امریکہ کی بھارت سے قربت اور پاکستان سے سرد مہری بڑھتی جا رہی ہے ۔واشنگٹن کے دہلی کے ساتھ گہرے تزویراتی تعلقات قائم ہونے کے بعد علاقائی سیاست میں بڑی بڑی تبدیلیاں رُونماہورہی ہیں۔ پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری کے لیے نئے خطرات جنم لے چکے ہیں۔امریکی ماہرین کھل کر کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کو اگر امریکہ کے لیے اہم ہونا ہے تو اسے خود کو بہت تبدیل کرنا ہوگا یعنی اپنی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔اِن بنیادی تبدیلیوں کاآسان الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ چین سے فاصلہ کرو‘ بھارت کی جنوبی ایشیا میں بالادستی قبول کرو ‘ کشمیر کو بھول جاؤ اور امریکہ‘بھارت اتحادکی ماتحت ریاست بن کر رہو۔ پاکستان کے قوم پرست حلقوں کے لیے ان مطالبات کو ماننا ممکن نہیں۔ دس سال پہلے تک رُوس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات زیادہ اچھے نہیں تھے۔پاکستان ابتدا سے خطہ میںکمیونسٹ روس کے خلاف امریکی بلاک کا حصہ رہا۔جبکہ بھارت رُوس سے بہت قریب تھا اور اس نے روس کے ساتھ دفاعی تعاون کے معاہدے کیے ہوئے تھے۔رُوس ہی بھارت کو تقریباً تمام جنگی اسلحہ‘ہتھیار فراہم کرتا تھا اور بہت حد تک اب بھی کرتا ہے۔ رُوس نے کئی دہائیوں تک پاکستان کو اسلحہ فروخت کرنے پر پابندیاں لگائی ہوئی تھیں۔ بھارت کو پاکستان سے تعلقات کے معاملہ پر ماسکو میں ایک طرح کی ویٹو پاور حاصل تھی۔وہ رُوس کو پاکستان سے تعلقات کو فروغ دینے سے روک دیا کرتا تھا۔ تاہم اب دنیا بدل گئی ہے۔ بھارت نے امریکہ کے ساتھ تزویراتی تعلقات قائم کرکے چار دفاعی معاہدے کرلیے ہیں۔ وہ رُوس کے ساتھ ساتھ امریکہ ‘ فرانس اور اسرائیل سے بڑے پیمانے پر اسلحہ خرید رہا ہے۔ رُوس کی بھارتی اسلحہ منڈی پر اجارہ داری ختم ہوگئی ہے۔ اب پاکستان کے لیے مواقع موجود ہیں۔ پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل پرویز کیانی کو کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے رُوس سے تعلقات بڑھانے کی اہمیت کو سمجھا اور سنہ دو ہزار گیارہ میں ماسکو کا دورہ کیا۔ انہوں نے روسی حکام کو قائل کرلیا کہ وہ پاکستان پر اسلحہ کی فروخت کی پابندیاں ہٹائیں۔ ان کے فوراً بعد ہمارے فضائیہ کے سربراہ ائیر مارشل طاہر رفیق بٹ نے رُوس کا دورہ کیا جسکے جواب میں رُوسی فضائیہ کے چیف وکٹر بونداریف پاکستان تشریف لائے۔ 2014 میں روس نے پاکستان پر سے اسلحہ فروخت کرنے کی پابندی ختم کردی اور اسلام آباد کے ساتھ ایک دفاعی معاہدہ پر دستخط کیے۔ اسکے بعد سے دونوں ملکوں کے اعلی حکام اور وزراء کا ایک دوسرے کے ہاںآنے جانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔جنرل کیانی کے بعد جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر جاید باجوہ نے بھی روس کے دورے کیے۔روس نے پاکستان کو چارجدید جنگی ہیلی کاپٹر بھی فروخت کیے۔ماسکو نے پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم میں بھی شامل کرنے میں مدد فراہم کی۔ دونوں ممالک مشترکہ فوجی مشقیں بھی کرتے ہیں۔ پاکستان کے فوجی افسر اعلیٰ تربیت کے لیے رُوس جاتے ہیں۔ روس کی بحریہ دو مرتبہ پاکستان کے ساتھ کثیر ملکی بحری افواج کی مشقوں میں شریک ہوچکی ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے ایک اجلاس کے موقع پر روسی صدر پیوٹن اور پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی خوشگوار ماحول میںملاقات ہوئی ۔دونوں ممالک انسداد منشیات‘ سرحدی معاملات کے انتظام اور دہشت گردی کے خلاف کوششوں کے معاملات پر ایک دوسرے سے قریبی تعاون کررہے ہیں۔ پاکستان جو جدید ترین جنگی طیارہ ایف تھنڈر بنارہا ہے اس مین چین کے ساتھ ساتھ روس کا تعاون بھی شامل ہے۔ سب سے اہم‘ماسکو اور اسلام آباد میں افغانستان کی خانہ جنگی ختم کروانے اور وہاں مصالحتی عمل کو آگے بڑھانے میں بہت اتفاق رائے اور سوچ کی یکسانیت پائی جاتی ہے۔پاکستان اور روس دونوںنہیں چاہتے کہ افغانستان میںداعش ایسی پُر تشدد تنظیم پروان چڑھے۔ چین بھی اس معاملہ میں شریک ہے۔ یہ تینوں ممالک افغانستان میںامن لا کر اسے عالمی تجارت کے نئے زمینی راستے سے منسلک کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا کے ملکوں کے درمیان نوّے فیصد عالمی تجارت بحری راستوں سے ہوتی ہے۔ ان بحری راستوں پر پہلے برطانیہ اورتقریباً ایک صدی سے امریکہ کا غلبہ ہے۔ اسی وجہ سے یہ دنیا کا تھانیدار بنا ہوا ہے۔چین اسی کے توڑ کے لیے زمینی تجارتی راستہ ’بیلٹ ایند روڈ‘ بنا رہا ہے۔ سی پیک بھی اسی کا ایک حصّہ ہے۔ ہمیں ترکی سے خارجہ پالیسی میں تنوع سیکھنے کی ضرورت ہے۔ یُوں تو ترکی امریکی اتحاد نیٹو کا حصّہ ہے لیکن اس نے رُوس کے ساتھ بھی اچھے تعلقات استوار کیے ہوئے ہیں۔ ترکی کی کمپنیوں نے رُوس میں سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ ترکی کے طالبعلم رُوس جا کرسائنس اورٹیکنالوجی کے تعلیم حاصل کرتے ہیں جسکے نتیجہ میں ترکی کی مقامی صنعت کو بہت فائدہ ہوا ہے۔ ہم ایسا کیوں نہیں کرسکتے۔ ہم تو اب کسی امریکی اتحاد کا حصہ بھی نہیں ہیں بلکہ امریکہ نے بھارت سے ملکر ہم پر کئی طرح کی پابندیاں لگائی ہوئی ہیں جن میں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رکھنا بھی شامل ہے۔ بعض شعبوں میںرُوس سائنس اور ٹیکنالوجی میںبہت آگے اور امریکہ کا ہم پلہ ہے۔ اسکی کمپنیوں کو کاروبار اور سرمایہ کاری کرنے کے لیے نئی منڈی چاہیے جو پاکستان مہیا کرسکتا ہے۔ ہمیں جدید ترین دفاعی ٹیکنالوجی اور سازوسامان کی ضرروت ہے جو چین کے ساتھ ساتھ رُوس بھی فراہم کرسکتا ہے۔سب سے پہلے تو ہمیں رُوسی زبان سکھانے کے ادارے تمام بڑے شہروں میں قائم کرنے چاہئیں تاکہ ہمارے طالب علم یہ زبان سیکھنے کے رُوس کی درسگاہوں میں اعلیٰ تعلیم کے لیے آسانی سے جاسکیں جہاں تعلیمی درسگاہیں معیاری بھی ہیں اور امریکہ‘یورپ کی نسبت سستی بھی ہیں۔ زبان کی اجنبیت تعلقات میں ایک بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔ اسے دُور کرنے کو ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا چاہیے۔ روس اور پاکستان کے درمیان ثقافتی وفود کے تبادلوں کا پروگرام بنانے کی ضرورت ہے تاکہ دونوں ملکوں کے عام لوگ ایک دوسرے کے قریب آئیں۔