چند ماہ قبل بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی کا کھیل چاغی ڈاکٹرائن کے تحت کھیلا گیا۔ انہی صفحات پر تحریر کرچکا ہوںکہ بلوچستان سے شروع ہونے والا کھیل لاہور سے براستہ جی ٹی روڈ سے اسلام آباد جائیگا۔ ایسا کیوں تھا اس دلیل کی بنیاد کیا تھی سب سے پہلے اس کی وضاحت ضروری ہے کیونکہ وزیر اعظم عمران خا ن چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور پرویز خٹک کیساتھ بلوچستان میں جام کمال کی حکومت کو گھر بھیجنا چاہتے تھے۔ جس کے لئے انہیں بی اے پی کے قدوس بزنجو کے دھڑے کی حمایت حاصل تھی اور ساتھ میں پی ڈی ایم کی دو جماعتیں جے یو آئی ف اور بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل چاہتی تھیں کہ جام کمال کی جگہ اگر قدوس بزنجو کو لایا جاتا ہے تو انہیں کچھ ریلیف ملے گا۔ راقم کی معلومات کے مطابق آصف علی زرداری نے اسوقت اپنی ڈاکٹرائن کا لے آئوٹ تشکیل دینا شروع کردیا تھا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اگر بلوچستان عوامی پارٹی کی حکومت گرسکتی ہے تو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو گرانا کچھ مشکل نہیں۔ ا سی لئے جام کمال کی حمایت کرنے والے ایک اہم پارلیمنٹیرین اور قبائلی شخصیت کو پیغام بھیجا کہ زیادہ جذباتی نہ ہوں۔ انتظار کریںاس شخصیت نے پیغام رساں کو بتایا کہ وہ جام کمال کی حمایت سے دستبردار نہیں ہوسکتے ۔ دوسرا پیغام ملا کہ ہم نے کب کہا جام کمال کی حمایت نہ کرو۔ ہم کہہ رہے ہیں جذبات میں مت آئو۔ جو ہو رہا ہے ہونے دو اس کے اثرات مارچ تک اسلام آباد آئینگے اور ہم لائینگے اور آپ ہم سب ساتھ چلیں گے۔ فی الحال یہ کڑوا گھونٹ پی لو۔ آصف علی زرداری جانتے تھے کہ بلوچستان کی سیاسی اور پارلیمانی شخصیات صادق سنجرانی اور قدوس بزنجو کے ذریعے بلوچستان کے فیصلوں کو پسند نہیں کرتے بالخصوص بلوچستان عوامی پارٹی کے چند سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اراکین جام کمال کیساتھ ہوں یا نہ ہوں لیکن وہ وزیر اعظم کی جانب سے اپنے نظر انداز کئے جانے کو دل میں لئے بیٹھے ہیں۔ اب کھیل زرداری ڈاکٹرائن کے مطابق جاری ہے آصف علی زرداری نے بلوچستان میں موجود اپنے رابطوں سے اپوزیشن کی جماعتوں جے یو آئی ایف اور بی این پی مینگل کے علاوہ حکومتی اتحاد کے تقریباً چھ اراکین قومی اسمبلی اپنے ساتھ ملا کر یہ تاثر دیا ہے کہ بلوچستان میں اپنے تعلقات پر وہ بلوچستان کے اراکین قومی اسمبلی پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ اس لئے اب بلوچستان میں بیس اراکین قومی اسمبلی میں سے تقریباً سترہ اراکین و اراکین قومی اسمبلی اپوزیشن اتحاد کا حصہ ہیں۔ جبکہ وزیر اعظم عمران خان کے پاس صرف اپنی جماعت کے تین اراکین ہیں۔ عدم اعتماد کی ووٹنگ تک ان تین میں بھی ایک کی کمی کا امکان ہو سکتا ہے۔۔ اس سارے عدم اعتماد کے کھیل میں آصف علی زرداری کو بلوچستان نے ن لیگ کے مقابلے میں آگے لا کھڑا کیا ہے بڑے صوبے کی بڑی جماعت ہونے کے باوجود ن لیگ کیلئے اتحادیوں کو توڑنا آسان نہیں تھا یہ کام آصف علی زرداری نے کردکھا ہے۔ جس کا وہ دعویٰ پہلے کرتے رہے ہیں کہ وہ اس فارمولے کو جانتے ہیں جس کے تحت وزیر اعظم کو گھر بھیجاجا سکتا ہے۔ آصف علی زرداری اپنی ڈاکٹرائن کے تحت عمران خان کو نکال کر یہ ثابت کرنا چاہتے تھے وہ بڑے سیاسی مینیجر ہیں ۔ اس صورتحال میں حکومت کے خدوخال کیا ہونگے یہ کہنا قبل از وقت ہے ۔ابھی تک اپوزیشن میںموجود سردار اختر مینگل بلوچستان میں تبدیلی کیلئے تیار نظر نہیں آرہے ہیں کیونکہ مولانا فضل الرحمان اور آصف علی زرداری بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی کا عندیہ دے چکے ہیں۔ جو بھی ہو فی الحال وزیر اعظم عمران خان کی عدم اعتماد کا فیصلہ ہوناہے تو اس کے بعد پنجاب بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں زرداری ڈاکٹرائن کے تحت حکومتیں بدلنے کی کوششیں ہونگی۔ اب ملک اور چاروں صوبوں کا نظام زرداری ڈاکٹرائن پر چلے گا یا پھر شہباز شریف کے قومی حکومت کے شہباز فارمولے پر چلے گا۔ اس کا فیصلہ عوام اور سیاستدانوں نے کرنا ہے۔ لیکن ملک کو درپیش چیلنجز اور سیاسی مسائل کو دیکھ کر یہاں راقم کو میر حاصل خان بزنجو مرحوم کی آخری دنوں کی ایک ملاقات میں کی گئی ایک بات یاد آتی ہے جسے وہ بار بار دہراتے رہے کہ ملک کو بہتر انداز میں چلانے کیلئے ایک گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی ضرورت ہے جس کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کوایک چھت کے نیچے میز پر بیٹھ کر میثاق جمہوریت میثاق معیشت سے آگے بڑھ کر گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کا آغاز کرکے وفاق کو مضبوط کرنے اکائیوں کو خود مختار بنانے کیلئے روڈ میپ ترتیب دینا ہوگا۔ ان کی بات کو یاد کرکے اس وقت موجودہ سیاسی اور پارلیمانی صورتحال کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اہل سیاست اگر چند سال یوں ہی الجھتے رہے تو ملک کو کسی پالیسی کا تسلسل نہ ہونے کے نتیجے میں جو نقصان ہوگا اسکا مداوا ممکن نہیں ہوگا۔ اسلئے اگر جلد از جلد ملک کے تمام گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی طرف نہیں بڑھے تو وزراء اعظم یا وزرا اعلٰی کی تبدیلی سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ عوام یعنی جمہور سے لاتعلق سیاستدانوں سے اگر عوام لاتعلق ہوئی تو ساری ڈاکٹرائن اور فارمولے ناکام ہونگے پھر عوام اپنا راستہ بنائیںگے اور پھر چہرے جماعتیں ا ور شخصیات نہیں بہت کچھ بدلے گا ۔