اپنی خودی کو آپ سلانے والے لوگ ہم ہیں اپنے کل کو بھلانے والے لوگ سانپ ہمارے بچے کھا جاتے ہیں ہم سانپوں کو دودھ پلانے والے لوگ کالم میں شہر آشوب لکھنے کی گنجائش نہیں وگرنہ کیا کچھ اس دل میں ہے کہ بھونچال آیا ہوا ہے۔ کیا تماشہ ہے کہ بکنے بکانے والوں سے انٹرویو کئے جا رہے ہیں اس امر کی وضاحت اس لئے ضروری نہیں کہ ان پندرہ ویڈیوز کے احوال شاعر بزبان شاعر آپ سوشل میڈیا سے دیکھ رہے ہیں اور باقی پانچ ویڈیوز مصلحتاً روک لی گئی ہیں کہ مطلوب تھا پردہ ترا ۔ اللہ کی پناہ کوئی شرم کوئی حیا ان لوگوں کو چھو کر بھی نہیں گزری۔ میں دیر تک سوچتا رہا کہ یہ ہیں قوم کے نمائندے جن کو قوم کے مقدر کا فیصلہ کرنے کے لئے اعلیٰ ایوانوں میں بھیجا جاتا ہے ویسے تو سچ کچھ اور ہے جو نہ آپ سننا چاہتے ہیں اور نہ میں۔ ہمارے اعمال ہی ہمارے حاکم ہیں مگر دکھ تو یہ ہے کہ کوئی تو اچھا نکل آئے ویسے قوم بہت بھگت چکی جناب احمد ندیم قاسمی یاد آئے: میں کسی شخص سے بے زار نہیں ہو سکتا ایک زرہ بھی تو بے کار نہیں ہو سکتا مگر یہاں تو کوئی بے زاری سی بے زاری بلکہ خواری ہے۔ ابھی میں ایک کسان کا نوحہ سن رہا تھا کہ وہ خون خون پسینہ ایک کر کے اناج اگاتے ہیں پھر پتہ چلتا ہے کہ وہ خالی ہاتھ رہ گئے کوئی پوچھنے والا نہیں آٹا کہاں گیا؟وہ بزرگ بڑی دیر تک بین ڈالتے رہے ویڈیوز کے کرداروں کو دیکھ کر مجھے تو واقعتاً جارج آرویل کا اینیمل فارم یاد آ گیا کہ جب جانوروں نے حکومت سنبھالی تو کس قدر ظالم ثابت ہوئے اور انہوں نے ہر وہ کام جس کو ممنوع قرار دیا گیا تھا اپنے لیے جائز کر کے کیا اور شام ہوتے ہی انہوں نے دودھ اور سیب اپنے لئے رکھ لئے کہ وہ جانوروں کے لئے ذہنی کام کرتے ہیں۔ یہ چیئرمین رعایا کے لئے ٹھیک نہیں ہیں رعایا کو دودھ اور سیب وغیرہ کا عادی نہیں ہونا چاہیے یہ تو ان کی عادتیں خراب کرنے والی بات ہے ،ویسے آپ ان دنوں یہ نایاب ناول ضرور پڑھیں چلیے آپ کو احمد ندیم قاسمی کی مذکورہ غزل کے دو اشعار اور پڑھاتے ہیں مزہ لیجیے: سر دیوار یہ کیوں نرخ کی تکرار ہوئی گھر کا آنگن کبھی بازار نہیں ہو سکتا میں نے بھیجا تجھے ایوان حکومت میں مگر اب تو برسوں ترا دیدار نہیں ہو سکتا لگتا کچھ یوں ہے کہ خان صاحب سے اب اپنی بقا کی جنگ لڑنا بھی مشکل ہو گیا ہے ان کے رتن جو بڑے مان سے انہوں نے باہر سے لئے تھے عوام کا سامنا کرنے کے قابل ہی نہیں۔ اب تو ان لوگوں کے پاس جھوٹ ہی جھوٹ ہے جو وہ کثرت سے بول رہے ہیں اب انہیں شفافیت یاد آ گئی ہے حالانکہ یہ انصاف والی پارٹی تو شفاف چلی تھی اور اب یہ اوندھے منہ پڑی ہے۔ میں تو ان کی منصوبہ بندی پہ حیران ہوں کہ ایمانداری کے دعوے داروں نے کس طرح ویڈیوز بنا کر ممبران کو ٹریپ کیا اور پھر ان ویڈیوز کو وقت آنے پر کیسے لیک کیا۔ ہم تاریخ کے واٹر گیٹ سکینڈل کو روتے رہتے ہیں ہمارے پاس تو ایسی ایسی کہانیاں ہیں کہ باہر والے کانوں کو ہاتھ لگا لیں۔ تبھی تو امریکہ کے ایک سینیٹر نے بہت ہی نازیبا جملہ پاکستانی سیاستدانوں کے بارے میں کہا تھا آپ کو یاد آ گیا ہو گا مجھے دہرانے کی ضرورت نہیں: خدا سے اپنے طلبگار ہوں معافی کا میں جانتا ہوں کہ میرا اگر حساب ہوا ظلم ہے اور بے زبانی ہے یہ مرے عہد کی کہانی ہے۔ غم کا احساس تک نہیں باقی۔ رائیگانی سی رائیگانی ہے ۔خود کو زندہ سمجھ رہے ہیں ہم آہ کس درجہ خوش گمانی ہے ہم سبک سر ہوئے زمانے میں۔ اپنے دل پر عجب گرانی ہے۔ آپ ان اشعار کو نوحہ کہہ لیں یا کچھ اور۔ یقینا آپ بھی میری طرح دل گرفتہ ہونگے کہ قائد اعظم کے پاکستان کو کیسے برباد کر دیا گیا ۔ ہماری رہنمائی کرنے والے خود گمراہ ہیں بعض میں تو کامن سینس بھی نہیں ۔ایک مثال دینا چاہوں گا ابھی میں محترمہ مریم نواز کو سن رہا تھا تو انہوں نے امرتا پریتم کی مشہور نظم اج آکھاں وارث شاہ نوں‘ پڑھی تو میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا کہ اس کا موجودہ منظر نامے سے کیا واسطہ۔کوئی انہیں بتانے والا نہیں کوئی عرفان صدیقی ہی انہیں بتاتا کہ یہ نظم تقسیم کے پس منظر میں لکھی گئی ہے کہ انہیں گریٹر پنجاب کے ٹوٹنے کا دکھ تھا۔ لہو نال بھری چناب۔ کی تفسیر بھی پڑھیں میں بھی کیا ہوں کہ علمی بات لے بیٹھا ہاں مجھے یاد آیا کہ جناب شہباز شریف بھی تو جالب کی نظم پڑھتے تھے کہ دیپ جن کا محلات ہی میں جلے تو اس وقت ان کے محلات میں سب سے زیادہ دیپ جل رہے تھے اور وہ جلسوں میں بھٹو بنے ہوئے مائیک گرا رہے تھے اور زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹ رہے تھے کبھی کبھی کوئی پرانا منظر یاد آ جاتا ہے کہ یہ جلسہ میرے کالج کے قریب ہی ہوا تھا اور وہ کھمبا بھی وہیں ہے جس پر زرداری کو الٹا لٹکانا تھا۔چلیے شہبازشریف نے تو پھر بھی لاہور کو سجا دیا تھا اب تو کوئی اس کی صفائی کرنے والا بھی کوئی نہیں۔ بعض جگہ تو گندگی کے باعث لوگ ماتم کناں ہیں ۔پی ٹی آئی مکمل فلاپ ہو چکی ہے، حکومت ختم ہونے کے بعد کی صورت حال تو اس جماعت کے لئے مزید ڈرائونا خواب ہو گی ۔بڑے جذبے والے نوجوانوں کو میں جانتا ہوں جو ہمارے ساتھ آ کر اس جماعت کے لئے اپنے جذبوں کا اظہار کرتے تھے ہائے ہائے نوجوانوں کی اس جماعت نے نوجوانوں کو شرمندہ کر دیا۔ آج مزے کی سرخی لگی ہے کہ وزیر اعظم کے سخت نوٹس پر عوامی مسائل حل نہ کرنے ولے افسروں کے خلاف کارروائی ہو گی جناب گستاخی معاف سب سے زیادہ مسائل تو آپ پیدا کر رہے ہیں کہ تین تین مرتبہ بجلی مہنگی، آئے دن پٹرول میں گرانی اور گیس کے بل ہزاروں میں لوگ تو یوٹیلیٹی بلز ادا کرتے ہلکان ہو جاتے ہیں اور اسی کے باعث ہر شے مہنگی ہو جاتی ہے اس لوٹ میں تاجر اپنا حصہ بھی رکھتا ہے بات پھر آ جاتی ہے بے چارے ملازم پر جو تنخواہ دار ہے خاں صاحب خدا کا خوف کیجیے اب بس کیجیے۔ یا غریب کا گلہ دبا دیجیے۔ ایک شعر: بات ایسی ہے بتانے کی نہیں دنیا کو رو پڑے ہم بھی خریدار تک آتے آتے