پانچ فروری 2023ء کو پاکستان کی تاریخ کے مضبوط ترین فرد سابق صدر پرویز مشرف دبئی میں انتقال کر گئے۔ پرویز مشرف جس نے ایک منتخب وزیر اعظم کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا۔جس نے اس وقت کے چیف جسٹس کو سڑک پر لاکھڑا کیا۔ پرویز مشرف جس نے اپنی بنائی ہوئی جماعت پاکستان مسلم لیگ ق کو اقتدار سے محروم کردیا اور اپنی مخالف جماعت کو اقتدار میں بٹھا دیا۔ پرویز مشرف جس کی وجہ سے ہم پاکستانی تاریخ کی طویل ترین دہشت گردی کی جنگ میں چلے گئے۔ یہ تو کہانی کا ایک رخ ہے پرویز مشرف نے وہ کردیا جو ہمارے ہاں جمہوری قوتیں آج تک نہیں کر سکی۔ پرویز مشرف کے دور میں نجی نیوز چینل کھولے گئے اور عوام کو کچھ خبر کے ساتھ بہت سی سنسنی خیزی ملی ورنہ پاکستان ٹیلی ویڑن کا خبر نامہ 58 سال کے بعد بھی وزیر نامہ اور مشیر نامہ ہے جہاں خبر کے علاوہ سب کچھ مل جاتا ہے۔پرویز مشرف کے دور میں جو ترقی ہوئی اسکی مثال صرف ایوب کے دور سے مل سکتی ہے ورنہ عوام کو صرف جمہوریت کا ترانہ ملا ہے نہ جمہوریت ملی ہے نہ ترقی۔ مشرف کے دامن پے جو تین چار بڑے الزامات ہیں ان میں سے ایک 1999ء میں منتخب حکومت کو چلتا کرنے کا ہے یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ہماری عدلیہ نے نہ صرف مشرف کے اقدام کو تحفظ دیابلکہ اس کو یہ اختیار بھی دے دیا کہ وہ تین سال تک پاکستان کے آئین میں جو جی چاہے ترمیم کرسکتے ہیں۔جس وزیر اعظم کو مشرف نے فارغ کیا اسی وزیر اعظم نے میرٹ کی خلاف روزی کرتے ہوئے مشرف کو چیف آف آرمی سٹاف لگایا تھا۔ورنہ علی قلی خاں میں کیا خامی تھی۔ مشرف کی دوسری غلطی افغانستان میں امریکہ کی جنگ میں حلیف بننا مانی جاتی ہے۔ کہ اس فیصلے کی وجہ سے پاکستان نے طالبان کے خلاف کاروائی میں امریکہ کو اپنی زمیں دی ۔ یہ کام تو ایوب خان نے بھی کیا تھا اس نے پشاور ایئر بیس امریکی کو دیا تھا جس کی وجہ سے روس اور پاکستان کے تعلقات خراب ہوئے۔ جنرل ضیاالحق نے امریکی جہاد میں امریکہ کا ساتھ دیا جس کی وجہ سے پاکستان میں کلاشنکوف ، ہیروئن اور مذہبی اور لسانی تفرقہ بازی کوفروغ ملا۔ مشرف کے بعد 2008ء تا 2018ء تک امریکہ نے پاکستان میں جو ڈرون حملے کئے اس میں مشرف کا تو کوئی کردار نہیں تھا۔پرویز مشرف پر بلوچ راہنما اکبر بگٹی کے قتل کا الزام بھی ہے۔ اکبر بگٹی کے قتل سے بلوچستان میں جو دہشت گردی کا آغاز ہوا اس کے اثرات آنے والے برسوں میں مدتوں رہیں گے۔ پرویز مشرف کا مارشل لا پاکستان کی تاریخ کا چوتھا مارشل لا تھا۔ پرویز مشرف کا مارشل ایک چھوٹی برائی تھا۔انہوں نے ا پنے اقتدار میں وردی اتاری اور الیکشن کروائے۔2002ء کے الیکشن جیسے بھی تھے۔ 2008ء کے الیکشن مشرف کی صدارت میں ہی ہوئے۔ افتخار چوہدری جن کو مشرف نے بر خاست کیا مشرف کے اقتدار کو توسیع بھی اسی افتخار چوہدری نے دی تھی۔ اب اس جمہوری دور میں جو کچھ ہونے جا رہا ہے اسکی مثال مارشل لا کے دور میں بھی نہیں ملے گی۔ جس طرح کی شنید ہے کہ فوج اور عدلیہ کے خلاف تنقید کرنے والوں کے خلاف نئے قوانین بنائے جارہے ہیں۔اب کوئی بھی بات کرے گا وہ پانچ سال کے لئے جیل جائے گا۔ ایک طرف ہماری حکومت کہتی ہے کہ اب مل بیٹھنے کا وقت ہے سب کو ملکر پاکستان کے معاشی بحران کو ختم کرنا چاہئے دوسری طرف روزانہ سیاست دانوں کی گرفتاری اور میڈیا کے لوگوں کو پکڑنا معمول کا کام بن چکا ہے۔شیخ رشید کے ساتھ جس قسم کی دھکم پیل ہوئی وہ قابل مذمت ہے۔ بغاوت اور غداری کے مقدمات کا خاتمہ ہو نا چاہئے۔ کسی کے اقتدار کو یہاں دوام حاصل نہیں۔ پرویز مشرف کا زوال اسی دن ہو گیا تھا جس دن کراچی میں 40 سے زائد افراد کو بے دردی کے ساتھ قتل کر دیا گیا تھا ۔ پاکستان میں معاشی صورتحال خرابی کی آخری سطح پر ہے۔اس وقت پٹرول پمپس پر ڈیزل اور پٹرول میسر نہیں ہے۔ آٹے کی ترسیل بندوقوں کے سائے میں ہو رہی ہے۔ گیس کا سلنڈر ان دس دنوں میں تین ہزار سے 4500 پے جا چکا ہے۔عوام کو اشرافیہ نے احمق بنا رکھا ہے۔ چار فی صد لوگ ملک کے 96 فی صد وسائل پر قابض ہیں۔لوگوں کو تا ثر یہ دیا جا رہا ہے کہ دکان نہیں چل رہی ۔دکان تو چل رہی ہے مگر کیش کاونٹر پر بے ایمان لوگ قابض ہیں۔ اس وقت پاکستان ایک ارب ڈالر کے لئے آئی ایم ایف کی ہر شرط مان رہا ہے۔ دوسری طرف ہماری اشرافیہ کے سینکڑوں ڈالر غیر ملکی بینکوں میں پڑے ہیں۔ صرف دو گھر ہمت کریں تو 30 ارب ڈالر سے زائد پاکستان آسکتے ہیں ورنہ زبانی جمع خرچ کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس وقت عوام پر سارا بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔ ہمارے وہ قومی ادارے جو سفید ہاتھی ہیں ان کو بیچا جائے۔ بیچا جائے مگر میرٹ پر۔ یہ نا کیا جا ئے کہ ان اداروں کو اپنے دوستوں میں مفت بانٹ دیا جائے۔ 200 سے زائد جو گالف کلب جو سرکاری خرچہ پر چل رہے ہیں ان کو بند کیا جائے۔ پی آئی اے میں جو مفت سفر کی سہولت ملازموں کو ہے وہ ختم کی جائے اور واپڈا کے ملازمیں کی مفت بجی کی سہولت ختم کی جائے۔ جو سرکاری سانڈ ہم نے پال رکھے ہیں انکی قربانی کی جائے۔ ورنہ عوام تو دودھ دینے والی گائے ہیں انکا چارہ ان سے ناں چھینا جائے۔ اس بات پر نظر رکھنی چاہئے اگر دودھ دینے والی گائے خوراک ناں ملنے سے مر گئی تو فارم کے بند ہوجانے کا اندیشہ ہے۔ اگر فارم کو چلتا رکھنا ہے تو گائے سے اسکا چارہ مت چھینو ورنہ دودھ پینے والے مجنوں بے موت مارے جائیں گے۔