ایک روز اس نظام کی بساط لپیٹ دی جائے گی یہ ناتمام کائنات اپنی تکمیل کو پہنچے گی۔یہ مضبوطی سے ایستادہ پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اُڑتے پھریں گے۔ اُس روز کامیابی اور فلاح کی ضمانت صرف اُسی کے لیے ہے جواس کائنات کو تخلیق کرنے والے کے نظام پہ کھڑارہا۔ وہ نظام جو اس زمین وآسمان کے تنہا خالق نے نبی ِآخرالزماںﷺ کے ذریعے مکمل کردیا ہے۔ اب تا حشر زمانے کی فلاح اسی دین اور اسی نظام میں ہے۔ اب جس کو روشنی درکار ہے اُسے اسی چراغ سے اپنا راستہ متعین کرنا ہو گا۔ ایک بنیادی فلاحی ریاست کا قیام کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا جب تک کہ اسلام کے ان دو اُصولوں پر ان کی مکمل روح کے ساتھ عمل درآمد ممکن نہیں ہوتا۔ یہ دو اُصول تقسیم وراثت اور زکوٰۃ ہیں۔ جو معاشرے میں اُونچے طبقے اور نچلے طبقے کے تفاوق کو کم کرکے ایک متوازن معاشرے کے قیام کی راہ ہموار کرتا ہے۔ موضوع تقسیم وراثت کے متعلق ہے نا ہی زکوٰۃ کے نصاب و مصارف کی تفصیل مقصود ہے۔ عمومی طور پر ہمارے معاشرے میں زکوٰۃ ادا کرنے کو زیادہ اجر و ثواب کے لالچ میں فقط رمضان کے مبارک مہینہ کے ساتھ مخصوص کر دیا گیا ہے سو اس عمل سے جو اشکالات یا غلط فہمیاں رواج پکڑ رہی ہیں ان کا تدارک بے حد ضروری ہے تاکہ اس عمل کے ثمرات سے کما حقہ مستفید ہو اجا سکے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ زکوٰۃ صاحب نصاب پر فرض ہے ۔اگر آپ صاحب نصاب نہیں ہیں تو آپ پر یہ فرض ہی نہیں۔ نصاب کا اطلاق اس وقت ہو گا جب اس پہ ملکیت کو ایک برس مکمل ہو جائے ۔ یہ بات دھیان میں رہے کہ سال مکمل ہونے سے مراد قمری سال ہے ، یعنی اسلامی سال مکمل ہو چکا ہو ۔مثال کے طور پر اگر ایک فرد یکم محرم 1444ہجری کو صاحب نصاب ہوجاتا ہے اور یہ نصاب اس کی ملکیت میں یکم محرم 1445 تک محفوظ ہے تو اس پر زکوٰۃ کا اطلاق یکم محرم1445 سے ہی ہو جائے گا کیونکہ اس نصاب پر اُصول کے مطابق ایک برس مکمل ہو چکا ہے۔ سو اب آپ کو اس مال کا چالیسواں حصہ یا اڑھائی فیصد سورہ التوبہ کی آئیت نمبر 60 میں بیان کردہ مصارف میں سے کسی ایک پر خرچ کرنا ہو گا ۔مگر ہمارے ہاں عمومی طور پر یہ عمل رمضان میں سر انجام دیا جاتا ہے جو کہ سراسر نادرست ہے ۔ اس کی دو وجوہات ہیں ایک تو یہ کہ آپ نے ایک برس کے بنیادی اُصول سے انحراف کیا دوسرا اس عمل کی بنیادی روح کو پامال کیا۔ زکوٰۃ کا مقصد نچلے طبقے کو اوپر اُٹھانا ہے یا ان کی ضرورت کے مطابق ڈھارس بندھانا ہے تو یہ عمل صرف اُسی صورت میں سارا سال جاری رہ سکتا ہے اگر آپ اس کے بنیادی اُصول کے ساتھ جُڑے رہیں۔مثال کے طور پر ضرورت مند کو تقاضا فروری میں مدد کا ہے جبکہ آپ یہ کہہ کر اُسے ٹال دیں کہ میں تو اپریل میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں کیونکہ میں تو صرف رمضان میں ہی زکوٰۃ ادا کرتا ہوں تو اس عمل کی ساری روح فوت ہو جاتی ہے اور جو ثمرات اس عمل سے مقصود تھے وہ معدوم ہو جاتے ہیں ، ضرورت مند، ضرورت مند ہی رہا ۔ جسے ضرورت ہے اس کی ضرورت اُسی وقت پوری کردینا زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے اگر نہیں ہو گی تو وہ فرق ویسے کا ویسے باقی رہے گا اور ہمارا معاشرہ حقیقی خوشحالی سے کوسوں دور ہی رہے گانیزاسلام جس اعلی اخلاقی تعلیم اور ترغیب کے نہائیت کارآمد طریقوں سے جس سخاوت ، فیاضی اور امدادِ باہمی کے جذبہ کی راہیں ہموار کرتا ہے وہ مفقود ہی رہیں گی اور معاشرہ اصل ثمرات تک نہیں پہنچ پائے گا۔سو حاصل ِ تفصیل یہ ہے کہ اس عمل کا باقاعدہ حساب کیا جانا چاہیے اور جب صاحب ِنصاب پر اطلاق ہوجائے، زکوٰۃ کی ادائیگی کا آغاز تب سے ہی شروع کر دینا چاہیے ۔اس سے ناصرف آپ اس عمل کے درست اجر کے حقدار قرار پائیں گے بلکہ معاشرہ بھی اس کے حقیقی ثمرات تک پہنچ سکے گا۔ اس سلسلے میں ایک اور عمل عمومی طور پر دیکھا جاتا ہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی اندازے سے ہی کردی جاتی ہے اس کا باقاعدہ حساب کتاب نہیں کیا جاتا۔ یہ عمل بھی دراصل پہلے عمل کا ہی نتیجہ ہے اگر آپ اپنے نصاب اور صاحب نصاب ہونے کے درست وقت کا تعین نہیں کریں گے تو نتیجے میں آپ اندازے سے ہی زکوٰۃ ادا کریں گے ۔ یہ عمل بھی نا درست ہے ۔ صاحبِ حیثیت کو اپنے صاحبِ نصاب ہونے کا باقاعدہ اندراج کرنا چاہئے اور اُسی تاریخ کے حساب سے باقاعدہ مالِ تجارت، مال، سونا، چاندی وغیرہ کے موجودہ ذخیرہ کے لحاظ سے زکوٰۃ نکالنی چاہیے ۔ ہاں اس امر کی رعائت ضرور ہے کہ یہ زکوٰۃ چاہے آپ بتدریج ادا کرتے رہیں یا ایک بار ہی ادا کر دیں۔ اس ضمن میں چند مزید باتوں کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ آپ پر زکوٰۃ صرف اسی صورت میں لاگو ہو گی اگر یہ آپ کی واضح ملکیت میں ہو ،بنیادی ضروریات سے زائد ہو، کوئی قرض باقی نہ ہو اور اس مال میں یہ خصوصیت بھی ہو کہ یہ بڑھ سکتا ہو۔ ایک کامیاب معاشرے کے قیام کے لئے زکوٰۃ کا باقاعدہ عمل اتنا ضروری ہے کہ جب آپﷺ کے وصال فرما جانے کے بعد کچھ لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکا ر کیا تو حضرت ابو بکر صدیق نے ان کے خلاف واضح اعلان جنگ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہر وہ شخص ویسے ہی زکوٰۃ ادا کرے گا جیسے وہ آپﷺ کی موجودگی میں ادا کرتا تھا ، چاہے وہ ایک بکری کا بچہ ہی کیوں نہ ہو۔ نبی کریمﷺ کا فرمانِ مبارک ہے کہ بہترین خیرات وہ ہے جس کے دینے کے بعد آدمی مالدار رہے۔پھر پہلے صدقہ اُنہیں دو جو تمہارے زیرِ پرورش ہیں۔آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ اُوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے ، پہلے اُنہیں دو جو تمہارے بال بچے اور عزیز ہیں اور بہتریں صدقہ وہ ہے جسے ادا کر کے بھی آدمی مالدار رہے اور جو کوئی سوال سے بچنا چاہے گا تو اللہ تبارک وتعالی بھی اُسے محفوظ رکھیں گے اور جو دوسروں (کے مال) سے بے نیاز رہتا ہے تو اللہ تعالی اُسے بے نیاز ہی بنادیتے ہیں۔