاگ کے نعرے کے ساتھ اپنے عروج پر پہنچی۔ ان دونوں پہلوئوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگی سیاست حکومت حاصل کرنے کے لئے کس قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرتی رہی ہے۔مسلم لیگ (ن) کی خوش قسمتی ہے کہ خواہ پیپلز پارٹی ہو یا تحریک انصاف انہوں نے کبھی ان ذاتی اور گھٹیا الزامات کے جواب میں شریف خاندان یا انکے کسی عزیز کی ذات کو ایسے ہی جوابی الزامات کا نشانہ نہیں بنایا۔ مجھے ذاتی علم ہے دو بار ایسے معاملات ہوئے جب شریف خاندان اور پھر سابق صدر فاروق لغاری کے گھریلو مسائل کے حوالے سے کچھ عاقبت نا اندیش لوگوں نے محترمہ بینظیر بھٹو کو سیاست کرنے کا کہا لیکن انہوں نے سختی سے منع کر دیا۔ عمران خان نے 1997ء میں جب تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تو اس وقت سے انہیں ذاتی زندگی کے حوالے سے الزامات کا سامنا ہے۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ اس وقت بھی مسلم لیگ دو تہائی اکثریت سے پورے ملک میںدندناتی پھر رہی تھی لیکن پھر بھی اپنے آپ کو اتنی غیر محفوظ سمجھتی تھی کہ عمران خان کے خلاف بھرپور محاذ کھول دیا اور اپنے سب بھونپوئوں کو انکی کردار کشی پر لگا دیا گیا۔اس سارے عرصے میں یہ سلسلہ رکا نہیں ہے۔عمران خان کی جمائما خان کے ساتھ علیحدگی کی دیگر وجوہات کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے جمائما کے خلاف سمگلنگ کے الزامات پر مقدمہ بنانے کی کوشش بھی تھی۔2013ء میں جب تحریک انصاف خیبر پختونخواہ میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی تو امید بندھی کہ ذاتی الزامات کا سلسلہ رک جائے گا اور حکومتی کارکردگی کے حوالے سے تنقید شروع ہو جائے گی۔ اسی طرح 2018ء کے انتخابات کے بعد امید تھی کہ کوئی کرپشن کا الزام، اقرباء پروری، میرٹ کی خلاف ورزی وغیرہ کی باتیں کی جائیں گی۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ کوئی ایک آدھ آواز پی ٹی آئی کی حکومتی کارکردگی کے خلاف اٹھتی ہے یا کچھ معیشت کا ذکر ہوتا ہے۔ لیکن عمران خان کی قسمت ، تان اسکی ذاتی زندگی اور بہت ہی ذاتی قسم کے گھٹیاالزامات پر ٹوٹتی ہے۔ اس سارے معاملے کو بغور دیکھیں تو ایک ہی وجہ سمجھ آتی ہے کہ سیاست میں قیادت پر ایسے لوگ معمور ہیں جنکی کرپشن اور بد عنوانی کا دفاع کرنا انکے کاسئہ لیسوں کے لئے دن بدن مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس کا قدرتی نتیجہ مخالفین پر جوابی الزامات کی صورت میں نکلناچاہئے لیکن یہ الزامات سیاسی قطعاً نہیں ہیں۔ ان الزامات میں غالب عنصر ذاتی نوعیت کا ہے اور الزام لگانے والی جماعت پھرمسلم لیگ (ن)اور اسکے حواری ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو ہو یا کوئی بھی ایسا لیڈر جس کے خلاف حکومت، سیاست اور مالی معاملات میں کوئی گڑ بڑ نہ مل پائے تو پھر بات گالی تک ہی جائے گی۔ہمارے ہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ لیڈر کرپشن کرتے ہیں، سزا یافتہ ہو جاتے ہیں، پوری دنیا میں رسوائی کماتے ہیں لیکن پھر بھی اپنے آپ کو نیک نام اور اعلیٰ اخلاقیات کا حامل سمجھتے ہیں ، انکے بھونپو دن رات انکو اشرف المخلوقات کی بھی کوئی اوپر کی کیٹیگری میں پہنچانے کی لگن میںہوتے ہیں۔ ایک عمران خان ہیں، شادی کر لیں تو بھی نقاد چین نہیں لینے دیتے، اگر مجرد زندگی گزارنے کا سوچیں تو پسّو پڑنے لگتے ہیں،شاید وزیر اعظم سے سسرال کے انتخاب میں غلطی ہو تی آئی ہے ۔