سیاست پر لکھنا اور مسلسل ایک ہی طرح کے حالات حاضرہ کا ماتم کرتے جانا کس قدر یکسانیت سے بھرپور ہے۔میری کوشش ہوتی ہے کہ میں مختلف نئے موضوعات کو بھی کھوجتی رہوں۔سچ پوچھیں تو جی چاہتا ہے کہ سیاست کے علاوہ ہر موضوع پر لکھا جائے ۔کبھی سوچتی ہوں کہ کیا تیسری دنیا میں سیاست سماج اور معیشت کی صورت ایسی ہی بگڑی ہوئی رہے گی؟ سیاست سماج معیشت اور اب میڈیا بھی سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے عناصر ہیں اور ایک دوسرے پر اثر انداز بھی ہوتے ہیں۔پھر ان چاروں عناصر سے جڑی ہوئیں ہماری معاشرت اور ہماری زندگیاں کسی ایک ایک عنصر سے جڑے ہوئے موضوع پر لکھیں،تو خود بخود اس میں سیاست سماج اور معیشت کا ذکر آتا ہے ایسا نہیں ہوسکتا کہ تصویر کو پورے منظر سے الگ ہو کر دیکھیں بلکہ تصویر پورے منظر ہی کا حصہ ہے۔ اس پورے منظر ہی کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں کہ ان چاروں پر اثر انداز ہونے والی بھی کچھ ان دیکھی طاقتیں ہیں،جن کا ذکر خوف فساد خلق سے ہم نہیں کرسکتے یا یوں کہہ لیجئے کہ ہمیں ان کہے طریقے سے منع کر دیا گیا ہے۔ کچھ طاقتیں جو مقدس سمجھی جاتی ہیں۔کچھ خاص عہدے جن پر ہم جیسے عامی سوال نہیں اٹھا سکتے۔ہوا نے میرے کانوں میں سرگوشیاں کی ہیں کہ یہاں سچ بولنا منع ہے یہاں سچ کی بولنے کی سزا بڑی کڑی ہے۔یہ مادی دنیا جھوٹ اور جھوٹ سے بنی ہوئی چیزوں پر قائم ہے۔بس جھوٹ بولتے رہو، سچ بولنا بھی ہو تو جھوٹ کی ملاوٹ کرو یہی دنیا کاچلن ہے۔درویش شاعر نجیب احمد نے بھی کس قدر تکلیف سے گزر کر یہ حقیقت لکھی ہوگی۔تھوڑا تھوڑا جھوٹ ملا لے اپنی سچی باتوں میں یا پھر ذرا سا جھوٹ ہو شامل تو سونا نت نئے گہنوں میں ڈھلتا ہے۔ان حالات میں سچ مصلحت کے قبرستان میں کہیں خاموش پڑا رہتا ہے۔کبھی کوئی مجھ سے پوچھ لے کہ آپ کن موضوعات پر لکھتی ہیں تو ایک لمحے کو میں سوچ میں پڑ جاتی ہوں کہ اس کا جواب کیا دوں۔ ہمارے لوگ سیدھے سادے ہیں اور جواب سیاہ و سفید میں چاہتے ہیں۔کچھ اس طرح کہ میں سیاست پر کم لکھتی ہوں یا میں سماجی موضوعات پر لکھتی ہوں یا میں سماجی موضوعات پر نہیں لکھتی،میں صرف معیشت پر لکھتی ہوں۔لیکن میرے نزدیک ایسا نہیں ہوتا سیاست سماج معیشت معاشرت سب ایک دوسرے سے جڑی ہوئی حقیقتیں ہیں،ان کے سر ے ایک دوسرے میں پیوست ہیں بلکہ کہیں کہیں تو ایک دوسرے کو پینٹ کی ہوئی،تصویر کے رنگوں کی طرح اوور لیپ کرتے ہیں۔جیسے ایک مصور مختلف رنگوں سے ایک تصویر پینٹ کرتاہے بالکل اسی طرح سیاست سماج معاشرت اور معیشت مل کر زندگی کی ایک تصویر بناتے ہیں۔بس میرا موضوع زندگی کی وہی تصویر ہے۔میں سیاست پر براہ راست کمنٹری کرنے کے موضوعات سے ہمیشہ بچتی ہوں لیکن کبھی کبھی ہمیں اس پر بھی لکھنا پڑتا ہے۔ایسا تب ہوتا ہے جب سیاسی حالات کی ہانڈی میں کچھ زیادہ ابال آنے لگے۔جیسے ان دنوں سیاست اور اس کی تماشا گری اپنے عروج پر ہے۔ نومبر کے مہینے میں سیاسی تھیٹر پر کھڑکی توڑ رش لگا ہے۔مجھے اس سیاسی تھیٹر کو دیکھ کر سمیوئل بیکٹ کا تھیٹر آف ابسرڈ یاد آتا ہے۔بے تکی بے معنی حرکتیں جن کا حاصل حصول کم ازکم عوام کے لیے تو کچھ بھی نہیں۔یہ اور بات ہے کہ سیاست کا یہ کھیل تماشہ سب جمہوریت اور عوام کے نام پر ہوتا ہے۔مگر اس کے نہاں خانوں میں اقتدار کے حصول اور اس کی طوالت کی خواہش ہوتی ہے اور اپنے مالی و اختیاراتی مفاد پیش نظر ہوتے ہیں۔ الیکشن کے قریب آنے لگتے ہیں تو سیاست کی باسی کڑی میں ایک خاص طرح کا ابال اٹھتا ہے تب نئے نعرے تخلیق کیے جاتے ہیں ۔ یہ رنگ برنگے جذباتی نعرے ہمارے پاکستانی مارکہ جمہوریت کے کلچر کا حصہ ہیں،سو ہر الیکشن کے قریب نئے نعرے تخلیق کیے جاتے ہیں ۔اس بار الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا شوشا چھوڑا گیا ہے۔ بہرحال الیکشن سے پہلے ایک ماحول بنایا جاتا ہے ایک خواب کا چہرہ تراشا جاتا ہے سیاسی اداکاری کی اکیڈمیوں میں نئے داخلے ہوتے ہیں۔ پس پردہ رہ کر اپنا کردار ادا کرنے والے کچھ نئے اداکاروں کو میدان میں اتارتے۔انہیں اداکاری کے اسرار و رموز سکھائے جاتے ہیں۔پرانی کہانی میں نئے کردار ڈال کر وہی گھسے پٹے ڈائیلاگز بولے جاتے ہیں ۔ہدایت کار اپنی ماہرانہ صلاحیتوں سے ڈرامے میں سنسنی پیدا کرنے کے ماہر ہیں ڈرامے کا ہر موڑ اس قدر سنسنی خیز ہوتا ہے کہ عوام گوڈے گوڈے اپنے مسائل میں پھنسے ہونے کے باوجود اس ڈرامے میں دلچسپی لینے لگتے ہیں۔بس الیکشن سے کم وبیش ڈیڈھ دوسال پہلے یہ سرگرمیاں شروع ہوجاتی ہیں تاکہ وقت آئے تو خواہشوں اور خوابوں کے سودے مناسب دام کیے جا سکیں۔عوام الناس سے پھر ایک نئے دھوکے کے لئے تیار ہو جاتی ہے، انہیں ایسا لگتا ہے کہ یہ سب کچھ جمہوریت کی خاطر اور عوام کے مفاد کے لیے ہو رہا ہے۔ لیکن کہانی کے آخر میں کھلتا ہے کہ ان کے حصے میں صرف ڈبل ایکس مہنگائی اور اہل اختیار کی بے حسی کے سوا کچھ بھی نہیں آیا۔عوام کی صورت حال فراز کے الفاظ میں یہ ہے کہ : یہ سوچ کر کے غم کے خریدار آگئے ہم خواب بیچنے سر بازار آگئے آواز دے کے چھپ گئی ہر بار زندگی ہم ایسے سادہ دل ہر بار آگئے۔