پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ جیسے ہی کوئی حکومت بنتی ہے مطالبات سامنے آنے لگتے ہیں کہ اسکی چھٹی کروائی جائے ۔افواہیں گردش کرنے لگتی ہیں کہ یہ حکومت اب گئی یا تب گئی۔ ان دنوں بھی ایسا ہی ماحول ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کی آئینی مدت پورا ہونے میں ابھی پونے دو سال باقی ہیں لیکن یہ قیاس آرائیاں تیز ہوگئی ہیں کہ انکی حکومت گِر سکتی ہے اور جلد مقررہ وقت سے پہلے نئے عام انتخابات کروائے جاسکتے ہیں۔ چند روز پہلے تک قومی اسمبلی میںاپوزیشن قائد شہباز شریف کا موقف تھا کہ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ 2023 کے جنرل الیکشن منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہوں۔گزشتہ ہفتہ انہوں نے اچانک پینترا بدلا۔ اب انکا فرمان ہے کہ وہ اس حکومت کو مزید برداشت نہیں کرسکتے اور فوری انتخابات کروائے جائیں۔ شہباز شریف مسلم لیگ(ن) کے معتدل رہنما سمجھے جاتے ہیں جو ریاستی اداروں سے محاذ آرائی کے مخالف ہیں اور چاہتے ہیں کہ موجودہ نظام چلتار ہے۔ اطلاعات ہیں کہ گزشتہ دِنوں انکی راولپنڈی میں مقتدرہ (ریاستی اداروں) کے اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں ہوئیں۔ اسکے فوراً بعد انہوں نے جلد جنرل الیکشن کا مطالبہ کردیا اور پارٹی کے ان لوگوں سے اعلان لا تعلقی کا اعلان کردیا جو پاک فوج اور ریاستی اداروں کے خلاف نعرے لگاتے اور تقریریں کرتے ہیں۔ حالانکہ اس کام میں انکے بڑے بھائی نواز شریف اور انکی بیٹی مریم نواز پیش پیش رہے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کے ایک اور رہنما جاوید لطیف نے بھی اعلان کیا کہ گزشتہ دو ماہ سے مقتدرہ کے نمائندوں نے لندن میں نواز شریف سے متعدد ملاقاتیں کی ہیں اور نواز شریف چوتھی بار بھی پاکستان کے وزیراعظم بنیں گے۔ سپریم کورٹ نوا زشریف کو تاحیات نااہل قرار دے چکی ہے اسکے باوجود یہ دعویٰ بظاہر تو ایک سیاسی چال لگتا ہے جسکا مقصد نواز شریف کے حامیوں کا حوصلہ بلند رکھنا اور انکی پارٹی پر گرفت کو مضبوط بنائے رکھنا ہے۔ شہباز شریف کے موقف اور لہجہ میں جو تبدیلی آئی ہے اسکی اہمیت ا س لئے بھی ہے کہ حکمران جماعت کی دو اتحادی جماعتوں بشمول ایم کیو ایم (پاکستان ) اور مسلم لیگ(ق) کے رہنماؤںنے بھی وزیراعظم عمران خان کی حکومت سے بے اطمینانی کا اظہار کیا ہے۔ تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میںسادہ اکثریت حاصل نہیں۔ اسکی وفاقی حکومت ان دو جماعتوں کی حمایت کے سہارے قائم ہے۔ ان دونوں جماعتوں کے بارے میں عمومی تاثر ہے کہ یہ مقتدرہ (اسٹیبلشمینٹ)کے زیرِاثر ہیں۔ اگر ریاستی ادارے ان پارٹیوں کو حکومت سے الگ ہونے کی ہدایت کریں گے تو یہ بلا تاخیر اس پر عمل کریں گی اور وزیراعظم عمران خان قومی اسمبلی میںاکثریت سے محروم ہوجائیں گے۔ انہیں مستعفی ہونا پڑے گا۔ گویا عمران خان کو وزارت ِعظمیٰ کے عہدہ سے ہٹانا کوئی مشکل کام نہیں۔البتہ انکے متبادل کے طور پر نئی حکومت بنانا دشوار ہوسکتا ہے۔ وزارتِ عظمیٰ کے نئے امیدوار شہباز شریف ہوں یابلاول بھٹو زرداری اپنی پارٹیوں کے بل پر اکثریت حاصل نہیں کرسکتے۔ مسلم لیگ(ن) یا پیپلزپارٹی کو ایک دوسرے کی حمایت درکار ہوگی اور کچھ چھوٹی پارٹیوں کی بھی جیسے ایم کیو ایم‘ جی ڈی اے اور مسلم لیگ(ق)۔ ان سب جماعتوں کا اکٹھے ہوکر ایسی حکومت تشکیل دینا جو زیادہ دیر تک قائم رہے آسان کام نہیں ہوگا۔ایسی صورت میں بھی مقررہ وقت سے پہلے ہی جنرل الیکشن منعقد کروانا پڑیں گے۔ فی الحال تو یہ سب ہوائی قلعے ہیں لیکن ہماری تاریخ میں ایسا کئی بار ہوچکاہے کہ خبریں غلط اور افواہیں سچ ثابت ہوتی ہیں۔ سیاسی جوڑ توڑ تو بہر حال جاری ہے۔ اپوزیشن ہر قیمت پر وزیراعظم عمران خان سے نجات چاہتی ہے تاکہ احتساب کا عمل روکا جاسکے۔ منی لانڈرنگ اور ناجائز اثاثوں کے متعدد اہم مقدمات میں ٹیکنیکل نکات کے سہارے انکی سماعت کو مزید ملتوی کروانا اب مشکل ہوتا جارہا ہے۔وہ لوگ جوعمران خان پر ریاستی اداروں کے کٹھ پتلی وزیراعظم ہونے کی پھبتی کستے تھے اور سویلین بالادستی کی باتیں کرتے تھے اب یوٹرن لے چکے ہیں۔ وہ سویلین وزیراعظم کو حکومت سے نکالنے کی غرض سے مقتدرہ کے ساتھ خفیہ بات چیت میں مصروف ہیں۔کسی سیاسی پارٹی کا نہ کوئی نظریہ ہے نہ اصول۔سیاسی لیڈروں کا مقصد صرف اپنی جمع کی ہوئی دولت کا تحفظ اور حکومت کا حصول ہے۔ عمران خان کو گھر بھیجنے کی خاطر اپوزیشن مقتدرہ (اسٹیبلشمینٹ)کو ہر قسم کی ضمانت دینے کے لئے تیار ہے۔ وعدے وعید کیے جارہے ہیں خواہ بعد میں انکی پاسداری کی جائے یا نہیں ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مقتدرہ اپوزیشن کی بات کیوں مانے؟ بہت بدقسمتی ہوگی کہ مقتدرہ شریف خاندان کی یقین دہانیوں پر اعتبار کرے جو ماضی میںتین بار ریاست کو کمزور کرنے کی بھرپور کوشش کرچکا ہے۔نواز شریف کے ریاستی اداروں سے تعلقات بگڑنے کی تین بڑی وجوہات تھیں۔ اول‘ وہ بھارت سے زیادہ پینگیں بڑھا چکے تھے۔ دوم‘ وہ اپنے سرکاری اختیارات کے سہارے دولت بنا رہے تھے۔ سوم‘ انہوں نے ڈان لیکس کے ذریعے ریاست کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔ وزیراعظم عمران خان نے ابتک ایساکوئی کام نہیں کیا۔ انڈیا سے متعلق پالیسی پر انکا مقتدرہ سے مکمل اتفاق ہے۔ لبرل‘ امریکہ نواز لابی عمران خان کی مخالفت میں پیش پیش ہے۔ کیونکہ عمران خان نے امریکہ کو پاکستان میںفوجی اڈّے دینے انکار کیا ہے اور وہ انکل سام کوفضائی حملوں کے لئے فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت بھی نہیں دے رہے۔ امریکی لابی کی خواہش ہے کہ عمران خان کی حکومت ختم ہو اور ایسی حکومت بن جائے جو امریکہ کو کچھ نہ کچھ رعائیتیں دے۔ عوام کے ڈر سے یہ لوگ کھُل کر توامریکہ کے حق میں بات نہیں کرسکتے ا س لئے پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت نااہل ہے‘ نالائق ہے۔ جیسے ماضی میں ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں جو بند ہوگئی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے کورونا وبا کو بہت اچھی طریقہ سے کنٹرول کیا اور ملک کو کسی بڑے نقصان سے بچایا۔ انہوں نے وبا کے پونے دو برس میں معیشت کو گرنے نہیں دیا بلکہ ترقی کی راہ پر ڈالا۔ تاہم ‘عمران خان کی حکومت کی کئی کمزوریاں ہوسکتی ہیں لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ انہیں اپنی آئینی مدت پوری نہ کرنے دی جائے۔ملک و قوم کی بھلائی اسی میں ہے کہ منتخب حکومت پانچ سال پورے کرے اور مقررہ قت پر عام انتخابات کروائے جائیں۔ ملکی مسائل کا کوئی شارٹ ٹرم حل نہیں ہے۔ ٭٭٭٭٭