پاکستان اور ایران ایک زمانے میں بہت زیادہ برادر ملک ہوا کرتے تھے۔ اب اگرچہ ’’برادریت‘‘ میں کمی آ گئی ہے لیکن یہ برقرار بدستور ہے اور رہے گی۔ ملاحظہ کیجیے دو خبریں‘ برادریت کے سارے اجزا ان میں مل جائیں گے۔ ایک خبر ایران سے ہے جہاں ایک تیرہ سال کے بچے کو 23سال کی عمر میں پھانسی دے دی گئی۔ سرعام اور دوسری خبر ہے پاکستان میں ایک گیارہ سالہ بچے کو 22سال کی عمر میں رہائی مل گئی۔ برادریت کے اجزا ایک خبر میں کچھ کم دوسری میں کچھ زیادہ ہیں لیکن اس سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ ایسی بے شمار خبریں ہیں‘ کسی میں توازن ہمارے ہاں کم ہے تو کسی میں ادھر۔ سچ ہی کہتے ہیں‘ ہم ایک ہی جیسی ثقافتی اقدار کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ ایران میں جس تیرہ سالہ بچے کو 23سال کی عمر میں پھانسی دی گئی۔ اس کا جرم سرکار نے بتایا نہ عدالت نے اور ایرانی پولیس تو اس قابل ہے ہی کہاں کہ کسی خبر کو ’’ڈگ‘‘ کر سکے۔ ماشاء اللہ سے ہمارے پریس کا بھی ایسا ہی شاندار مستقبل منتظر ہے۔ کچھ زیادہ دیر کی بات نہیں۔ کوئی نہ کوئی تو سنگین جرم اس نے کیا ہو گا جو تیرہ سال کی عمر میں پکڑا گیا اور پورے دس سال قید تنہائی کی سزا کاٹتا رہا۔ لیکن سزا پھر بھی پوری نہ ہوئی۔ تین روز پہلے سرعام کرین کے ذریعے لٹکا کر پھانسی دے دی گئی۔ اس کی ماں اور بہنیں فضا میں رقص بسمل کا تماشا دیکھنے والے مجمعے میں کھڑی تھیں اور ان کی آہ و زاری اور گریہ سے فضا گونج رہی تھی۔ لڑکے کے گلے میں پھندا ڈال کر اسے کرین سے باندھا گیا اور پھر کرین کا بازو کوئی پچاس فٹ فضا میں بلند ہوا۔ ایک ہی جھٹکے سے لڑکے کی گردن نہیں ٹوٹی‘ وہ دیر تک تڑپتا اور زور زور سے جھولتا رہا۔ اور اس کے ہر جھٹکے پر اس کی ماں اور بہنوں کے بین اور بھی اونچے ہو جاتے۔ تیرہ سال کی عمر میں جب اسے قید تنہائی میں ڈالا گیا تو اس کی عمر وہیں منجمد ہو گئی تھی‘ رک گئی تھی چنانچہ پھانسی 23سال کے نوجوان کو نہیں‘ تیرہ سال کے بچے کو دی گئی۔ ایران میں ایسے واقعات عام ہیں لیکن بس کسی واقعے کی ویڈیو باہر آ جاتی ہے تو لوگوں کو پتہ چلتا ہے۔ ویڈیو بنانے والے جان پر کھیل کر یہ کام کرتے ہیں‘ جو پکڑے جاتے ہیں‘ انہیں بھی لٹکا دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں چار پانچ روز پہلے گیارہ سال کے جس بچے کو 22سال کی عمر میں رہائی ملی‘ اسے پانچ من چرس کی سمگلنگ کے جرم میں پکڑا گیا تھا۔ ہمارے نظام تفتیش و عدل کے قربان جائیے‘ کسی عام پنچایت کا سرپنچ جس بات کو ایک منٹ میں معلوم کر لیتا اسے جاننے میں اس نظام کو گیارہ سال لگے۔ گیارہ سال کے اس بچے کے گیارہ سال قید خانے میں کٹے، چنانچہ پچھلے ہفتے جو رہا ہوا، 22 سال کا جوان نہیں تھا۔گیارہ سال کا بچہ تھا جو اگلے سال بارہ سال کا ہو جائے گا۔ اس ماتحت منصف یا منصفوں کے لیے بہرحال کوئی ایوارڈ ہونا چاہیے جن کی عقل سلیم نے نابالغ بچے کو پانچ من چرس کا ’’سمگلر ‘‘ مان لیا۔ نہ مانا ہوتا تو وہ ایک دن بھی گرفتار نہ رہتا۔الٹا مقدمہ بنوانے والوں کو طلب کیا جاتا۔ ایران اور پاکستان کے درمیان مشترکہ اخلاقی اور ثقافتی اقدار اور برادریت کی ایسی خبریں پہلے بھی ہر دو مکان سے آتی رہتی ہیں۔ موازنہ و مماثلہ کرنے والے البتہ دستیاب نہیں رہے اور یاد رہے کہ ایسی مشترکہ اخلاقی اور ثقافتی برادریت ہماری بھارت والوں کے ساتھ بھی ہے اگرچہ وہاں کاروکاری اور بچے ماری کا نام کچھ اور ہے۔ ٭٭٭٭٭ شام کے واحد آزاد علاقے ادلیب میں بہت بڑی خونریزی کا خطرہ ٹل گیا ہے۔ اگرچہ نہیں کہا جا سکتا کہ کتنی دیر کے لیے۔ روس شام اور ایران اس پر بھر پور حملے کا فیصلہ اور تیاری کر چکے تھے‘ روس نے بمباری بھی شروع کر دی تھی۔ دو دن متواتر اس نے شدید بمباری کی۔ پھر یہ بدلائو کیسے آیا؟ اقوام متحدہ نے صورت حال پر شدید تشویش ظاہر کی اور امریکہ نے بھی وارننگ دی لیکن جس بات نے صورتحال بدلی دی وہ ترکی کا یہ اعلان تھا کہ وہ ادلیب میں فوجی کارروائی کرے گا۔ اس نے اپنی فوج کے کچھ دستے اس جنگ کے لیے مہیا کئے اور ادلیب میں موجود مختلف حریت پسند تنظیموں میں اتحاد کرا کے کوئی تیس ہزار کے قریب فورس متحد کر دی۔ روس کو اندرونی ذرائع سے پتہ چل گیا کہ ترکی یہاں مقابلے کے لیے سنجیدہ ہے۔ ترکی کے صدر اردوان جو الیپو کے مسئلے پر ہوشیار اور چالاک پیوٹن سے دھوکہ کھا چکے تھے‘ اس بار روس کی تائید نہ کرنے کے عزم پر ڈٹ گئے۔ صورتحال کا نقشہ یوں ہے کہ ادلیب جس کی موجودہ آبادی 20سے 30لاکھ (شامی پناہ گزینوں کی وجہ سے) بتائی جاتی ہے۔ شمال مغرب میںترکی سے ملتا ہے اور شمال میں اس علاقے سے جو ترکی کے حامی جنگجوئوں نے اپنے قبضے میں لے رکھا ہے۔ عملاً اس علاقے پر جس میں عفرین Ifrinبھی شامل ہے‘ ترکی کا کنٹرول ہے۔ ادلیب کے شمال مغرب میں ارض روم کا ترک علاقہ ہے جس کے بارے میں شام کا دعویٰ ہے کہ یہ اس کا ہے۔ مشرق اور جنوب میں شامی فوج کے زیر قبضہ علاقہ ہے۔ ترکی کے اس اقدام سے پیوٹن ایک بار تو پسپا ہونے پر مجبور ہو گئے چنانچہ ان کی درخواست پر ہونے والی ملاقات میں روس اور ترکی نے فیصلہ کیا ہے کہ جنگ نہیں ہو گی اور ادلیب کی شامی سرحد پر 15سے 25کلو میٹر چوڑی بفر پٹی بنائی جائے گی جس میں روس اور ترکی کے فوجی مشترکہ گشت کریں گے۔ روس نے اس فیصلے میں ایران کو شامل کیا نہ اپنے اتحادی بشار الاسد کو۔ ایران یہ کڑوا گھونٹ خاموشی سے پی گیا ہے۔ آئندہ دیکھیے کیا ہو۔ ٭٭٭٭٭ وزیر خزانہ اسد عمر نے انکشاف کیا ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ چلیے‘ کسی کام میں تو تیزی آئی۔ ویسے تین ماہ پہلے تک تو زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ ہی رہے تھے‘ آہستہ آہستہ ہی سہی‘ بڑھ رہے تھے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری میں بھی ان دو مہینوں میں تیزی سے کمی آئی ہے اور چالیس فیصد کمی ہو گئی ہے۔ شرح افزائش بھی کم ہونے کی صورت حال ہے اس لیے حکومت نے خود ہی اس کا ہدف کم کر دیا ہے۔ خدا معلوم کیا ماجرا ہے‘ ہر شے آگے کو جا رہی تھی‘ پھر نہ جانے کس ہریالے نے اپنے ہرے بھرے قدم رکھ دیے اور ماجرا یہ ہو گیا کہ جنگل کا جنگل ہی پیلا ہونے لگا ہے۔ ایک اپوزیشن رہنما نے کہا ہے کہ حکومت نے آتے ہی مہنگائی کا کوڑا سنبھال لیا ہے۔ ایک وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ مہنگائی میں معمولی اضافہ ہو گا۔ خبر ہے کہ صرف گیس مہنگی کرنے سے حکومت عوام سے 95ارب روپے وصول کرے گی۔ ایک اخبار کے تجزیہ نگار نے بتایا ہے کہ مجموعی طور پر عوام کو دوگنی مہنگائی کا سامنا ہو گا یعنی سو فیصد اضافے کا صرف تیس دنوں میں۔’’سوفیصد‘‘نتیجہ کمال ہے۔ ٭٭٭٭٭ ایک خبر ہے کہ جنوبی پنجاب کا صوبہ بنانے کے لیے حکومت کو مسلم لیگ کی مدد درکار ہو گی۔ اس کے بغیر وہ نیا صوبہ نہیں بنا سکتی۔ مسلم لیگ مدد دینے سے انکار نہیں کر سکتی۔ وہ خود نئے صوبے کی حمایت کر چکی ہے لیکن بالیقین معاملہ یہاں تک نہیں پہنچے گا۔ کم و بیش ساڑھے چار سال کے لیے نئے صوبے کے بارے میں کسی بھی پیشرفت کو بھول جائیے۔ ہاں الیکشن سے چھ ماہ پہلے یہ مسئلہ ایک بار پھر زور و شور سے اٹھے گا‘ اعلانات ہوں گے‘ وعدے وعید کئے جائیں گے‘ روڈ میپ دیا جائے گا پھر اگلے الیکشن کے بعد مزید ساڑھے چار سال کیلئے ٹھنڈ پروگرام ہو گا۔ پنجاب کو حصوں میں بانٹنا ماورائی عناصر کے مفاد میں نہیں ہے۔ ماورائی عناصر کا مفاد الیکشن سے چار چھ ماہ پہلے اس معاملے کو اٹھاتے رہنے میں ہے۔