سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ واقعہ تاریخ کی زینت ہے کہ جب وہ بحیثیت ِ امیر المومنین، قاضی کی عدالت میں یہ دعویٰ لے کر پیش ہوئے کہ ان کی زرہ فلاں یہودی کے پاس ہے۔ قاضی نے وقت کے حکمران سے گواہ طلب کئے۔ سیدنا علی ؓ نے اپنے بیٹے حضرتِ حسنؓ اور غلام قنبر کو پیش کیا۔ قاضی نے کہا باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی اور آقا کے حق میں غلام کی گواہی قبول نہیں۔ سیدنا علیؓ خاموشی سے عدالت کے فیصلے پر سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے عدالت سے باہر نکل آئے۔ کیا ان کے دعوے کی سچائی پر کسی کو یقین نہیں تھا؟ کیا وہ امیر المومنین نہیں تھے جنہیں قاضی کو برطرف کرنے کا مکمل اختیار حاصل تھا؟ اگر اس فیصلے کے بعد سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوفہ کی مسجد میں ایک اجلاس بلاتے اور خطاب کرتے ہوئے فرماتے کہ یہ کیسا نظامِ عدل ہے جہاں علی ؓ کو اپنے دعوے کی تصدیق کے لئے گواہوں کی ضرورت ہے۔ لوگ یقیناً سیدنا علیؓ کی آواز پر لبیک کہتے۔ لیکن پھر اس دن اسلام کی درخشاں تاریخ سے قانون اور عدل کی حکمرانی کا سنہرا باب بند ہو جاتا۔ مگر سیدنا علیؓ نے عدالت کے اس فیصلے کا احترام کیا۔ اس سے ایک دوسرا باب کھلا اور اسلام کے اس عظیم نظامِ عدل کو دیکھنے کے بعد وہ یہودی مسلمان ہو گیا۔ پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان کے ہر سیاست دان، خواہ وہ حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں، اس پر بننے والا ہر مقدمہ سیاسی کہلاتا ہے۔ وہ کسی کی جائیداد پر قبضہ کرے، قتل کرے یا کروائے، بدترین کرپشن کرے، سرمایہ لوٹ کر بیرون ملک لے جائے، عدالتوں کا مفرور ہو لیکن اس پر بننے والا ہر مقدمہ سیاسی ہے اور اس کے خلاف کاٹی جانے والی ہر ایف آئی آر ایک سازش ہے۔ یہ صرف ایک بیان نہیں بلکہ ایسے تمام سیاست دانوں کے جرائم کے دفاع میں ان کے ہزاروں کارکن میدانِ عمل میں نکلتے ہیں۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ایک وزیر اعظم اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کے تحت ایک دوسرے وزیر اعظم کو دی جانے والی پھانسی کی سزا کو ’’عدالتی قتل‘‘ قرار دیتا ہے اور ایوان تالیوں سے گونج اُٹھتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ کسی سوؤ موٹو ریفرنس کے تحت سپریم کورٹ نے نہیں کیا تھا، بلکہ وہ عام قانونی طریقِ کار کے تحت ہائی کورٹ میں باقاعدہ ایک عمومی کیس کے طور پر چلا تھا، باقاعدہ گواہان پیش ہوئے تھے اور ان پر اسی طرح جرح کی گئی تھی جیسے عمومی مقدمات میں کی جاتی ہے۔ بھٹو بڑا آدمی تھا اس لئے اس کو تو ایک عام آدمی کی نسبت ملک کے عالی دماغ وکلاء کی خدمات بھی حاصل تھیں۔ ہائی کورٹ میں سزا کے بعد مقدمہ سپریم کورٹ میں چلا تھا۔ وہاں فیصلے کے وقت اس بات کا اختلاف تھا کہ سزا کونسی دی جائے۔ چار جج پھانسی کے حق میں تھے اور تین اس میں تخفیف کے حق میں، لیکن کسی نے بھٹو کو اس قتل سے بری نہیں کیا تھا۔ اس فیصلے کے بعد بھٹو نے سپریم کورٹ میں نظرثانی (Review) کی درخواست دائر کی تھی، جس میں اس زمانے کے اخبارات نے بھٹو کا مکمل بیان شائع کیا تھا، جس میں اس نے سرائیکی کا یہ مصرعہ پڑھا تھا ’’دُکھاں دی ماری جندڑی علیل ہے‘‘ (دُکھوں سے نڈھال زندگی علیل ہے)۔ نظرثانی کی درخواست میں فیصلہ کرتے وقت سپریم کورٹ کے تمام سات جج متفق ہو گئے تھے اور پھانسی کا فیصلہ ایک متفقہ فیصلہ تھا۔ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں یہ پہلی سزا تھی جو ایک ایسے شخص کو دی گئی، جس نے قتل کا حکم دیا تھا، یہ نہیں کہ مجبور اہل کاروں کو اس کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا۔ احمد رضا قصوری کے ساتھ کسی پولیس والے کی ذاتی دشمنی نہیں تھی کہ وہ اس پر چھ قاتلانہ حملے کرتے اور آخرکار اس کے والد کو قتل کر دیتے۔ نیرنگیٔ سیاست ِ دوراں تو دیکھئے کہ آج عدالت سے سزا یافتہ اس سابق وزیر اعظم کی فاتحہ ایوان میں اس شخص نے پڑھائی جس کا دادا 23 اگست 1978ء کو اس تقریب ِ حلف وفاداری میں نمایاں نشستوں پر متمکن تھا جس میں صرف اس کی پارٹی ہی نہیں بلکہ نو جماعتوں کے اتحاد کے وزراء نے حلف اُٹھایا تھا۔ کیسے کیسے بھٹو مخالف اس وقت ضیاء الحق کے پہلو میں جا بیٹھے تھے۔ بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ، مفتی محمود، میاں طفیل وغیرہ سب اس تقریب میں شریک تھے اور وزراء کی فہرست میں تو جاوید ہاشمی، پروفیسر غفور اور خواجہ صفدر جیسے جمہوری نابغے شامل تھے۔ یکم اپریل 1979ء کو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ کر دیا گیا، کیونکہ اس کی ہمشیرہ شہربانو کی دی گئی رحم کی اپیل مسترد کر دی گئی تھی۔ یہ خبر جب مولانا مفتی محمود تک پہنچی تو انہوں نے بیان دیا کہ ہمارے مقاصد پورے ہو گئے ہیں اس لئے ہم اب حکومت سے الگ ہو رہے ہیں۔ آج ایوان میں اس بات کی بھی گونج سنائی دی گئی کہ گذشتہ بارہ سال سے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل جمع کرائی گئی ہے، اسے سُنا جائے۔ پاکستان کے آئین کے تحت بائیس کروڑ عوام میں سے کسی ایک کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ نظرثانی کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کرے، لیکن اسی آئین کے برخلاف ایک درخواست جمع بھی کرائی گئی اور ایوان میں یہ مطالبہ بھی دہرایا گیا کہ سپریم کورٹ یہ غیر آئینی کام فوراً کرے۔ دوسری جانب ایک دوسرا سیاسی کردار ہے جسے 24 دسمبر 2018ء کو پاکستان کی اینٹی کرپشن عدالت نے مجرم گردانتے ہوئے سات سال قید کی سزا سُنائی تھی۔ یہ شخص عدالت کو یہ نہیں بتا سکا تھا کہ اس نے سعودی عرب میں اپنی ملکیتی العزیزیہ مل کس سرمائے سے بنائی۔ وہ اس جرم میں قید کاٹ رہا ہوتا ہے مگر اس پر ’’کمال مہربانی‘‘ کرتے ہوئے چند ہفتوں کے لئے علاج کی خاطر اس کے بھائی اور موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کی ضمانت پر بیرون ملک جانے کی اجازت دی جاتی ہے، مگر وہ گذشتہ چار سال سے واپس نہیں آیا اور اس وقت عدالت اسے مفرور قرار دے چکی ہے۔ مروّجہ قوانین کے مطابق اگر آج کسی شخص کے گھر میں مفرور مجرم کی موجودگی کا پتہ چل جائے یا کوئی شخص کسی مفرور مجرم سے ملتا جلتا نظر آئے تو پولیس فوراً اُسے اُٹھا کر لے جائے، مار مار کر اس کا بھرکس نکال دے۔ لیکن پاکستان کے عدالتی نظام کا تمسخر کوئی عام آدمی نہیں اس ملک کا وزیر اعظم اور وزراء روز اُڑاتے ہیں اور اب تو نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ مجرم خود میدان میں اُتر آیا ہے اور پاکستان کی اعلیٰ عدالت کو چیلنج کر رہا ہے۔ نواز شریف کو سات سال سزا کسی سیاسی یا آئینی معاملے میں نہیں بلکہ سیدھی سادھی بددیانتی کے مقدمے میں ہوئی تھی، لیکن اس ملک میں یہ دستور بن چکا ہے کہ اگر آپ سیاست دان ہیں تو پھر آپ قتل کریں، چوری کریں، ڈاکہ ڈالیں، بھتہ خوری کریں، اغواء برائے تاوان کریں، آپ پر بننے والے تمام کے تمام مقدمات سیاسی ہیں اور سیاسی ہی رہیں گے۔ آپ کے نزدیک خلاف فیصلہ دینے والی تمام عدالتیں جذبۂ انتقام سے بھری ہوئی ہیں اور آپ پر یہ تمام مقدمات آپ کو سیاسی طور پر خاموش کرنے یا نقصان دینے کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ یہ ہے اس مملکت ِ خداداد پاکستان کے عدالتی نظام کا المیہ۔ اس المیے میں چند سیاسی رہنمائوں کے مقدمے ہی نہیں بلکہ اس کا سب سے بڑا شہر کراچی تیس سال تک خاک و خون میں نہاتا رہا۔ ہزاروں افراد قتل کر دیئے گئے، لوگ مسلسل بھتہ دیتے رہے، اغواء برائے تاوان پر تاوان ادا کرتے رہے، لیکن وہ تمام ملزمان اس لئے قانون کی دسترس سے دُور رہے، کیونکہ وہ چند ہزار ووٹ لے کر اسمبلیوں میں آتے تھے اور ان کی پہچان ایک سیاست دان کی تھی۔ کسی ریاست کی تباہی کی اس سے بڑی مثال پوری انسانی تاریخ سے نہیں دی جا سکتی ہے۔