جانوروں اور ان کے قدرتی ماحول سے پیار کرنے والوں کا ایک گروپ فہد ملک نے بنا رکھا ہے‘ ایک گروپ کیڑوںکی دنیا کے نام سے فیس بک پر موجود ہے۔اسے اعزاز احمد چلاتے ہیں۔ان گروپوں سے مجھے معلومات ملتی ہیں۔فہد ملک سانپوں سمیت خطرناک سمجھے جانے والے جانوروں اور حشرات کو آسانی سے پکڑ لیتے ہیں‘ کوئی جانور زخمی ہو تو اس کا علاج کرتے ہیں۔انہوں نے پاکستان کے مختلف علاقوں میں کام کرنے والے جانور دوست افراد اکٹھے کر رکھے ہیں۔ مجھے یاد ہے کوئی سال ڈیڑھ سال پہلے میں نے موٹر ویز کی وجہ سے جانوروں کے قدرتی مسکن اور پناہ گاہوں کا علاقہ تقسیم ہونے اور جانوروں کے لئے غیر محفوظ ہونے کی بابت لکھا تھا۔برادرم آصف محمود نے بھی اس موضوع پر ایک خوبصورت کالم لکھا۔ میں نے توجہ دلائی تھی کہ جس طرح مہذب ممالک میں موٹر ویز اور بڑی شاہراہیں بناتے وقت جانوروں کے گزرنے والے پل جا بجا بنا دیے جاتے ہیں پاکستان میں بھی ایسا ہونا چاہیے۔ بھارت میں جانوروں اور درختوں کے تحفظ کے لئے بڑا کام ہوا ہے۔ایک وجہ یہ ہے کہ ہندومت کا بڑا حصہ انسان اور قدرتی ماحول کی پرستش سے تعلق رکھتا ہے ۔ وہاں ماحول کے تحفظ کے لئے بہت مضبوط تحریکیں موجود ہیں۔سائوتھ کی فلم انڈسٹری نے کئی فلمیں بنائی ہیں۔ایک فلم میں تعمیراتی کمپنی ہاتھیوں کی پیاس بجھانے والی جھیل کے ارد گرد دیوار بنا کر وہاں ہائوسنگ سوسائٹی کا کام شروع کر دیتی ہے۔ ہاتھیوں سے محبت کرنے والا ایک شخص مزاحمت کرتا ہے۔ہاتھی اس کی مدد کو آتے ہیں۔تعمیراتی کمپنی کے غنڈے، ان کے مددگار سرکاری حکام اور پولیس کو مجبوراً پسپا ہونا پڑتا ہے۔ہاتھی دیوار گرا دیتے ہیں۔ایک دوسری فلم میں ٹائیگر کے بے تحاشہ شکار کو موضوع بنایا گیا۔ ایک فلم میں ایسا گائوں دکھایا گیا جہاں بیٹی پیدا ہونے پر ایک سو پودے لگا دیے جاتے ہیں جو لڑکی کے جوان ہونے تک درخت بن جاتے ہیں۔یہ پیڑ اس کے دوست کہلاتے ہیں۔ حالیہ دنوں بھمبر آزاد کشمیر میں ایک پندرہ فٹ لمبا اژدہا لوگوں کے ہاتھ لگ گیا۔ خطرناک سمجھ کر مار دیا گیا۔ ایک ویڈیو پیغام میں ریچھ پر ظلم ہوتے دیکھا۔کتوں کی لڑائی‘ ریچھ اور کتوں کی لڑائی‘ مرغوں اور بٹیروں کی لڑائی۔ہمارے ہاں وقت گزرنے کے لئے یہ کھیل جانوروں کا خون بہاتے رہے ہیں۔ان مقابلوں میں آج تک کتنے جانور مرے ہوں گے‘ سینکڑوں۔ ان سینکڑوں جانوروں کی ہلاکت کو سماج کے کتنے لوگوں نے بے رحمی اور ظلم قرار دیا۔ممکن ہے تعداد ہزاروں میں ہوکیونکہ لاکھوں اور کروڑوں لوگ اپنے سوا ہر چیز سے بیگانہ ہو چکے ہیں۔ ان ہزاروں میں سے چند درجن لوگ تھے جنہوں نے اپنی تقریر اور تحریر کے ذریعے کھیل کے نام پر جانوروں کا خون بہانے کا سلسلہ بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ کیلیفورنیا میں ہزاروں ایکڑ کے جنگلات جل گئے۔لاکھوں جانور ہوں گے جو آگ سے نہ بچ پائے۔کچھ عرصہ پہلے آسٹریلیا میں جو آگ لگی اس میں مرنے والے چھوٹے بڑے جانوروں کی تعداد 2ارب سے زیادہ تھی۔پاکستان میں سیلاب آتا ہے۔اکثر مقامات پر پانی سات اور آٹھ فٹ تک چڑھا ہے۔سیہون اور اس کے نواحی علاقے اب بھی سیلابی پانی کے محاصرے میں ہیں۔جانور انسانوں سے بچ کر ویرانوں‘ جنگلوں ‘ بیابانوں ‘ پہاڑوں اور دشوار گزار علاقوں میں پناہ گاہیں بنا لیتے ہیں۔وہاں انڈے دیتے ہیں‘ بچوں کو جنم دیتے ہیں۔انسان آگ اور سیلاب کی اطلاع پر نقل مکانی کر لیتے ہیں‘ بے زبان اور بے سمجھ جانوروں کو کون سمجھائے کہ اپنے بچے لے کر سیلاب سے محفوظ علاقوں کو چلے جائیں۔ سیلابی پانی اترنے کے بعد شہری علاقوں میں تعمیر نو ہو گی‘ دور دراز علاقوں میں مواصلاتی ذرائع کی بحالی کا کام ہو گا۔امید کی جا رہی ہے کہ اب پانی کی قدرتی گزرگاہوںکے راستے میں رکاوٹیں تعمیر نہیں ہوں گی۔ سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے جھیلوں اور تالابوں کی تعمیر کا امکان بھی ہے۔اس سلسلے میں ایک تجویز دی جا سکتی ہے کہ جھیلوں اور تالابوں کی کھدائی سے نکلی مٹی سے قریب کا کچھ علاقہ اس قدر بلند کر دیا جائے کہ سیلاب کے دوران انسانی آبادی اور جانور اس پر پناہ لے سکیں۔ سردست حالت یہ ہے کہ پرندوں کے انڈے اور جانوروں کے بچے سیلاب میں بہہ گئے۔ہمارے دریاؤں میں بہتے پانی کی مقدار مچھلیوں اور ان کے پونگ کو بہا لے گئی ہے ، کچھ علاقوں میں پانی کم ہونے پر پونگ پھنسے ہوئے ہو سکتے ہیں۔سیلاب نے دریاوں اور نہروں میں تلچھٹ دھو دی ہے۔ سالمن، اوٹرس اور دیگر ویٹ لینڈ ممالیہ بھی بے گھر ہو چکے ہوں گے اور جدوجہد کر رہے ہوں گے۔ یہ بہت سے invertebrates کے لیے بری خبر ہے، جن میں سے اکثر موسم سرما میں پیوپا یا لاروا کے طور پر ہوتے ہیں۔ اس سے ان کی پہلے سے گرتی ہوئی تعداد مزید کم ہو جائے گی۔ چھوٹے ممالیہ جانوروں جیسے ہیج ہاگس، چوہے اور لومڑیوں کو بھی ان کے گھروں سے باہر دھکیل دیا گیا ہو گا یا دوب گئے ہوں گے۔ پانی کی سطح، اتنی دیر تک کسی علاقے میں رہنا، اچھی خبر نہیں ہے۔ گھاس کے میدان ملبے سے ڈوب گئے ہیں، جس میں اعلی غذائیت کی حیثیت کی تلچھٹ بھی شامل ہے اور اس سے گودیوں اور تھیسٹل کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے اور ہمارے نایاب جنگلی پھولوں کی تعداد کم ہوسکتی ہے۔ گھاس کے میدان زیادہ دیر تک پانی کے اندر رہتے ہیں توپرندوں کو خوراک تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کرنا پڑ سکتی ہیں۔ پرندوں کے لیے گھونسلے بنانے کے مواقع محدود رہ جائیں گے ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟ بالائی علاقوں میں درخت لگانا اور زمین کی تزئین کے ذریعے پانی کے بہاؤ کی شدت کو کم کرنا، سیلابی میدانوں کو فعال رکھنا اور مقامی آبادی کے تعاون سے مقامی پرندوں اور جانوروں کی نسل کشی کا ہنگامی منصوبہ شروع کرنا ہوگا۔ ہم اپنے کاربن کے استعمال کو کم کرنے کے پائیدار طریقے اختیارکرنے کے لیے انفرادی، مقامی یا قومی سطح پر جو کچھ بھی کر سکتے ہیں اسے اپنی زندگی میں ترجیح دیں۔