اسرائیلی پالیسی استعماری ہے جس کا مقصود عالمی سرداری ہے۔اسرائیلی عالمی سرداری کے دو پہلو ہیں پہلا پہلو تقریباً مکمل ہے جبکہ دوسرا پہلو بقول اسرائیلی سرکار طویل اور خطرناک ہے اسرائیل کی بنیادی کمزوری تعداد اور استعداد کی ہے۔آل یہود ’’خدا کی منتخب قوم‘‘ہونے کے گھمنڈ میں یہودیت کو نسلی مذہب بنا دیا ہے، آل یہود کے نزدیک غیر یہودی نسلیں اور قومیں یعنی اسلام‘ عیسائیت‘ ہندوئویت‘آتش وغیرہ غیر منتخب ہونے کے باعث غیر انسانی ہیں۔ لہٰذا مذکورہ قومیں بنیادی انسانی حقوق سے محروم اور عاری ہیں۔آج دنیا میں یہودی آبادی ایک کروڑ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔رہا معاملہ استعداد کا تو یہ مادی اور تکنیکی ترقی تو کر سکتے ہیں مگر انسانی اہلیت‘ صلاحیت اور جذبے مادی و تکنیکی ترقی سے زیادہ اہم اور موثر ہیں اسی کیفیت اور حالت کو قرآن میں بایں حروف بیان کیا گیا ہے کہ کتنے ہی گروہ تعداد میں کم ہونے کے باوجود تعداد میں بڑے بڑے گروہوں کو الٰہی نصرت سے شکست دیتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے نصرت یعنی کامیابی کی کنجی اپنے ہاتھ میں رکھی ہوئی ہے۔ وما النصرالا من عنداللہ کامیابی اور ناکامی کا دارومدار امن اور جنگ کی حالت میں انہی قوانین کی پاسداری ہے۔ جو اللہ و رسولؐ سے غیر مشروط اور مخلصانہ محبت و اطاعت سے میسر آتی ہے کیونکہ ایمان محبت و اطاعت کا نام ہے۔ سامان کے ساتھ دولت ایماں بھی چاہیے بے فائدہ ہے دست پر گرضعیف اسرائیل کا قیام 100برس کی بات نہیں بلکہ صیہونی گروہوں کی کئی صدیوں کی کاوش اور جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ یہودی اکابرین نے عالمی کارسازی کے لئے اپنی عددی کمی کو صیہونی وسعتوں میں سما دیا یعنی یہودی کارسازوں نے اپنی عالمی ہمنوائی کے لئے عیسائیت اسلام ‘ہندومت ‘سکھ مت‘ بدھ مت اورپارسی مذاہب سے وابستہ افراد کو عالمی شہری (international citizens)بنا کر صیہونیت کا آلہ کار بنا رکھا ہے۔ صیہونی تنظیم سازی کے لئے عالمی مالیاتی اجارہ داری نے کلیدی کردار ادا کیا پچھلی کئی چھوٹی بڑی اور عالمی جنگوں اور نام نہاد امن کاری میں صیہونی مال اور سازش کارفرما تھی۔صیہونی مال کاروں نے عالمی سرداری کے لئے عالمی مالیاتی اداروں مثلاً عالمی بنک‘ عالمی مالیاتی فنڈ‘ ایشیائی ترقیاتی بنک وغیرہ وغیرہ اور عالمی امن کاری کے لئے اقوام متحدہ‘ عالمی عدالت انصاف‘ عالمی ماحول سازی‘ عالمی تعلیمی‘ طبی معاشرتی اور کلچرل اداروں کو جنم دیا۔نیز یہی عالمی صیہونی سرمایہ کار متاثرہ ممالک میں قرض اور امداد کے نام پر سرکار سازی کرتے ہیں اور ان افراد (مردوزن) کو حاکم بناتے ہیں جو قوم کے کمزور اور ایسے افراد ہوتے ہیں جو کبھی حاکم بننے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے مگر ان حاکم مردو زن کی اول و آخر وفاداری اور کارگزاری صیہونی منصوبہ بندی کے مطابق ہوتی ہے۔مذکورہ حاکم افراد میں جن کو دولت کا شوق ہوتا ہے انہیں عالمی تجارتی شراکت دار بنا کر مرہون منت رکھتے ہیں۔عالمی صیہونی سرمایہ کار و مالیاتی اجارہ دار کی ایک کمپنی (مشتے از خروارے) کالی چٹان vangurd black nockوغیرہ ہے جس کا بنیادی رأس المال basic capital‘10ٹریلین ڈالر ہے ان کی مزید کئی ذیلی عالمی کمپنیاں اور NGOہیں، جو عوام کو اپنے اپنے مذاہب سے دور کرتی ہیں اور صیہونی آلہ کار بننے میں مددگار بنتی ہیں صیہونی سرمایہ داروں اور سرمایہ کاروں نے پیسہ چلتا ہے کے عنوان سے عام الہامی و غیر الہامی کتب اور الٰہی مذاہب کو ’’عالمی صیہونی مذہب‘‘ میں مدغم کرنے کا لایعنی خواب دیکھ رکھا ہے۔ اسلام اور مخلص مسلمان مذکورہ صیہونی عزائم کے خلاف ثابت قدم سے مزاحمت کر رہے ہیں حماس مذکورہ مسلم عوامی مزاحمت جاندار اور شاندار آواز ہے۔ حماس کے نمائندے حماد کا کہنا ہے کہ اسرائیل انسانیت کے ماتھے کا کلنک ہے اگر یہ ہسپتالوں‘ تعلیمی اداروں نہتے معصوم بچوں بوڑھوں اور عورتوں پر ظلم و ستم بمباری اور درندگی سے باز نہ آیا تو 7اکتوبر 2023ء جیسے میزائل حملے بار بار کئے جائیں گے۔ صیہونی ریموٹ کنٹرول کے ذریعے عالمی طاقتوں امریکہ و اسرائیل ‘ برطانیہ‘ بھارت‘ روس‘ فرانس اور کسی حد تک چین کو کنٹرول کرتا ہے۔اسرائیل کی تصور سازی imaga makingناقابل تسخیر کی تھی نیز ہر یہودی(اسرائیلی و غیر اسرائیلی) بچہ بوڑھا ‘ مرد‘ عورت کی کمانڈو تربیت جبری اور لازمی تھی۔ Iron domeکو توڑنا ناممکن تھا یعنی اسرائیل کی زمینی‘ فضائی اور سمندری قوت ناقابل شکست تھی جو حماس کے مذکورہ 7اکتوبر کے حملے نے یکدم ختم کر دی۔ حماس کا حملہ اسرائیل کے لئے ناقابل تلافی نقصان تھا۔حملے سے اسرائیلی عوام اور حکومت حواس باختہ ہو گئے اور غم و غصہ میں درندگی کا پیکر بن گئے۔ حماس کی جارحانہ میزائل کارروائی کے سامنے اسرائیل کاغذی پہلوان ثابت ہوا جو غزہ کے بچوں‘ بوڑھوں اور عورتوں پر درندگی کر کے شوق فضول پورا کر رہا ہے۔اسرائیل زیادہ دیگر جنگ جاری نہیں رکھ سکتا۔ کیونکہ جنگ کی مالیتی قیمت اسرائیل کے لئے ناقابل برداشت ہے۔ نیز حماس کے حملوں نے اسرائیل اور اس کے عالمی حلیف قوتوں کی طاقت‘ دولت اور اثرورسوخ کو بھی خاصا متاثر کیا ہے جس کے نتیجہ میں عرب اور عالمی قوتوں نے ثالثی کے لئے امریکہ و اقوام متحدہ کی بجائے چین کی جانب دیکھنا شروع کر دیا ہے اور چینی صدر نے امریکی صدر سے ملاقات سے قبل چینی سرکاری عالمی نقسہ(حریطہ) سے اسرائیل کا (بہیمانہ درندگی اور ہٹ دھرمی کے نتیجے میں) نام و نشان حزف یعنی مٹا دیا۔یوکرائن جنگ میں چین اور روس حلیف تھے مگر روس نے اقوام متحدہ کی اسرائیل کے خلاف قرار داد امریکی پالیسی کو اپنایا لہٰذا دریں تناظر چین اور روس میں بھی فاصلے بڑھیں گے۔فی الحقیقت حماس کا اسرائیل پر جارحانہ میزائل حملہ موجودہ عالمی نظام پر کاری ضرب ہے اور عالمی بساط میں حماس کا حملہ سی پیک سے بڑا عالمی گیم چینجر ثابت ہو رہا ہے۔ عارضی امن سازی اسرائیل کی ضرورت بلکہ مجبوری ہے جو ہداف کے حصول کے بغیر ہزیمت سے کم نہیں آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے‘ لب پر آ سکتا نہیں محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی