اگرچہ غم بھی ضروری ہے زندگی کے لئے مگر یہ کیا کہ ترستے رہیں خوشی کے لئے وہ مجھ کو چھوڑ گیا تو مجھے یقیں آیا کوئی بھی شخص ضروری نہیں کسی کے لئے میرے معزز قارئین!بات کچھ یوں ہے کہ میرے پڑھنے والوں میں ادبی ذوق رکھنے والوں کا اصرار ہے کہ گاہے گاہے ادبی یادداشتیں ان کے ساتھ شیئر کیا کروں۔ مجھے اس کا اندازہ ہے کہ جس روز میں ادب کے حوالے سے کچھ تحریر کرتا ہوں تو فیڈ بیک کافی بڑھ جاتا ہے۔ شاید لوگ سیاسی کالم پڑھ پڑھ کر اکتا چکے ہیں پھر ایک ہی طرح کی باتیں خبروں میں بھی ہوتی ہیں اور کالموں میں بھی۔ اب دیکھیے ناں چند روز قبل سید ارشاد احمد عارف نے کچھ ادبی لطیفوں کا تذکرہ کیا۔ میرے ذہن میں تو پورا دبستان ہی کھل گیا۔ جیسے کہ منیر نیازی نے کہا تھا ’’طبلہ ‘‘عطار کھل گیا‘‘ ہم نے تو یہ بھی دیکھا کہ بعض اوقات لطیفوں کے اندر سے لطیفے برآمد ہوتے ہیں۔ مثلاً ایسا ہی ایک واقعہ تاریخی بھی ہے اور شاندار بھی۔ اسیر عابد حب اسلامیہ کالج گوجرانوالہ میں میرے کلیگ تھے اور آپ کی شہرت غالب کے دیوان کا پنجابی ترجمہ کرنے سے چاروں دانگ پھیل گئی۔ اس کا تذکرہ تو بعد میں کریں گے فی الحال اس واقعہ کی طرف آتے ہیں جو شیخو پورہ میںایک مشاعرے سے پہلے یا بعد میں ہوا۔ بڑے واقعہ سے پہلا واقعہ مختصر تھا کہ اسیر عابد کی لمبی ٹائی کو موضوع سخن بنایا گیا اور امجد اسلام امجد اور عطاء الحق قاسمی انہیں اس حوالے سے تنگ کرتے رہے۔اگلے روز ناشتے پر جب اسیر عابد کھانے والے کمرے میں داخل ہوئے تو عطا صاحب نے کہا او ٹائی آئی جے۔ سب قہقہہ بار ہو گئے۔ اسیر عابد آ کر آرام سے بیٹھ گئے۔ توقف کے بعد امجد صاحب سے مخاطب ہوئے اور پوچھا کہ کیا انہوں نے غلام عباس کا افسانہ اوور کوٹ پڑھا ہے؟امجد صاحب نے کہا ہاں اسیر صاحب کہنے لگے اس میں ایک کمال کا جملہ ہے کہ بعض قوم پرست کتے ٹائی کو دیکھ کر دور ہی سے بھونکنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اب آتے ہیں اصل واقعہ کی طرف کھانے کی میز پر امجد صاحب اور عطا صاحب دونوں محفل کو لطیفوں کے حصار میں لئے ہوئے تھے۔ ایک طرف سے امجد صاحب لطیفہ سناتے تو دوسری طرف سے عطا صاحب درمیان میں وقفہ نہیں آنے دے رہے تھے ان کو روحی کنجاہی صاحب آگے بڑھ کر کان لگا کر غور سے سن رہے تھے کہ ان کو ثقل سماعت کا مسئلہ تھا۔یعنی وہ اونچا سنتے تھے اسیر عابد صاحب سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ لطیفوں میں ذرا سا وقفہ آ گیا کہ امجد صاحب نے اپنی باری کا لطیفہ سنانے میں چند لمحوں کی تاخیر کر دی۔ اس چھوٹے سے وقفے میں اسیر عابد کی رگ ظرافت پھڑ کی ۔ انہوں نے روحی کنجاہی کے گھٹنے پر زور سے ہاتھ مارا اور بولے’’ بزرگو!پیشاب وشاب کر لوو وقفہ ہو یا جے‘ ‘بس پھر کیا تھا محفل کشت زعفران بن گئی۔ روحی کنجاہی صاحب کے حوالے سے مجھے ایک اور زبردست واقعہ یاد آ گیا۔ہم لوگ اوپن ایئر تھیٹر باغ جناح میں جشن بہاراں کا مشاعرہ پڑھنے گئے۔کیا مشاعرہ تھا پھر رات کی ٹھنڈی ہوا جس میں ایک خاص سبز مہک گندھی ہوئی تھی۔ رات کا سکون اور لوگوں کا ہجوم مجھے یاد ہے اعزاز احمد آذر اس کی میزبانی کر رہے تھے اور تقریباً تمام نامور شعرا موجود تھے۔ خیر یہ شاندار مشاعرہ اپنے اختتام کو پہنچا تو سب شعرا وہاں سے کھانے کے مقام کی طرف چل پڑے۔سب ٹولیوں کی صورت میں منزل کی طرف رواں تھے میں تو حسب روایت یا حسب عادت منیر نیازی کے ساتھ تھا کہ انہیں کمپنی میں ہی دیا کرتا تھا۔ راستے میں واش روم آیا تو منیر نیازی کہنے لگے سعداللہ شاہ!دیکھو یار واش روم خالی ہے! میں گیا اور آ کر بتایا کہ وہاں روحی کنجاہی صاحب ہاتھ دھو رہے ہیں اور دو چار منٹ میں آپ چلے جائیں۔ ہم سب وہاں کھڑے ہو گئے۔ روحی کنجاہی کو نکلنے میں کچھ دیر لگ گئی۔یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ جہاں روحی کنجاہی صاحب اونچا سننے لگے تھے وہاں اس سے بھی پہلے ان کی نظر کا مسئلہ تھا کہ کافی کمزور ہو چکی تھی۔ اب دوسری طرف نیازی صاحب نازک مزاج اور زود رنج ۔ ذرا سا انتظار کرنا پڑا تو جھنجھلا کر کہتے ہیں ’’دیکھ یار‘‘ میں ابھی انہیں کوئی جواب دینے ہی والا تھا کہ نیازی صاحب کی حس ظرافت نے کمال بات تخلیق کر دی۔ ’’یار مینوں تے لگدا اے او ہنے کھبے پاسے والی ٹوٹی کھول کے تے سجے پاسے ہاتھ دھونے شروع کر دیتے نیں‘‘۔ یعنی بائیں ہاتھ والی ٹونٹی کھول کر دائیں ہاتھ والی ٹونٹی کے نیچے وہ ہاتھ دھو رہے ہیں۔آپ ذرا سیچوایشن کو انجوائے کریں۔ نیازی صاحب کی بات میں کمال اختراع ہوتی تھی۔ اس لئے ان کا کہا ہوا جملہ ٹاک آف دی ٹائون بن جاتا تھا۔ اب چلتے چلتے روحی کنجاہی کا ایک خوبصورت شعر بھی تو میں درج کر دوں کہ وہ شعر ہمارے ہاں ہمیشہ تروتازہ رہا ہے بالکل احمد فراز کی نظم محاصرہ کی طرح: خبر گرم لایا ہوں روحی چور چوروں کے ہاتھ کاٹیں گے سید ارشاد احمد عارف نے منیر نیازی کے حوالے سے ایک قصہ بیان کیا کہ جس میں شراب پینے سے ایک شاعر کے جسم پر دھپڑ نکل آئے تھے۔ نیازی صاحب نے اسے کہا کہ شراب کو بھی پتہ ہے اسے کون پی رہا ہے۔ اس حوالے سے مجھے وہ واقعہ کبھی نہیں بھولتا کہ جب وہ محسن بھوپالی کے ساتھ بیٹھے شغل فرما رہے تھے۔آپ کے علم ہو گا کہ محسن بھوپالی کے چہرے کی رنگت گہری سانولی بلکہ سیاہی مائل تھی تو نیازی صاحب ان سے مخاطب ہوئے اور’’ کہا محسن توں برصغیر دا واحد شاعر ایں جہدا ظاہر باطن اک اے‘‘۔ یعنی تم برصغیر کے واحد شاعر ہو جس کا ظاہر اور باطن ایک ہے۔ ویسے یہ بڑے لوگ کس انداز سے سوچتے ہیں۔ مجھے ابن انشاء یاد آ گئے کہ جنہوں نے لکھا تھا کہ رنجیت سنگھ واحد حکمران گزرا ہے جس نے اپنی قوم کو ایک آنکھ سے دیکھا۔تو معزز قارئین! یہ تخلیقی لوگ عام بات تو کرتے ہی نہیں۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان بڑے شعرا اور ادبا کے ساتھ اکٹھے رہنے ‘ان کے ساتھ مشاعرے پڑھنے اور گپ شپ کرنے کے بے شمار مواقع ملے۔ بلکہ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ جب سی این اے کونسل آف نیشنل افیئرز کی ایک تقریب میرے اعزاز میں ہوئی تو اس میں شہزاد احمد نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ سعد کی شاعری تو ایک طرف اس کی فقرے بازی اسے زندگی میں بہت نقصان پہنچائے گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ حاضر جوابی ضروری ہے کیوں کہ جے کرہسنا چھڈ دیئے تے لوکی ہسن لگ پیندے نیں۔آخر میں دو شعر: رسم دنیا سے بھی آگاہ نہیں وہ کافر ورنہ بیمار سے احوال تو سب پوچھتے ہیں کیا کہیں ان سے جو خوشبو سے شناسا ہی نہیں کیا کبھی پھول سے بھی نام و نسب پوچھتے ہیں