4اپریل‘ جی ہاں ، چالیس سال بعد بھی پاکستان کی 72سالہ تاریخ میں بانی ِ پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو وہ واحد حکمران اور سیاستدان ہیں جن کی معروف انگریزی اصطلاح میں Legacyیعنی Cultبہ زبان اردو اگر یہ کہوں کہ اُن کی شخصیت اور سیاست کی سحر انگیزی اب بھی اسی آب و تاب سے قائم ہے۔اس سال تو نہیں جا سکا،مگر گزشتہ سال جب سکیورٹی کے سبب میل بھر سے اوپر کا فاصلہ طے کرتا ہوا گڑھی خدا بخش میں داخل ہوا تو سخت گرمی اور تپش میں ہزاروں کی تعداد میں چپلیں پہنے ،پھٹے پرانے کپڑے اجرکیں گلے میں ڈالے مزار کی جانب رواں دواں تھے۔بانی ِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے بعدوزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان سمیت بارہ وزرائے اعظم تو مٹی میں آسودۂ خاک ہوئے۔مگر بھٹو صاحب میں وہ ایسا کون سا کرشمہ ،سحر انگیزی اور بانکپن تھا کہ جس کے سبب چالیس سال بعد بھی وہ گڑھی خدا بخش میں اپنے مزار سے کروڑوں عوام کے دلوں پر راج کر رہے ہیں۔ اور جس کے سبب بھٹوز کے نام پر نہ صرف سندھ میں دہائیوں سے پی پی پی راج کر رہی ہے۔ بلکہ اس کے نام پر ایک پوری فوج ظفرِ موج جس کی آل اولاد کی موجاں ہی موجاں ہیں۔ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ بھٹو صاحب کی سیاست اور شخصیت پر اگر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں کتابیں تو لکھی جا چکی ہیں۔ان کے دشمنوں اورمخالفین کی تعداد اگر ہزاروں میں ہو تو چاہنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہوگی۔یقینا خود بھٹو صاحب کے بقول اگر ان کی موت پر ہمالیہ نہیں بھی رویا ،مگر گزشتہ چالیس سال میں ان کے لئے جتنے آنسو بہے ہوں گے ،وہ ہزاروں نہیںلاکھوں کوزوں میں بھی نہیں سما سکتے۔یہاں تک پہنچا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ 4اپریل کی شب بھٹوصاحب پر لکھتے ہوئے مجھ پر جذباتیت غالب آرہی ہے۔تحریر پر ، خاص طور پر سیاسی شخصیات پر لکھتے ہوئے، جذباتیت غالب آجائے تو یہ خامی میں شمار ہوتی ہے۔سیاستدان ہی نہیں سیاست میںبھی دل نہیں ہوتا۔عوام سے بے پناہ محبت کے دعویدار اور خود کروڑوں دلوں میں بسنے والے بھٹو کے بھی اقتدار کے دنوں میں بد قسمتی سے دل نہیں تھا۔اور شاید اسی سبب وہ ایک کمزور فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں انجام کو پہنچے۔توخود ان کے آبائی گاؤں گڑھی خدابخش میں رونے والوں کی صدائیںاتنی بلند نہ تھیں کہ وہ اسلام آباد تو کیا،لاڑکانہ شہر میں بھی نہیں سنی گئیں۔اسی لئے پاکستان کے اس بدترین فوجی حکمران نے اگلے آٹھ برس ٹھاٹ سے حکومت کی۔یہ اور بات ہے کہ جب قدرت نے اس ڈکٹیٹر سے انتقام لیا تو موت نے پہلے اسے ٹکڑوں میں بانٹا پھر نذرِ آتش کردیا۔بھٹو صاحب ایک کرشمہ ساز ،سحر انگیز سیاستدان تو تھے ہی ۔ مگر بلاشبہ وہ ایک اسٹیٹسمین اور عالمی تاریخ پر نظر رکھنے والے مدبر اور دانشور بھی تھے ۔ جیل کے دنوںمیں انہوں نے جو اپنی آخری کتاب If I am Assassinated موت کی کال کوٹھری سے لکھی۔حالیہ تاریخ میں کسی سیاستدان کی مثال نہیں دی جا سکتی کہ وہ جب اپنی زندگی کے آخری دن پھانسی گھاٹ میں گن رہا ہو تو،ایک ایسی تاریخی دستاویز بھی لکھ سکتا ہے جو ہمارے تاریخ اور سیاست کے طالب علموں کے نصاب میں شامل ہونا چاہئے۔مگر بھٹو صاحب کے حوالے سے اور خود بھٹو صاحب کی تحریروں میں جو تحریر ہمیشہ مجھے hauntکرتی ہے ،وہ خط ہے جو انہوں نے اپنی صاحبزادی بے نظیر بھٹو کو لکھا ۔ My Dearest Daughter صحافی اور ادب کے طالب علم کی حیثیت سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ ایک Piece of Literature ہے۔ اپنی موت سے صرف چند دن پہلے یہ خط محض ایک سیاستدان نہیں لکھ سکتا ۔ایسی تحریر وہی لکھ سکتا ہے جو مادری زبان میں Larger than lifeہو۔بھٹوصاحب کی چالیسویں برسی پر سوچا تھا ایک سلسلہ وار کالم لکھا جائے مگر علم تھا کہ یہ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہوگا۔اس لئے اس کا اختتا م بھٹو صاحب کی اس تحریر سے کر رہاہوں کہ جس میں اپنی بیٹی کو خط لکھتے ہوئے انہوں نے ایک تاریخ سمیٹ دی ۔ اس کا آغاز جذباتیت سے مغلوب ہونا بھی چاہئے۔موت چند قدم کے فاصلے پر ہے اور انہوں نے اس وقت بھی اپنی بیٹی کو سیاست کا وہ درس دیا کہ جسے پڑھ کر بے نظیر بھٹو اپنے شہید والد کے مقام پر پہنچ گئیں۔بھٹو صاحب کے خط کا آغاز دیکھیں کس خوبصورت پیرائے میں کر رہے ہیں، صفحہ نمبر 14کا ایک پیرا دیکھیں: ـ’’میری سب سے پیاری بیٹی، ایک سزا یافتہ قیدی کس طرح اپنی خوبصورت اور ذہین بیٹی کو اس کے یوم پیدائش پر تہذیبیت کا خط لکھ سکتا ہے۔جبکہ اس کی بیٹی (جو خود بھی مقید ہے اور جانتی ہے کہ اس کی والدہ بھی اسی طرح تکلیف میں ہیں)اس کی جان بچانے کے لئے جد وجہد میں مصروف ہے۔یہ رابطے سے زیادہ بڑا معاملہ ہے۔محبت اور ہمدردی کا پیغام کس طرح ایک جیل سے دوسری جیل اور ایک زنجیر سے دوسری زنجیر تک پہنچ سکتا ہے۔ ’’میری بیٹی جواہر لال نہرو کی بیٹی کے مقابلے میں جن کو بھارت میں دیوی کہا جاتا ہے،کہیں بہتر ہے۔میں کوئی جذباتی یا ذاتی قسم کا اندازہ نہیں لگا رہاہوں۔یہ میری دیانتدارانہ رائے ہے۔تم میں اور اندرا گاندھی میں ایک شے قدر مشترک ہے۔کہ تم دونوں یکساں طور پر بہادر ہو۔تم دونوں پختہ فولاد کی بنی ہوئی ہو۔یعنی تم دونوں کی قوت ارادی فولادی نوعیت کی ہے۔ ۔ ۔‘‘ ذوالفقار علی بھٹو‘ڈسٹرکٹ جیل ‘راولپنڈی‘21جون 1978۔