کئی دنوں سے ہر روز ایسا ہو رہا ہے کہ راتوں رات مسلم لیگ کے بینر اور پینا فلیکس وغیرہ غائب ہو جاتے ہیں۔ کس برمودا ٹرائنگل میں چلے جاتے ہیں‘ کچھ پتہ نہیں گزشتہ روز سابق وزیر اعظم اور لیگ کے رہنما شاہد خاقان عباسی اس پر بول اٹھے۔ کہا پتہ نہیں، ہمارے بینر اور فلیکس وغیرہ کیوں اتارے جا رہے ہیں، کون اتار رہا ہے۔ تحریک انصاف کے بینر اور فلیکس چونکہ ماحول دوست اور حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق ہیں وہ بدستور لگے رہتے ہیں۔ لیگ کے بینرز ’’عوام‘‘ کے لیے مضر صحت ہیں چنانچہ حفظان صحت کے اصولوں اور حفظ ماتقدم کی پالیسی کے تحت یہ کام ہو رہا ہے۔ مطلب ایسا لگ رہا ہے کیا پتہ محکمہ ماحولیات ہو‘ شفاف الیکشن کے لیے آلودگی ہٹا رہا ہو۔ ٭٭٭٭٭ عمران خان نے ثابت کر دیا ہے ان کے پاس ہر مسئلے کا حل ہر سوال کا جواب ہر الجھن کی سلجھن موجود ہے اور ایسے ہی لیڈر کی پاکستان کو ضرورت ہے۔ ڈینگی کے مسئلے پر پنجاب حکومت کتنا ’’کھپی‘‘ تھی۔ یاد ہو گا کئی محکموں کے ملازموں کی شامت آ گئی تھی بے شمار فنڈ خرچ ہوا، لمبی چوڑی مہم چلی پھر کہیں مسئلہ حل ہوا۔ خان صاحب کے صوبے میں ڈینگی پھیلا تو انہوں نے چٹکی بجاتے ہی مسئلہ حل کر دیا۔ فرمایا سردی آئے گی تو ڈینگی خود بخود ختم ہو جائے گا۔ اسے کہتے ہیں تدبر‘ اسے کہتے ہیں وژن۔ یہ فرما کر خان صاحب اپنی ہر فن مولائی اور دانش دیومالائی کو داد دیتے ہوئے پہاڑوں پر چڑھ گئے اور سردیاں آنے تک وہیں رہے۔ یہ تو پرانی مثال تھی نئی بات یہ ہوئی کہ بوریوالہ میں انہوں نے جلسہ کیا۔ جلسہ تو ہوا پر لوگ کچھ خاص تعداد میں نہیں آئے۔ اخبار نویس حیران کارکن پریشان تھے۔ خان صاحب نے چٹکی بجاتے ہی حیرانی پریشانی دور فرما دی۔ کہا! بوریوالہ والوں کو گرمی بہت لگتی ہے اسی لیے نہیں آئے۔ جلسہ سورج غروب ہونے سے کچھ ہی پہلے ہوا۔ تب تک شام کے سائے پھیل چکے تھے اور دو ایک دن سے ویسے بھی درجہ حرارت کم ہی رہا۔ بہرحال اچھا ہوتا خان صاحب دوچار ارب درخت بوریوالہ میں لگوا دیتے۔ ٭٭٭٭٭ شیخ رشید کی ایک اور پیش گوئی پوری ہونے والی ہے۔ دو ہفتے یا زیادہ سے زیادہ چار ہفتے پہلے انہوں نے پیش گوئی فرمائی تھی کہ ان کے حریف حنیف عباسی الیکشن سے پہلے پہلے جیل میں ہوں گے اور اب خبر آ گئی۔ شیخ جی واقعی بہت پہنچے ہوئے ہیں‘ آسمانوں پر جو تقدیر لکھی جاتی ہے لکھے جانے کے ساتھ ہی اس کی نقل شیخ جی کو مل جاتی ہے۔ شیخ جی عباسی صاحب تو گرفتار ہو کر رہیں گے ‘ آپ پھر بھی نہ جیتے تو دوش کس پر دھریے گا؟ ویسے سنا ہے چند روز پہلے ہی آپ نے یہ فریاد محکمہ زراعت کے ’’ڈاکداروں ‘‘ تک پہنچائی تھی کہ چھیتی بوھڑیں وے طبیبا نئیں تے میں ’’رڑھ‘‘ گئی آں… ٭٭٭٭٭ بدھ کی شام لندن میں نواز شریف نے پریس کانفرنس کی جو اس طرح سنسر ہوئی کہ بقول ابن انشا دامن میں سو چھید ہوئے ‘ سو سے بھی زیادہ بہرحال اس تقریر کے بعد سبھی چینلوں پر پھر بقول ابن انشا شب بھر رہا چرچا تیرا والا منظر رہا۔ انہوں نے بہت کچھ ایسا کہا جو پہلے کبھی نہیں کہا تھا، بلکہ کسی نے بھی نہیں کہا تھا اور بہت کچھ ایسا بھی تھا جو وہ نہیں کہہ پائے یعنی کہتے کہتے رہ بھی گئے۔ سنا ہے کہ کچھ ’’آڈیو‘‘ ریکارڈ کرا دی گئی ہیں جو ان کی جیل جانے کے بعد گاہے بگاہے منظر عام پر آتی رہیں گی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان کے جو فقرے سنسر ہوئے اینکر حضرات انہی میں سے بعض کو حوالہ دے دے کر زیر بحث لاتے رہے۔ ہر جگہ ہر طرف اسی پر بحث ہو رہی ہے اور بحث کا ایک سوال یہ بھی ہے کہ یہ جنگ کون جیتے گا۔ جو مسلم لیگ سے ہمدردی رکھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہم جیتیں گے اور جو اس سے ’’بے دردی‘‘ رکھتے ہیں ان کی پیش گوئی ہے کہ مسلم لیگ ہارے گی۔ کوئی کیا کہہ سکتا ہے کہ پردہ غیب میں کیا لکھا ہے اور کون جیتے گا کون ہارے گا، لیکن جو بات سامنے ہے وہ یہی ہے کہ ستر سال میں دنیا کی طاقتور ترین اشرافیہ کو پہلی بار ایک بہت بڑے چیلنج کا سامنا ہے اور چیلنج کتنا بڑا ہے‘ اشرافیہ اور اس کے وابستگان کے ’’قول و فعل‘‘ سے پوری طرح آشکارا ہے۔ فی الحال اس سے زیادہ کیا کہیے کہ ڈیوڈ اور گولائتھ کی جنگ ہے۔ ٭٭٭٭٭ تین چار دن ہو گئے جب ایک تجزیہ نگار اور ٹی وی میزبان سلیم صافی نے پرویز خٹک کے اسلام آباد والے مہمان خانے میں سرکاری چائے کے ہوشربا اعداد و شمار بتائے اس مہمان خانے میں پلائی جانے والی سرکاری چائے کی مالیت تو کروڑھا روپے میں ہے لیکن اس میں صرف وہ چائے جو خٹک صاحب نے ان ٹی وی میزبان کو پلائی محض اس کی مالیت ایک لاکھ 90ہزار روپے تھی۔ ٹی وی میزبان کا نام سلیم صافی ہے وہ شکر منائیں کہ ابھی تک جناب جاوید اقبال صاحب نے ان کا پروگرام دیکھا نہ اس کی خبر پڑھی ورنہ اب تک وہ سرکاری خزانے سے ایک ہی نشست میں ایک لاکھ 90ہزار روپے کی چائے پینے کے جرم میں اندر کیے جا چکے ہوتے۔ آخر سرکاری خزانہ ہے اور آخر جاوید اقبال صاحب بلا امتیاز سب کا احتساب کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ جہاں تک خٹک صاحب کی بات ہے ان کی ایمانداری کی داد دینا ہو گی۔ چاہتے تو ایک لاکھ 90ہزار کی چائے کو کاغذوں میں معمولی سا ردوبدل کر کے دو لاکھ کی دکھا سکتے تھے یوں دس ہزار کما لیتے لیکن انہوں نے حرام کے دس ہزار پر لعنت بھیجی ‘ بہت اعلیٰ۔ ٭٭٭٭٭ سیریل کلر رائو انوار کی رہائی پر کچھ لوگوں نے حیرت ظاہر کی ہے ان حضرات کی مقدار آٹے میں نمک سے بھی کم ہے چنانچہ یہ حیرت کوئی قابل ذکر خبر نہیں بن سکی۔ ویسے حیرت کا کوئی موقع محل نہیں تھا۔ وہ گرفتار ہی کب تھے۔ ان کے گھر کو سب جیل قرار دیا گیا تھا اور سچ میں دیکھیے تو پورا ملک ہی ان کے لیے سب جیل تھا، جس میں وہ جہاں چاہتے آ بھی سکتے تھے جا بھی سکتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ اپنی گوناگوں کاروباری سرگرمیوں میں رات دن مصروف ہونے کے باعث وہ اس سہولت کا استعمال نہیں کر سکے۔ ان کی اتنی بڑی بزنس ایمپائر ہے جس کے درجن بھر شعبے ہیں۔ مثلاً ٹارگٹ کلنگ کا شعبہ، چائنا کٹنگ کا شعبہ، اغوا برائے تاوان کا شعبہ، بھتہ خوری کا شعبہ، قبضہ گیری کا شعبہ، پھر وہ عظیم الشان لیبارٹری جس میں زندہ انسانوں کی چمڑی ادھیڑنے کے سائنسی تجربات کئے جاتے تھے۔ریاستی اثاثہ پہلے بھی رہا تھا آج بھی رہا ہے کل بھی رہے گا۔ حیرت تو ان کی کم عقلی پر ہے جو حیرت ظاہر کر رہے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ آصف زرداری کی مشکل قدرے کم ہوئی ہے۔ ن لیگ سے رابطہ ایک چابی تھی، رابطہ نہیں تھی۔ اس سے بھی بڑی چابی اور تھی۔ ایک نجی محفل میں فرمایا ‘ سنجرانی کہانی کے غیر مطبوعہ حصے منظر عام پر لانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ مشکل کا تالا اگلے ہی روز کھل گیا۔ زرداری جی کے پاس ہر تالے کی چابی۔