عرَبی زُبان میں سمندر کے کنارے کوساحل کہتے ہیں۔ اسی مناسبت سے افریقہ میں ’ساحل ‘براعظم کے شمالی علاقہ کی ایک پٹّی کو کہا جاتا ہے جومغرب میں بحر اُوقیانوس سے شروع ہوکرمشرق میں بحیرہ احمر (ریڈ ۔ سی)تک پھیلی ہوئی ہے اور دس ممالک پر مشتمل ہے۔ یہ خطہّ طویل عرصہ سے شدید موسمیاتی تبدیلیوں‘سیاسی انتشار اور پُر تشدد دور سے گزر رہا ہے۔فرانس اور امریکی افواج وسطی افریقہ کے اس خطہ میںاسلامی مسلح گروپوں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ پیرس اور واشنگٹن کے حکمرانوں کا خیال ہے کہ مغرب کو اگلا بڑا خطرہ ساحل خطّہ کی جہادی تنظیموں سے ہے۔گزشتہ چند ماہ میں اس علاقہ کے دو ملکوں مالی اور چاڈ میں فوج نے سویلین حکومتوں کو نکال کراقتدار پر قبضہ کرلیا ہے۔ جمہوریت اور انسانی حقوق کے خود ساختہ علمبردار فرانس اور امریکہ ان ملکوں میں فوجی اقتدار کی حمایت کررہے ہیں کیونکہ فوجی حکمران مغرب کے مفادات کی رکھوالی کرتے ہیں۔ ساحل کے ممالک میں سینیگال‘ جنوبی ماریطانیہ ‘ وسطی مالی‘ شمالی برکانیہ فاسو‘ جنوبی الجیریا‘جنوب مغربی نائیجر‘ شمالی نائجیریا‘ وسطی چاڈ ‘شمالی اریٹیریا‘ سوڈان اورشمالی ایتھوپیاشامل ہیں۔اس خطہ کے شمال میں صحارا کاریگستانی علاقہ ہے اور جنوب میں ہرا بھرا سفانا(انگریزی زبان میں سیوانا) کا علاقہ ہے۔ ساحل کی آبادی تقریبا ساڑھے بارہ کروڑ ہے۔ یہ سارا علاقہ موسمی تبدیلیوں کی لپیٹ میں ہے۔کم بارشیں ہونے کے باعث اکثر خشک سالی کا سامنا رہتا ہے اور ریگستانی علاقہ بڑھتا جارہا ہے۔گزشتہ پانچ چھ برسوں سے یہاں غربت ‘ موسمی تبدیلیوں اورشدت پسند گروہوں کی وجہ سے لوگوں میں پُرتشدد واقعات بے تحاشا بڑھتے جارہے ہیں۔ وسطی ساحل کا علاقہ خاص طور سے تشدد کی لپیٹ میں ہے۔اسکا بیشتر رقبہ ریگستان اور چراگاہوں پر مشتمل ہے۔ لیکن یہاں کی آبادی کی اکثریت کا شمار دنیا کے غریب ترین لوگوں میں ہوتا ہے۔زیادہ تر لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ تقریباً پانچ کروڑ لوگ نقل مکانی کرتے رہنے والے قبائل ہیںجو مویشی پالتے ہیں۔چونکہ موسمی تبدیلیوں سے چراگاہوں کا رقبہ کم ہورہا ہے اسلیے مویشی پال قبیلوں میں لڑائیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ساحل کے چاڈ جھیل کے علاقہ میں پانی کی دستیابی گزشتہ پچاس برسوں میں نوّے فیصد کم ہوگئی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اعتبار سے ساحل کے ممالک کو جن مشکلات کا سامنا ہے وہ پاکستان کے لیے چشم کشا ہیں کیونکہ ہم بھی ماحولیاتی تبدیلیوں کی لپیٹ میں ہیں اور پانی کی قلت کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ یوں تو کئی دہائیوں سے ساحل کا خطّہ انتشار کا شکار ہے لیکن نو سال پہلے جب لیبیا میں معمر قذافی کا تختہ اُلٹا گیا تو یہاں بدامنی اور تشدد کے واقعات میں بہت اضافہ ہوگیا اور نام نہاد جہادی گروہ بھی سرگرم ہوگئے۔ مختلف گروہ خود کو القاعدہ اور داعش سے وابستہ ظاہر کرتے ہیں۔ جب قذافی کی حکومت ختم ہوئی تو انکے جمع کردہ اسلحہ کے بڑے ذخائر مسلح گروہوں کے ہاتھ لگ گئے۔ وقفہ وقفہ سے مسلح گروہ عام شہریوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام کرتے ہیں۔گزشتہ ماہ جُون میں ایک جہادی گروپ نے برکینو فاسو میں ڈیڑھ سو سے زیادہ افراد کو بے دردی سے قتل کردیا تھا۔ اس ملک میں جاری طویل خانہ جنگی کی وجہ سے اب تک دس لاکھ سے زیادہ انسان بے گھر ہوچکے ہیں۔معمرقذافی کا اقتدار ختم ہوتے ہی مسلّح گروپوں نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھالیے۔ طوارق قبیلہ کے علیحدگی پسندوں نے اپنے قبیلہ اور جہادی کارکنوں کی مدد سے مالی کے شمال میں حملہ کردیا اور فورا ً ٹمبکٹو اورگاؤ کے تاریخی مقامات پر قبضہ کرلیا۔مالی کاشمالی علاقہ کم گنجان آباد ہے۔ یہاں کے باشندوں کو ہمیشہ مالی کی حکومت سے یہ شکایت رہی ہے کہ اس نے 1960 میں فرانس سے آزادی ملنے کے بعد ہمیشہ انکے خلاف امتیازی سلوک روا رکھا۔ حکومت اور وسائل پرجنوب کے اکثریتی آبادی کے قبائل کا غلبہ ہے۔شمال سے تعلق رکھنے والے قبائل مالی کے دارلحکومت ’باماکو ‘پرقبضہ کرلیتے لیکن فرانس نے فوجی مداخلت کرکے انہیں پیچھے دھکیلا۔ اسکے بعد طوارق کی پوزیشن کمزور ہوگئی اور جہادی گروپ زیادہ مضبوط ہوگئے۔ فرانس نے مالی کی حکومت بچانے کو پانچ ہزار فوجی تعینات کیے ہوئے ہیں۔2015 میں مالی کی حکومت اور شمالی باغی قبائل کے درمیان امن معاہدہ ہوا جسکے تحت اقوام متحدہ نے بھی مالی میں چودہ ہزار امن فوج تعینات کی ہوئی ہے۔گزشتہ نو برسوں میںمالی کے چھ ہزار افراد خانہ جنگی میں مارے جاچکے ہیں۔فرانس کے پچاس فوجی بھی مارے گئے ہیں۔ جہادی گروہ مالی کے وسطی علاقوں میں بھی مضبوطی سے قدم جما چکے ہیں۔فرانس کی فوجیں ساحل کے دیگر ملکوں میں بھی تعینات ہیں۔ ان میں چاڈ‘ نائجر‘ برکینو فاسو اور موریطانیہ شامل ہیں۔ افریقی ملک چاڈ کا حال بھی مالی سے مختلف نہیں۔ یہ بھی سیاسی عدم استحکام اور پُر تشدد کارروائیوں کا شکارہے۔ یہ بھی مالی کی طرح پہلے فرانس کی نوآبادی تھا۔ اسکی فوج بھی فرانس کی تربیت یافتہ ہے۔اس سال اپریل میں چاڈ کے صدر ادریس دیبی پُراسرار حالات میں مارے گئے۔ ادریس فرانس اور مغربی ممالک کے بڑے چہیتے اور وفادارتھے۔وہ اکیس سال پہلے فرانس کی مدد سے فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار میں آئے تھے اور سخت گیر حکمران تھے۔چاڈ کی فوج نے کئی ممالک میں فرانس کے شانہ بشانہ جنگیں لڑیں اورانیس سو اسیّ کی دہائی میں لیبیا میں معمر قذافی کے خلاف بھی فرانس کے ہمراہ جنگ کی تھی۔چاڈ کی فوج نے دارفر کے علاقہ میں سوڈانی حکومت کے ساتھ ملکر جنگ کی۔ادریس دیبی کی ہلاکت کے بعد انکے بیٹے مہامت دیبی نے اقتدار سنبھالا ‘ قومی اسمبلی تحلیل کی اور ڈیڑھ سال کیلیے مارشل لا لگادیا۔ گزشتہ پندرہ برسوں میںفرانس نے تین بار چاڈ حکومت کی اپنے جنگی طیاروں اور ڈرونز سے مدد کی تاکہ باغیوں کو کچلا جاسکے۔ فرانس کے پانچ ہزار فوجی چاڈ میں مستقل تعینات ہیں۔چاڈ بہت غریب ملک ہے حالانکہ یہ پیٹرولیم کی دولت سے مالا مال ہے۔ تیل کی دولت یا تو فوج استعمال کرتی ہے یا کرپٹ سیاستدان۔ ساحل ممالک کے حالات پاکستان کے لیے سبق کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ماحولیاتی تبدیلیوں اور بڑھتی آبادی کے دباؤ نے یہاں قبیلوں کے درمیان خونریزی کو جنم دیا ہے۔اس خطہ میں شدت پسند نام نہاد جہادی گروہوں کی پُرتشدد کارروائیاں لاکھوں لوگوں کو بے گھر کرنے کا سبب بنی ہیں۔ ساحل کے ممالک قدرتی وسائل ہونے کے باوجود لڑائی جھگڑوں اورکرپشن کے باعث بدترین غربت کا شکار ہیں۔ یہ تمام عوامل کم یا زیادہ پاکستان اور افغانستان میں بھی موجود ہیں۔