بی جے پی کی دو اہم شخصیات کے آقائے نامدارﷺ کی شان میں نازیبا اور گستاخانہ بیانات کے سبب پوری دنیائے اسلام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے ۔ پاکستان ،قطر‘ ایران‘ مصر‘ سعودی عرب اور یو اے ای سمیت بیشتر اسلا می ممالک نے اس پر شدید احتجاج کیا ہے۔ مودی سرکار کے دو اہم مشیروں نے جن میں ایک نوپور شرما نامی خاتون بھی شامل ہے، ٹی وی پر نبی آخر الزماںﷺ کے متعلق جو ہرزہ سرائی کی اس پر ہندوستان کے مسلمانوں نے سب سے پہلے فوری ردعمل کا اظہار کیا۔ کانپور اور بریلی میں سخت احتجاج ہوا۔ مسلمان سڑکوں پر نکلے اور بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ حضور ﷺکی شان میں گستاخی کرنے والوں کے خلاف فی الفور کارروائی کی جائے اور انہیں ایسی سزا دی جائے کہ آئندہ کوئی آقائے ایسی گستاخی کا سوچ بھی نہ سکے۔ مودی حکومت نے کارروائی تو کیا کرنی تھی الٹا احتجاجی ہجوم پر طاقت کا استعمال کیا۔ لاٹھی چارج اور آنسو گیس استعمال کی گئی۔ ہنگاموں کو فرو کرنے کیلئے بریلی میں کرفیو اور کانپور میں ریڈ الرٹ کردیا گیا اور اس سے آگے بڑھ کر یہ کہ ملعونوں کو سزا دینے کے بجائے احتجاج کرنے والے 1500 افراد کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا۔ یہ ہنگامے بڑھ رہے تھے‘ ۔ مسلم ممالک تک جب یہ خبر پہنچی تو ان ملکوں کی حمیت اور غیرت جاگ اٹھی۔ مصر‘ قطر‘ سعودی عرب‘ ایران‘ یو اے ای میں سخت ردعمل دیکھنے کو ملا۔ پاکستانی تو ہمیشہ اس معاملے پر بہت جذباتی رہے ہیں لیکن جب عرب دنیا میں یہ ردعمل آیا تو یہ غیر معمولی انداز کا تھا۔ اس بار اس احتجاج نے ایک نیا رخ اختیار کرلیا۔ اس بات پر بحث شروع ہوگئی کہ ان مسلم ممالک میں کتنے بھارتی ملازمت کرتے ہیں۔ وہ ماہانہ اور سالانہ کتنا زرمبادلہ ہندوستان بھجواتے ہیں۔ ہندوستان سے تجارت کا حجم کیا ہے۔ پھر یہ کہ ان ممالک کی مارکیٹوں میں ہندوستان کی جو مصنوعات فروخت ہورہی ہیں انہیں اسٹورز سے ہٹانے اور بائیکاٹ انڈیا کی مہم اتنی سرعت سے چلائی گئی۔ یہ ردعمل خود مودی حکومت کیلئے اور مغرب کیلئے بھی حیران کن تھا۔ بھارتی پالیسی سازوں کا خیال تھا کہ اگر اس احتجاج نے نیا رخ اختیار کیا تو بھارت کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ بالآخر بھارت نے گھٹنے ٹیک دیئے۔ ان دونوں اہم اہلکاروں کو فوری طور پر ہٹانے کے علاوہ بھارت کے پاس کوئی آپشن نہیں تھا۔ کئی کمپنیوں میں ان کے ہاں ملازمت کرنے والے بھارتیوں کو واپس بھارت بھیجنے کی تیاری کرلی تھی۔ بھارتی حکومت کی جانب سے اس سلسلے میں کئے گئے اقدامات پر مطمئن نہیں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ بھارت ان دونوں اہلکاروں کے خلاف تحقیقات کرائے اور جرم ثابت ہونے پر ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ تاکہ آئندہ کسی کو شان رسالت میں گستاخی کی جرأت نہ ہوسکے۔ اس سے پہلے بھی یورپی ممالک میں رسول اللہ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کے خلاف احتجاج ہوا تھا۔ اس وقت کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا تھاکہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ایک دوسرے کی مقدس ترین شخصیات کا احترام کریں‘ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جسینڈا کا ایک موقع پر کہنا تھا کہ تمام مذاہب انسانوں کے مابین محبت اور ہم آہنگی کا درس دیتے ہیں۔ آپ ﷺ تو وہ ہستی ہیں جن کیلئے کلام پاک میں خود کائنات کے رب کا کہنا ہے کہ میں اور میرے فرشتے آپﷺ پر درود و سلام بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو تم بھی آپﷺ پر درودو سلام بھیجو۔ مسلمان کبھی بھی کسی بھی پیغمبر کے خلاف کوئی بات کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ تاریخ بھری پڑی ہے کہ اسلام کس طرح پھیلا۔ اللہ نے مسلمانوں کیلئے ہی نہیں اس دنیا میں رہنے والے تمام لوگوں کیلئے حضورﷺ کو رحمت اللعالمین بناکر بھیجا تھا۔ انہوں نے کیا کیا مثالیں قائم کیں۔ زندگی کو گزارنے کا ایسا اسلوب سکھایا جس میں سکون بھی تھا اور امن بھی۔ آپ ذرا غور تو کریں کہ اللہ کے آخری نبی ﷺ نے انسانوں کو اپنی تقدیر بدلنے کے کیا کیا طریقے بتائے۔ غیر مسلم مصنف مائکل ایچ ہارٹ کی کتاب پڑھ لیں ۔س نے دنیا کی جن 100 عظیم ترین شخصیات کو اپنی ریسرچ کیلئے منتخب کیا اس میں نبی پاک ﷺ کو سب سے پہلے دنیا کا افضل ترین انسان قرار دیا۔ وہ لکھتا ہے کہ کیا یہ معجزہ نہیں تھا کہ ایک شخص پہاڑوں میں گھری مکہ کی چھوٹی سی بستی میں ایک میدان میں کھڑے ہوکر انتہائی انکسار اور جرأتمندی سے یہ اعلان کررہا ہو کہ وہ اللہ کا رسول ہے اور دنیا کو یہ پیغام دینے آیا ہے کہ اللہ ایک ہے اور وہی عبادت اور بندگی کے لائق ہے۔ مصنف کا کا کہنا ہے کہ محمد ﷺکا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے جہالت اور گمراہی میں گھرے معاشرے میں ایسے ہیرے پیدا کئے جن کی دنیا آج تک مثال دیتی ہے۔ مصنف خلفائے راشدین ؓ کا ذکر بڑی تعظیم سے کرتا ہے اور انہیں رسول خدکا ایسا جانشین قرار دیتا ہے جنہوں نے زمانے کی رفتار بدل دی۔ جنہوں نے معاشرے میں تاریخ میں ایسی مثالیں قائم کردیں‘ جن کا ایک زمانہ معترف ہے۔ کسی کی بزرگی اور غیر معمولی فیصلوں کی صلاحیت کہیں آپ کو ہمت‘ کمٹمنٹ اور انصاف کا بول بالا‘ کہیں سخاوت اور کہیں شجاعت ان واقعات سے تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ یہ وہی تعلیمات تھیں‘ وہی ارشادات تھے‘ وہی کرامات تھیں‘ وہی برکات و فیوض تھیں‘ وہی انسپائریشن تھے جب مائیں اپنے بچوں سے کہتی ہیں کہ جب تم شہید کی وردی پہن کر خدا کی بارگاہ میں جاؤ تو اپنے آباؤ اجداد کی بخشش کی دعا کرنا۔ یہ تو وہی فلسفہ ہے جس کے زیر اثر بچہ اپنے باپ سے مخاطب ہوکر کہتا ہے۔ میرا بھائی اللہ کی راہ میں شہید ہوگیا‘ کیا میں بھی شہادت کا رتبہ پاسکتا ہوں‘ تو مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت سے لبریز باپ نے جھک کر بیٹے کے گال پر بوسہ دیا اور بولا۔ ’’یہ سعادت ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی اور یہ تو وہی تعلیمات کا اعجاز ہے‘ جب ماں اپنے مرے ہوئے بچے کی تصویر دیکھ کر اسے آنکھوں سے لگاکر بولتی ہے میرا بچہ شہید ہوا ۔ لاکھوں سلام و درود ہوں آپ ﷺ پر۔یہی تو سچ ہے‘ ورنہ دوسرا راستہ تو حضرت امام حسین ؓ کیلئے بھی کھلا تھا اور اس سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی فرعون کی بات مان کر پوری قوم کو نقل مکانی کے عذاب سے بچاسکتے تھے ‘ لیکن کیا ان مقدس ہستیوںنے اور ان جیسے سیکڑوں ہزاروں لوگوں نے نقصان کا سودا کیا؟