امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کی تاریخ کے سب سے بڑے 2کھرب ڈالر کے پیکیج کے بل پردستخط کردیئے یہ پیکیج عالمی وبا کرونا وائرس کی روک تھام کے لیے منظور کیا گیا ہے۔عرض کرنے کے مقصدیہ ہے کہ سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آذری امریکہ بھی کروناوائرس کی وبا کے آگے بے بس ہوچکاہے۔یہ ہمارے لئے ایک بلیغ پیغام ہے کہ اس وباء سے چھٹکارے کا واحد حل حقیقی سپر پاور اللہ تعالی کی طرف رجوع الیٰ اللہ ہے ۔واضح رہے اللہ کے ہاں معافی سچی توبہ پر ملتی ہے اورسچی توبہ یہ ہے کہ جو گناہ سرزد ہوئے وہ دوبارہ نہ کئے جائیں ۔لازم ہے کہ تمام ترحفاظتی انتظامات اور تدابیر کو اختیار کیا جائے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اجتماعی توبہ و استغفار کا بھی خصوصی اہتمام کیا جائے اوریہی دافع وباکانسخہ کیمیاہے ۔اجتماعی توبہ یہ ہے کہ تمام مسلمان ممالک اپنی اپنی زیرکنٹرول مملکتوں میں اسلامی شریعت نفاذکااعلان کریں اورسودکی لعنت سے باہرنکل آئیں،یعنی پوری ریاستوں کوخداکے امان اورپناہ میں دیاجائے ۔کوئی کرے یانہ کرے لیکن پاکستان کے موجودہ حکمران پریہ فرض عائدہوتاہے کہ وہ مملکت خدادامیں اسلامی نظام کے نفاذ کااعلان کریں کیونکہ وہ گذشتہ دوبرسوں سے نہایت تواترکے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کومدینہ کی ریاست بناکردم لیں گے توآج ان کے’’عہد‘‘ کوپوراکرنے کاوقت آچکاہے ۔واضح رہے کہ جیسے قوموں کو سزا اجتماعی گناہوں پر ہے ، اسی طرح ان کی توبہ بھی اجتماعی قبول ہوتی ہے انفرادی نہیں۔حضرت علامہ اقبالؒ نے اس کی یوں تشریح فرمائی فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے نہیں کرتی کبھی ملت کے گناہوں کو معاف یہ حقیقت ہے کہ آج ایک انجانے وائرس کا خوف ہم پر مسلط ہے،ایک سچامسلمان اسے اپنے قومی نصب العین اور اسلاف کے نقش قدم سے ہٹ کر چلنے ہی کی سزاقراردیتاہے کیونکہ مجموعی طور پر قوموں کو گمراہی ، اور راہ راست سے بھٹکنے کا حساب دنیا میں ہی دینا ہوتا ہے۔ قوم اور امت کا معاملہ، سزا و جزا دنیا ہی میں ہوا کرتی ہے۔امتِ مسلمہ بحیثیت قوم یا امت کے آخرت میں نہیں پیش ہو گی۔وہاں تو سب کو انفرادی طور سے حساب دینا ہے۔وہاں ہر انسان انفرادی طور اپنے کیے کی سزا و جزا پائے گا۔ اجتماعی طور سے ہمارا حساب کتاب اسی دنیا میں ہی ہونا ہے اور قانونِ قدرت ہے کہ کسی بھی امت یا قوم کے اجتماعی گناہوں کو کبھی معاف نہیں کیا جاتا، ان کی سزا ضرور ملتی ہے اور وہ سزا اجتماعی طور پر ہم مسلمان صدیوں سے بھگت رہے ہیں دنیا میں ذلیل و رسوا ہو کر اور در در کی ٹھوکریں کھا کراوراب وبائی امراض کے تسلط سے بھی ۔ قرآن مجید نے قوموں کے عروج و زوال کی جو تاریخ بیان کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قومیں جب بھی دین سے دور اور آخرت کے محاسبہ سے بے نیاز ہوتی ہیں یا ان کا یہ تصور ناقص ہوتا ہے اور ان میں اخلاقی ناسور سرایت کر گئے ہیں تو اگر قوم میں اصلاح احوال کا جذبہ پیدا نہیں ہوا تو وہ ہمیشہ برباد ہوجاتی ہے۔ اس کی تباہی و بربادی میں اس سوال کو کبھی کوئی اہمیت نہیں رہی کہ ان کے گمراہی، ضلالت، فسق و فجور ،فساد، فتنہ و بدخلقی کی نوعیت کیا ہے بلکہ ہر برا عمل، خواہ اس کی نوعیت حقیر سے حقیر تر کیوں نہ ہواور سائز میں ذرہ سے بھی چھوٹا ہو جب بھی وہ کسی معاشرہ کا اجتماعی کردار بن جاتا ہے تو سمجھ لیں کہ اس کی تباہی وبربادی کا سماں بن گیاہے۔ اب وہ فطرت ، قانونِ قدرت کے رحم و کرم پر ہے چاہے تو اسے قائم رکھے، چاہے تو ڈبو دے۔ معاشرہ کے اندر جب فساد راہ پا جاتا ہے تو اس کا ظہور نہ تو کسی ایک ہی شکل میں ہوتا ہے اور نہ کسی ایک ہی طبقہ تک محدود رہتا ہے بلکہ ہر شعبہ زندگی اور قوم کا ہر طبقہ اس سے متاثر ہوتا ہے۔ قوم کے سنجیدہ عناصر جب اصلاح احوال کے لیے فکر مند نہیں ہوتے ، وہ معاشرہ اگر اصلاح کی طرف نہیں آتا تو قہر خداوند ی اس کا منتظر ہے جو کسی بھی وقت اس پر برس سکتا ہے۔ اس قہر اور غضب خداوند ی کے چھوٹے چھوٹے جھٹکے اور پیغام آئے بھی مگر ہم نے ان پر کان نہیں دھرے ، اس سے عبرت حاصل نہیں کی۔ جب اصلاحِ کار کی کوئی گنجائش نہ رہے تو پھر قہر خداوندی کا کوڑا برس کر ہی رہتا ہے۔ یہ کوڑا کئی بار ہم پر ہماری بد اعمالی اور غفلت کے سبب برس بھی چکا ہے۔ زلزلوں، قدرتی آفتوں، تاتاریوں، منگولوں، چنگیزیوں، ہلاکوئوں کی صورت میں، مگر ہم نے اس سے سبق نہیں سیکھا۔ قرآن مجید کے اس فلسفہ کی رو سے قوم کے اصلاحِ کار کے لیے یہ ضروری ہے کہ معاشرہ کے اندراللہ تعالی کا خوف اور اس کے ساتھ صحیح بنیادوں پرتعلق پایا جائے۔ ہماری بدنصیبی ہے کہ ہم نے نظام باطل سے سمجھوتہ کر لیا، ہم اور ہمارے بڑے کار پردازموجودہ باطل نظام سے کے پٹھوبن بیٹھے ہیں،نظام اسلام کے نفاذ کے لئے ہماری قدو کاوش، سعی و حرکت ختم ہو گئی ، ہم نے جدو جہد کرنا ترک کر دی۔حتیٰ کہ ہمارے محراب و منبر والے اتنا بھی نہ کر سکے کہ وہ اس کا تسلسل ہی قائم رکھتے۔وہ نظام باطل سے سمجھوتہ کر کے بڑے سکون میں جا بیٹھے!!! کرہ ارض کے تین درجن مسلمان ممالک میںاللہ کا نہیں بلکہ انسانی حاکمیت پر مبنی دستور نافذالعمل ہے جوقرآنی احکامات اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی طیب اورمطہر شریعت اوراسکے معنوں میں صریحا کفر اورسراسر شرک ہے،مسلم ممالک کاپورا معاشی نظام سود اور جوئے پر مبنی ہے ۔مسلمان سرزمینوں پرغیر اسلامی قوانین نافذ ہیں تو دین کی تعلیمات کے مطابق وہاں کے عوام مجرم ہیں۔مسلم ممالک کاکونساگوشہ قباحت سے بچا ہوا ہے۔سوفیصدمسلمان آبادی پرمشتمل مسلم ممالک میں رب کے دیئے ہوئے نظام کومستردکرکے انسان کا بنایا ہوا نظام نافذ ہے ،کونسامسلم ملک ہے کہ جس نے سودکواللہ کے ساتھ جنگ قراردے کرحرام قطعی قراردیاہے ۔مسلمان ممالک میں فحاشی اوربے ہودگی اورخوفناک جرائم موجودہے ۔ معاشرے میںبے حیائی ہے فحاشی ہے عریانی کوفروغ دیاجارہاہے ۔کثیرالانواع سے مخرب اخلاق فحاشی پھیلانے اوراسے عام کرنے کے طریقے اپنائے جا رہے ہیں ۔