میں گہری نیند سویا تھا مجھے بادل اٹھا لائے میں اک ندیا کنارے پر کسی وادی کا سپنا تھا یہ ایک شاعرانہ خیال ہے جس کے باطن میں سونامی ہے جو سارے منظر بدل کے رکھ دیتا ہے۔ اسی باعث سب کچھ تہہ و بالا بھی ہو جاتا ہے اور جل تھل بھی۔ ایک روز میرے دوست خالد محمود کہنے لگے‘ شاہ صاحب آپ کا ایک شعر 16سال بعد مجھ پر کھلا جب میں نے سونامی کو ایک پہاڑ کی صورت اٹھتے اور پھر سب کچھ تہس نہس کرتے دیکھا۔ شعر تھا: یہ سمندر بھی تو پانی کے سوا کچھ بھی نہیں اس کے سینے سے اگر لہر اٹھا لی جائے اتفاق ایسا ہے کہ اسی سونامی کی حکومت ہے اور ہمیں دشمن للکار رہاہے۔ مودی پاکستان پرحملے کی دھمکیاں دے رہا ہے اور اپنے روایتی انداز میں اپنے الیکشن کی کامیابی کے لئے وہی کہنہ انداز اپنا رہا ہے وہی گیدڑ بھبھکیاں۔ کیا کریں ہمارا دشمن کینہ رکھنے والا کمینہ ہے۔ ویسے بھی مودی کی شہرت ہی قاتل کی ہے جس نے گجرات میں مسلمانوں کا بے دریغ خون بہایا۔ وہ مسلمان دشمنی کی بنیاد پر ہی ہندوئوں کے ووٹوں سے برسر اقتدار آیا۔ اسے مسلم دشمن قوتوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اس نے ہندوستان کے مسلمانوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے کبھی گائے کے گوشت کو بہانہ بنا کر کسی مسلم کو شہید کر دیا جاتا ہے اور کبھی کسی بہانے۔ وہاں کے لوگ بھی مودی کی مکاریاں جانتے ہیں۔ اس نے ایک مرتبہ پھر گودھرا کی طرح اب پلوامہ حملے کو بہانہ بنا کر پاکستان کو سیدھی دھمکی دے ڈای ہے۔ وہ کچھ بھی کر گزرے گا۔ انڈیا سے راحت اندوری نے موجودہ صورت حال پر بہت خوب شعری تبصرہ کیا ہے: سرحدوں پر بہت تنائو ہے کچھ پتہ تو کرو چنائو ہے عمران خان نے بالکل درست کہا کہ کسی حملے کی صورت میں وہ سوچیں گے بالکل نہیں منہ توڑ جواب دیں گے۔ مودی یقین رکھے کہ ہمارے خان صاحب سچ مچ نہیں سوچیں گے۔ دوسری بات یہ کہ اس حوالے سے اپوزیشن بھی پیچھے رہنے والی نہیں۔ ملک کی بقا کا مسئلہ ہو تو پھر کوئی پیچھے نہیں رہ سکتا ہے۔ ایک بات خان صاحب نے بہت مدلل کہی کہ پلوامہ کے حملے سے پاکستان کو کیا فائدہ !کون چاہتا ہے کہ سعودیہ کا ولی عہد ان کی طرف آ رہا ہے اور وہ ایک معاملہ کھڑا کر لیں۔ظلم کی بھی کوئی حد ہوتی ہے آپ انہیں سرعام قتل کر رہے ہیں۔ پیلٹ گنز سے ان کی آنکھیں بینائی چھین رہے ہیں ان کے چہرے مسخ کر رہے ہیں۔ توآپ ان سے کیا توقع رکھتے ہیں۔ فاروق عبداللہ کا کلپ دیکھنے والا ہے جس میں انہوں نے ایک ہندوستانی صحافی کے جواب میں کہا ہے کہ بھارت اب یہ ڈرامے بند کرے کہ ہر بات پر پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتا ہے۔ پلوامہ والا واقعہ کوئی نیا نہیں ایسے واقعات آئے دن ہوتے رہتے ہیں‘ اب کے نقصان زیادہ ہو گیا تو اسے الیکشن سٹنٹ بنا لیا گیا۔ بھارتی حکومت رپورٹوں پر کان نہیں دھرتی اور باہر کی حکومتوں کو تاثر دیتی ہے کہ سب کچھ پاکستان کرا رہا ہے۔ خود مودی کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ وہ پاکستان کو دنیا بھر میں تنہا کر دیں گے تو اصل مسئلہ ہے بھی یہی وگرنہ ان کے الزامات میں کچھ جان نہیں۔ وہ اپنے الیکشن کے لئے فضا بنا رہے ہیں جو مسلمان دشمنی پر اساس کرتی ہے۔ ایک بات ہمارے سوچنے کی بھی ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہمیں یاد کرنا چاہیے کہ ہم اپنے ایک سبق کو بری طرح سے بھولے ہوئے ہیں۔وہ سبق ہے جہاد کا۔ جہاد ایک ایسی چیز ہے جس سے ہمارے دشمن تو ڈرتے ہی ہیں مگر سچی بات یہ کہ ہم خود بھی ڈرتے ہیں۔ ہماری خوشحالیوں نے اسے پامال کر رکھا ہے۔ مسلمانوں کے پاس سب سے بڑا امتیاز یہی تھا کہ وہ جہاد کے لئے تیار رہتے تھے کہ زندہ رہے تو غازی ‘ جان سے گئے تو شہید اور شہید کے بارے میں قرآن کا دو ٹوک فیصلہ ہے کہ اسے مردہ مت کہو وہ زندہ ہے اور ہم اسے اس کا رزق بھیجتے ہیں تم اس کا شعور نہیں رکھتے‘ ایک ہندو شاعر ہی نے تو کہا تھا: زندہ ہو جاتے ہیں جو مرتے ہیں اس کے نام پر اللہ اللہ موت کو کس نے مسیحا کر دیا ہمارا تو عقیدہ ہے کہ شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے‘ کٹیں جو چند گردنیںوہ قوم کی زکوٰۃ ہے‘ اور ہم وہی لوگ ہیں جو جان سے گزر جاتے ہیں۔ مسلمانوں کو زندہ و جاوید رہنے کے لئے اس جہاد کے جذبے کو اپنے اندر اجاگر کرنا ہو گا۔ یعنی تجدید جہاد ضروری ہے۔ اسی جذبے کو ختم کرنے کے لئے تو انگریز نے مرزا غلام احمد قادیانی کا بوٹا لگایا اور پھر اس کی آبیاری کی۔ یہ ساری امن اور صوفی کانفرنسیں بھی مسلمانوں کو passiveیعنی بے جان بنانے کے لئے ہوتی ہیں۔ ہمارا ماضی گواہ ہے کہ ہماری مائیں تو ہمیں محمد بن قاسم اور ٹیپو سلطان کی طرح دیکھنا چاہتی تھیں۔ یہ بہادر مائیں بچوں کو لوری بھی دیتیں تو ایسی نظمیں پڑھتیں’’کھیل میرے لاڈلے ہتھیاروں سے کھیل‘‘ اپنے سوئے ہوئے اس جذبہ جہاد کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارتی کمانڈر کا لب و لہجہ دیکھیں کہ کہتا ہے ’’کشمیری مائیں بچوں سے ہتھیار ڈلوائیں وگرنہ مار دیں گے‘‘ ان کے عزائم کا اندازہ لگانا مشکل نہیں دنیا کو اس دھمکی کا نوٹس لینا چاہیے کہ یہ عمداً قتل عام کرنا چاہتے ہیں بلکہ کر بھی رہے ہیں۔ کشمیری غلامی کی زنجیروں میں نہیں رہنا چاہتے۔ یہ حریت پسند حمیت کے ،خلاف نہیں چل سکتے۔ بات بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ چنگاریاں شعلے بنتی جا رہی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ بھارت انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی سے کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے کے لئے تیار نہیں۔ اس نے کشمیریوں پر اپنے سارے حربے استعمال کر لیے ہیں مگر خوددار کشمیری آزادی سے کم کچھ بھی لینے کے لئے تیار نہیں۔ دنیا کو بھی پتہ چل چکا ہے کہ بھارت نے کشمیریوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھا ہوا ہے۔ خود بھارتی دانشور بھی کہہ چکے ہیں کہ بھارت زبردستی کشمیریوں کو اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا۔ ایسا ہی لگتا ہے کہ بھارت کی سات لاکھ فوج بھی اپنے آپ کو مقبوضہ کشمیر میں غیر محفوظ سمجھتی ہے کشمیر کا مسئلہ آتش فشاں بن چکا ہے۔ بھارت کے پاس کشمیریوں کو زیر تسلط رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔ اسی لیے تو وہ مذاکرات کرنے سے گھبراتا ہے کشمیری تو اب کسی ’’مذاق رات‘‘ پر بھی نہیں بیٹھے ہوئے وہ تو سب سے مایوس ہو کر اپنی سی کوشش میں مصروف ہیں۔ وہ زندگی اور موت کے درمیان حوصلے سے جدوجہد میں مصروف ہیں: جو تنی تھی ہماری گردن تھی جو کٹا ہے وہ سر ہمارا ہے