افغانستان سے امریکہ کو جس طرح پسپائی کا سامنا کرنا پڑا اورانہی طالبان کو اقتدار سونپنا پڑا جن کے خلاف وہ بیس سال جنگ کرتا رہااس سے امریکہ کی عالمی حیثیت کے بارے میں سوالات پیدا ہونے لگے تھے۔ امریکی صدر بائیڈن نے فوری طور پر دو کام کیے۔ ایک بحرالکاہل اور بحر ہند کے خطہ میں آکس نامی فوجی اتحاد کا ڈول ڈالا۔ دوسرے‘ مشرقی یورپ میں یوکرائن کو ہتھیاروں سے لیس کرکے رُوس کے خلاف محاذآرائی تیز کردی ۔پیغام واضح ہے کہ امریکہ عالمی طاقت کے طور پر اپنا کردار جاری رکھنا چاہتا ہے ۔ وہ چین اور رُوس کو اپنے دو بڑے حریف سمجھتا ہے۔ گزشتہ برس پندرہ ستمبر کو امریکہ‘ آسٹریلیا اور برطانیہ نے اچانک ایک نئے سہہ ملکی فوجی اتحاد کا اعلان کیا جسے ’آکس ‘ کا نام دیا گیا۔ امریکہ کے صدر جو بائیڈن‘ آسٹریلیا کے وزیراعظم اسکاٹ ماریسن اور برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن نے اس معاہدہ کی داغ بیل ڈالی۔اس تنظیم کے باقاعدہ رسمی اعلان سے پہلے اسے حتمی شکل دینے کے لیے خفیہ مذاکرات کیے گئے۔ تین ماہ بعد آٹھ اور چودہ دسمبر کو ان تین ملکوں نے اس معاہدہ کے تحت قائم ہونے والے اسٹیرنگ گروپوں کے اجلاس منعقد کیے۔ ان میٹنگوں میں غور کیا گیا کہ امریکہ اور برطانیہ اپنے چھوٹے اتحادی ملک آسٹریلیا کو ایٹمی توانائی سے چلنے والی بحری آبدوزیں (سب میرینز) تیار کرنے میں کس طرح مدد دیں گے۔ اس کے علاوہ دیگر شعبوں بشمول سائبر استعداد ‘ مصنوعی ذہانت ‘ کوانٹم ٹیکنالوجی اور زیر سمندر سرگرمیوں کی صلاحیت ایسے امور پر ان تینوں ملکوں کے درمیان تعاون پر بات چیت کی گئی۔آکس اتحاد کے رکن ممالک نے اپنے درمیان تعاون و اشتراک کے لیے جن شعبوں کا انتخاب کیا ہے اس سے آنے والے دنوں میںان شعبوں کی فوجی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اگلے ڈیڑھ ماہ تک یہ مطالعہ کیا جائے گا کہ ایٹمی توانائی کی حامل آبدوزوں کی ٹیکنالوجی کیسے منتقل کی جائے۔ کچھ چیزیں برطانیہ فراہم کرے گا جیسے آبدوزوںکا ڈیزائن وغیرہ جبکہ ان پر نصب کرنے کیلیے ہتھیار امریکہ دے گا جیسے دُور مار کرنے والے کروز میزائل وغیرہ۔ اس اتحاد کے ممالک مل کر نئے جدید ترین ہتھیار ایجاد کریں گے۔صاف ظاہر ہے کہ اب امریکہ تنہا اس پوزیشن میں نہیں کہ چین کے معاشی وسائل اور جدیدفوجی ٹیکنالوجی میں ترقی کا مقابلہ کرسکے ۔ وہ برطانیہ اور آسٹریلیا کے مالی وسائل کو ساتھ ملا کر نئے جنگی ہتھیار بنائے گا۔ آسٹریلیا ہمیشہ سے مغربی سامراج کا اہم حصہ رہا ہے۔ بحرالکاہل اور بحر ہند کے سنگم پر واقع یہ ملک پہلے برطانیہ کا بغل بچہ اور فوجی اڈّہ تھا۔ اب امریکہ کا سیٹلائیٹ ہے۔عراق اور افغانستان میںا ٓسٹریلیا کے فوجی امریکیوں کے شانہ بشانہ لڑتے رہے۔ اس اتحاد کے تینوں ممالک انگریزی بولنے والی آبادی پر مشتمل ہیں۔ یوں ان کے درمیان لسانی عصبیت کا مضبوط رشتہ موجود ہے۔تینوں ملک فائیو آئیز نامی انٹیلی جنس نیٹ ورک کا بھی حصہ ہیں۔ برطانیہ اور آسٹریلیا کے درمیان2013 کا عسکری معاہدہ پہلے سے موجود ہے جس کے تحت دونوں کے درمیان فوجی ٹیکنالوجی کا تبادلہ ہوسکتا ہے۔ پرتھ کا ساحلی شہر آسٹریلیا کی بحریہ کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ اسکی بندرگاہ کو’فلیٹ بیس ویسٹ ‘کہتے ہیں۔ پہلے آسٹریلیا اپنی بحریہ کے لیے فرانس سے ڈیزل پر چلنے والی آبدوزیں خرید رہا تھا لیکن اس معاہدہ کو منسوخ کرکے امریکہ اور برطانیہ سے ایٹمی توانائی سے چلنے والی آبدوزیں تیار کی جائیں گی۔ ڈیزل سے چلنے والی آبدوز چودہ روز تک پانی کے نیچے رہ سکتی ہے جبکہ ایٹمی آبدوز ڈھائی مہینے تک۔ اس لیے زیادہ موثر اور خطرناک ہے۔امریکہ کیلئے بحرالکاہل اور بحر ہند میں آسٹریلیا کی بحری طاقت میں اضافہ کرنے کا مقصد چین کی بڑھتی ہوئی بحری طاقت کا مقابلہ کرنا ہے۔حالیہ برسوں میں بحرجنوبی چین (ساوتھ چائنا سی) میںچین نے اپنی بحری تجارت کو امریکہ سے محفوط بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے ۔ چین نے ساوتھ چائنا سمندرمیں اپنی بحریہ کے قیام کے لیے مصنوعی جزیرے بنائے ۔ ان پر راڈار اورجنگی جہازوں کے ائیر فیلڈ تیار کیے۔ بیجنگ نے ایسے جدید میزائل (ڈی ایف 21 ) بنائے ہیں جن سے جنگی بحری جہازوں اوربحری بیڑوں کو تباہ کیا جا سکتا ہے۔ اس سے امریکہ کو یہ خدشہ لاحق ہوگیا کہ اس سمندر اور بحر الکاہل میں اسکی برتری قائم نہیں رہ سکے گی حالانکہ امریکہ کے چھ ایٹمی بحری بیڑے‘ درجنوںجنگی بحری جہاز اور گوام جزیر ہ (مغربی بحرالکاہل میں ایشیا اور آسٹریلیا کے قریب امریکی ریاست کا مقبوضہ نیم خود مختار علاقہ)کے فوجی اڈہ پر تعینات جنگی ہوائی جہاز پہلے سے اس علاقہ میںموجود ہیں لیکن امریکہ دنیا پر اپنی برتری کو قائم رکھنے کی غرض سے اپنی طاقت کو مزید وسعت دینا چاہتا ہے۔ آکس اتحادکے ذریعے امریکی سامراج نے بحرالکاہل اور بحرہند کے خطہ میں دو نئے ملکوں کو اہم تزویراتی کردار سونپ دیا ہے۔ برطانیہ یورپ اور بحراوقیانوس میںانکل سام کا قریب ترین اتحادی تھا۔ وہ اسے اب بحر ہند اور بحر الکاہل میں کھینچ لایا ہے۔ دوسرے‘ جاپان بحرالکاہل میں امریکہ کا اہم ترین اتحادی تھا۔آکس کے بعد آسٹریلیا کو بھی یہ رتبہ حاصل ہوگیا ہے۔ اس اتحادسے امریکہ کی پوزیشن بحرِاوقیانوس میں بھی مستحکم ہوگی۔ کیونکہ آسٹریلیا کی بحریہ کو بوقت ضرورت بحر اوقیانوس میںاستعمال کیا جاسکے گا۔ اس بات کا امکان موجود ہے کہ جاپان باقاعدہ طور پر کسی و قت آکس میں شامل ہوجائے۔ فی الحال ٹوکیو اور لندن کے درمیان ایک نیم عسکری اتحاد موجود ہے۔ تاہم انڈیا کو اس فوجی مورچہ میں شامل نہیں کیا گیا حالانکہ وہ امریکہ کے اچھے ساتھیوں میں شمار ہوتا ہے اور بحر ہند کا بڑا ملک ہے۔دراصل آسٹریلیا کو اپنا اہم ترین عسکری اتحادی بنا کر امریکہ نے دنیا کے دو بڑے سمندروں (بحرالکاہل اور بحر ہند) میں اپنے کلیدی مفادات کا تحفظ کرلیا ہے اور عالمی طاقت کے طور پر اپنی حیثیت کو محفوظ بنالیا ہے۔ آکس کے وجود میںآنے سے انڈیا اور مشرق بعید کے تمام اہم ممالک جیسے فلپائن‘ نیوزی لینڈ‘ سنگاپور وغیر ہ کو پیغام چلا گیا ہے کہ ابھی اس علاقہ کا تھانیدار امریکہ ہی ہے۔اگر وہ اس سے تعاون نہیں کریں گے توآکس کا ڈنڈا ان کے سر پر پڑسکتا ہے۔