’’ساپا ساپا‘‘ لینڈ کروزر کی پچھلی نشست پر اودھم مچاتے ہمارے دو پانڈوں نے نعرہ لگایا۔ یاشار اور طلحہ کا وطیرہ تھا کہ ہم جدھر کا سفر اختیار کرتے وہ پچھلی نشست پر نعرہ زن ہو جاتے۔ مثلاً ہنوئی ہنوئی۔ کچھوے کی جھیل کچھوے کی جھیل۔ ادب کا مندر ادب کا مندر یا پھر ہوچی منہ ہوچی منہ۔ تو ہم بقول سُمیر ویت نام کے سب سے پر فضا شہر ساپا جا رہے تھے۔ ایک پہاڑی شہر جس کے دھند آلود حسن کی دھوم تھی یہاں تک کہ کئی سیاح ہنوئی اتر کر وہاں سے سیدھے ساپا کی نائٹ ٹرین میں سوار ہو جاتے جو انہیں پہاڑیوں کے دامن میں اتار دیتی جہاں سے پہاڑی راستے بلند ہونے لگتے۔ ہنوئی کی ہولناکی بھی یہی تھی کہ وہ ختم ہونے کو نہ آتا تھا۔ بالآخر ہم ویت نام کے کھلے زمینی مناظر میں داخل ہو گئے۔ ہریاول تو بہرحال تھی اور میں اس قدر مسلسل ہریاول سے اکتانے لگا تھا جی چاہ رہا تھا کہ کوئی ویرانہ بھی تو ہو۔ جہاں زندگی بھر بھانت بھانت کے انسان دیکھے وہاں ہر نوعیت کے گورستان بھی دیکھے۔ سوئٹزر لینڈ اور جرمنی کے قبرستان اتنے خوبصورت تھے کہ جی میں آتا ہے یہیں مر جائیے لیکن ویت نام کے قبرستان ان سب سے جدا ہیں۔ ہر قبر ایک سرمئی سنگ مر مر سے تراشا ہوا ڈھلوان چھت کا ایک گھر ہے۔ یوں دور سے وہ ایک ترتیب شدہ مختصر گائوں نظر آتا ہے۔ اور بہت دل کش نظر آتا ہے۔ ان کے سوا کھیتوں میں بھی کہیں کہیں اور گھروں کے باہر بھی یہ خاموشی کے گھر نظر آتے ہیں۔ یعنی آپ گھر سے نکلے تو دادی جان کو ہیلو کہہ دیا۔ کھیت میں سویرے ہل چلا رہے ہیں تو دادا جان قبلہ کے گھر کی جانب رخ کر کے‘گڈ مارننگ‘ کہہ دیا۔ میں نے کہیں بھی کسی قبر کا تعویذ نہیں دیکھا کہ سب قبریں سنگ مرمر کے جھونپڑوں میں رہتی تھیں۔ ایک اور منظر مشاہدے میں آیا کہ بہت سے دیہات میں سب سے شاندار عمارت کسی برنیڈ نیو کلیسا کی نظر آتی تھی۔ یہاں عیسائی مشنری بہت متحرک ہیں اور بہت سے ویت نامی ان کے کردار کی عظمت سے متاثر ہو کر یا خدمت کے جذبے کو پسند کرتے ہوئے عیسائی ہو رہے ہیں۔ میرا جی چاہا کہ کہیں کہیں کسی گائوں میں کسی مسجد کے مینار بھی نظر آ جائیں۔ یہاں اسلام کو پھیلانے کے لیے ہمارے علمائے کرام یا مولوی حضرات نہیں، پڑھے لکھے جدید ذہن والے نوجوان مشنری درکار ہیں۔ اگر ہیں تو ہم سے کلمہ سننے کی بجائے ویت نام کا رخ کریں۔ تین چار گھنٹوں کے مسلسل سفر کے بعد ہم شاہراہ سے جدا ہو کر ایک پہاڑی راستے کے مسافر ہو گئے۔ میں نے دیکھا کہ شکلیں بدل گئی ہیں۔ گوری رنگت والے گورکھا ٹائپ کے لوگ ہیں اور عورتیں دل کش ہیں۔ سمیر نے بتایا کہ یہ ویت نام کا شمال ہے اور یہاں مختلف قدیم قبائل آباد ہیں۔ جن کے چہرے ‘ لباس اور ثقافت ویت نامیوں سے سراسر مختلف ہے۔ ساپا بارش میں بھیگ رہا تھا۔ دھند میں ڈوبا ہوا تھا اور موسم رنگیلے اور سریلے ایسے تھے کہ چھٹی لے کر آجا بالما الاپنے کو جی چاہتا تھا۔ ساپا میری توقع کے برعکس ایک بہت بڑا کوہستانی شہر تھا، جس کے درمیان میں نیلگوں رنگتوں والی ایک جھیل بھی معلق تھی۔ میں تیسری منزل پر واقع اپنے ہوٹل کے کمرے کی بالکونی پر کھڑا ہوا تو بڑھتی جاتی دھند تھی اور اس کے پیچھے شہر تھا۔ بالکونی کا دروازہ کھلا تو دھند بہتی ہوئی چلی آئی اور مجھ سے اجازت لیے بغیر کمرے میں داخل ہو کر اسے خوابناک کر دیا۔ ساپا کے مرکز میں بھی ایک چرچ ہے اور ایک وسعت ہے جہاں سیاحوں کی کوچیں جوق در جوق چلی آتی ہیں۔ اس بھیگے ہوئے شہر کی سب سے بڑی کشش وہ ڈھکی ہوئی مارکیٹ ہے جہاں قبائلی عورتیں اپنے رنگ رنگ کے پرکشش ملبوسات اور زیورات میں سجی دکانداریاں کرتی ہیں اور جو اشیاء برائے فروخت ہیں ان کا تنوع بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ہاتھ کی بنی ہوئی چادریں، ملبوسات، کپڑے کے کھلونے، کلہاڑے اور چھریاں، جنگلی شہد‘ بچھوئوں اور دھک مکوڑوں کی دیسی شراب جو ظاہر ہے ڈنک مارتی ہو گی۔ پتہ نہیں کس کے بڑے بڑے انڈے ۔ جنگلی کھمب تھالوں جتنے۔ وہاں کچھ خواتین عجب پتوں والے بوٹے فروخت کر رہی تھیں اور یہ ’’آرچرڈ‘‘ کے پھولوں کے بوٹے تھے جو صرف درختوں کے تنوں میں مٹی ڈال کر اس میں کاشت کئے جاتے ہیں اور جن کے بڑے بڑے پھول عجب بہشت کے منظر پیش کرتے ہیں۔ ویسے قبائلی چادروں اور پیراہنوں کے ڈیزائن بہت حد تک ہمارے سندھ کی ثقافت سے ملتے جلتے تھے بلکہ ایک قبائلی عمر رسیدہ خاتون نے مُونا کے لباس کو دیکھ کر پوچھا تھا کہ یہ تم نے یہاں سے کتنے کا خریدا ہے تو مْونا نے اسے بتایا کہ یہ یہاں سے نہیں پاکستان سے آیا ہے۔ ان قبائلی خواتین کے رزق روزگار کا انحصار زیادہ تر سیاحوں پر ہے، اس لیے وہ بہترین انگریزی بولتی ہیں کہاں سے آئے ہو؟ کتنے بچے ہیں ؟ ان کی عمریں کیا ہیں؟ شادیاں ہو گئیں۔ لمحوں میں آپ کے خاندانی رازوں سے آگاہ ہو جاتی ہیں۔ آپ بے شک کچھ نہ خریدیں ان کے ماتھے پر بل نہ آئے گا بلکہ کہیں گی کاش کہ میں تمہارے بچوں سے مل سکتی وہ بہت پیارے ہوں گے۔ میں نے یہ کاروباری محبت صرف مصر میں دیکھی تھیں۔ ہم سکندریہ کی بندرگاہ سے شہر کی جانب جاتے ہوئے مصری ہینڈی کرافٹس کی دکانوں میں جھانکتے گئے۔ میرے ہمراہ بیروت کی خانہ جنگی سے فرار ہونے والے کچھ غیر ملکی سیاح بھی تھے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ مراکو اور اطالیہ کے فلارنس شہر کے علاوہ مصر میں چمڑے کی سب سے خوبصورت اشیا ملتی ہیں۔ ایک بہت فربہ مصری خاتون کی دکان سے بہت سے لوگوں نے بہت کچھ خریدا جب کہ میں چپ کھڑا رہا تو اس نے پوچھا۔ تم کیوں نہیں کچھ پسند کرتے تو میں نے کہا کہ مجھے آپ کی دکان کی ہر شے پرکشش لگتی ہے لیکن میں ابھی یورپ جا رہا ہوں جانے کب وطن لوٹوں گا۔ ان خوبصورت چیزوں کو کہاں اٹھائے پھروں گا۔ ہم دکان سے باہر آنے لگے تو اس نے ایک چھوٹا سا چمڑے کا پرس میری طرف بڑھا کر کہا’’یہ تحفہ میری بہن کو دے دینا۔ میں ذرا گڑ بڑا گیا کہ کون سی بہن کو؟ تو اس خاتون نے نہائت شفقت سے کہا’’تمہاری بیوی میری بہن ہے ناں‘‘ وہ کیا کہے گی کہ میری مصری بہن نے مجھے کوئی تحفہ بھی نہیں بھیجا‘‘ اب میں کیا کرتا۔ کچھ اونٹ اور بیگ وغیرہ خرید لیے لیکن اس نے اس بیگ کی قیمت لینے سے انکار کر دیا۔ ایک روز ہم ساپا سے باہر دھان کے کھیتوں کے درمیان واقع ان قبائلیوں کے دو تین دیہات میں گئے۔ پر فضا ہری بھری وادیاں تھیں جن کے درمیان میں ایک دریا بہتا تھا ان دیہات میں ’’ہوم سٹے‘‘ کا رواج بہت پاپولر ہے۔ بہت سے قبائلی گھرانے اپنے گھر کے دو تین کمرے سیاحوں کے لیے مختص کر دیتے ہیں۔ دس ڈالر میں منجی بسترا۔ مشترکہ غسل خانہ اور صبح کا قبائلی ناشتہ کچھ برا نہیں۔ خاص طور پر گورے سیاح کئی کئی دن تک پڑے رہتے ہیں۔ قبائلی لوگ انہیں روائتی یعنی ٹریڈ شغل فوڈ کے نام پر عجب گھاس پھونس وغیرہ کھلاتے رہتے ہیں اور وہ بخوشی کھاتے رہتے ہیں۔ ایک زمانے میں ’’ہوم سٹے‘‘ کا تجربہ ہنزہ میں بھی کیا گیا تھا۔ ساپا میں بسر کئے ہوئے تین دن اور تین راتیں دھند میں ڈوبے ہوئے بارشوں میں بھیگتے ہوئے خواب در خواب تھے۔ ساپا ایک سپنا سہانا تھا۔ جو بیت گیا اور اس کے کوہستانی سحر سے نہ چاہتے ہوئے بھی جدا ہو گئے۔ لیکن واپس براہ راست ہنوئی نہ گئے پہاڑوں سے اتر کر اس کی مخالف سمت میں سفر کرتے ویت نام اور چین کی سرحد پر واقع ایک نہائت جدید اور شاندار شہر ہیکوذن تک چلے گئے۔ ایک قدیم پگوڈے کے پہلو میں ایک گدلا سا دریا بہت دھیرے سے شاید بہتا تھا اور اس پر ایک پل تھا اور پل کے پار ملک چین تھا۔ سامنے کی عمارتوں پر چینی صدر کی تصویریں آویزاں تھیں اور پل پر بہت لوگ آ جا رہے تھے۔ ہیکو ذن کے بہت سے ویت نامی چین میں جا کر ملازمت کرتے ہیں اور شام کو واپس لوٹ آتے ہیں۔ میں نے سمیر سے کہا کہ ہمارے پاس سفارتی پاسپورٹ ہیں اور ہمیں چین کے لیے ویزا حاصل کرنے کی ضرورت نہیں تو کیا خیال ہے پل کے پار چلیں۔ ملک چین میں جا کر کسی قہوہ خانہ میں کافی کا ایک کپ پی کر لوٹ آئیں۔ تو وہ کہنے لگا ایک مرتبہ میں بھی پار گیا تھا لیکن کسٹم اور امیگریشن کی چیکنگ میں وقت تو لگتا ہے۔جانے میں اور پھر آنے میں اور ہمارے پاس اتنا وقت تو نہیں۔ چھوٹا پانڈا طلحہ دنیا کے جغرافیہ کی ایک چھوٹی سی انسائیکلو پیڈیا ہے اسے پوچھئے کہ پیرو یا زمبابوے کی سرحدیں کن ملکوں سے ملتی ہیں تو وہ فر فر سنا دے گا۔ میں نے اسے کہا طلحہ کیا تم جانتے ہو کہ ہمارے اور پاکستان کے درمیان صرف ایک ملک چین ہے‘ اس کے پار درہ خنجراب ہے جہاں تم بھی جا چکے ہو تو اس نے فوراً چین کے گرد جتنے بھی ملک ہیں گنوا دیے اور آخر میں کہا پاکستان۔ تو چلیں گھر چلتے ہیں۔ ’’ہم دونوں دادا‘‘ ’’ہاں صرف ہم دونوں‘‘ طلحہ ہنسنے لگا۔ جان گیا کہ دادا جان کچھ زیادہ ہی بہکتے جاتے ہیں لیکن دادا جان کو اس پل کے پار اس چین کے پار پاکستان دکھائی دے رہا تھا۔