کشمیر میں مسلمانوں کی سب سے بڑی عبادت گاہ اورتاریخی جامع مسجد سرینگرمیںگذشتہ ڈھائی برسوں یعنی27ماہ سے اہم فریضہ دین نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ۔ ان ڈھائی برسوں یعنی 810دنوںمیں ہرجمعہ المبارک کو نماز جمعہ کی ادائیگی کی غر ض سے وہاں پہنچنے والے علمبرداران توحید مایوس ہو کر اپنے گھروں کو لوٹ آتے ہیں ۔نمازجمعہ پرپابندی عائد کرتے ہوئے جامع مسجد سمیت پورے علاقے میں قابض بھارتی فوج پوزیشنیں لئے بیٹھی ہے ۔ جب بھی جامع مسجد کی انتظامیہ، انجمن اوقاف کے اراکین اذان اور نماز کیلئے جامع مسجد کے دروازے کھولنے کیلئے آجاتے ہیں۔ تو قابض اہلکاروں انہیں جامع مسجد کے دروازہ کھولنے نہیں دیتے ۔2021میں 6اگست کوصرف ایک بار جامع مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کی اجازت دی گئی جس کے بعد اسے دوبارہ بند کردیاگیا ۔ قابض بھارتی فوج نے مداخلت فی الدین کا ایک بارپھرارتکاب کرتے ہوئے تاریخی جامع مسجد سری نگرکومحاصرے میں لے رکھااورتام دم تحریر مسلمانان کشمیر کواس عظیم الشان مسجدمیں نمازجمعہ کی ادائیگی سے روک لیاگیاہے۔5برسوں کے دوران یہ دوسراموقع ہے کہ ڈھائی برسوں سے تاریخی جامع مسجد سری نگر میں نماز جمعہ ادانہ ہوسکی۔اس سے قبل 2016میں بھی تاریخی جامع مسجد سرینگر اس وقت4 ماہ تک مسلسل مقفل رہی کہ جب برہان وانی کی شہادت کے بعد مقبوضہ کشمیر میں عوامی ایجی ٹیشن اوراحتجاجی لہر نے کشمیر پر بھارتی ناجائزقبضے اوراسکے جارحانہ تسلط کو مسترد کر دیا۔ خیال رہیجامع مسجد سرینگر کی سخت ناکہ بندی کر دی گئی ہے اوراسے مسلسل محصور رکھا گیاہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کیامحرکات ہیں کہ جن کی آڑ میں ظالم ہندوحکمرانوں کی جانب سے جامع مسجد سری نگرکومقفل کیاجاتارہاہے ۔یہاں نمازجمعہ کی ادائیگی اورنمازیوں کی آمدپرقدغن عائدکردی جاتی ہے ۔ اس سوال کاایک ہی جواب ہے اوروہ یہ کہ جامع مسجدسری نگرروزاول سے ہی مسلمانان کشمیر کا دینی اورسیاسی پلیٹ فارم رہاہے ۔سکھ حکمرانوں کا ظلم وجبرہو،ڈوگرہ حکمرانوں کی مطلق العنانیت ہو، سری نگرکے لال چوک میں نہرواورشیخ عبداللہ کا ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر کشمیر اور کشمیریوں کی جدید طرز غلامی کی واردات پررقص کرنااوردھمال ڈالنے کی مذموم اورشرمناک حرکت ہو یاپھرگذشتہ چھبیس برسوں سے چار وزرائے اعلیٰ کی چھاتہ برداربھارتی فوج اورریاستی پولیس کی بربریت اورسفاکیت کادوردورہ ہوسرینگرکی جامع مسجدسے اس اندھیرنگری ،شخصی غلامی ،جدیدطرز غلامی کی واردات اورسفاکیت کے خلاف نہ صر ف صدائے احتجاج بلندہوا،بلکہ اس ظلم عظیم کے خلاف صف بندی بھی ہوتی رہی ہے۔ بھارت کویہ برداشت نہیں،یہی وجہ ہے کہ عصر حاضرہی کی طرح دورماضی میں بھی جامع مسجدکے دروازوں پرقفل چڑھادیئے گئے اوریہاں نمازیوں کی آمدکوسختی سے روکاگیا۔ تاریخ کے دریچوں سے جھانکنے کے بعد یہ معلوم پڑتا ہے کہ جامع مسجدسری نگر سے اٹھنے والی صدائے حق اورظلم وبربریت کے خلاف یہاں ہونے والی صف بندیوں کوروکنے کی کوشش کی گئی اور کشمیری عوام کے اس بڑے اورعظیم مرکزی پلیٹ فارم کو بند کیا گیا اور ظالم حکمرانوں کی طرف سے جامع مسجد سرینگر میں نماز ادا کرنے کی پابندی اورمداخلت فی الدین کاارتکاب ہوتارہاہے ۔ پرانے مزاج کے حامل نئے حکمران کشمیر، کشمیری مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کیلئے آج بھی یہی ظالمانہ رویہ اپنا رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب ماضی میں جامع مسجدسری نگرسے بلندہونے والی آواز رک نہ سکی اورآج تک یہ آوازمسلسل بلندہورہی ہے تواکیسویں صدی کی یہ قدغن حق وصداقت کی اس آوازکوروک سکتی ہے ؟سکھ حکمرانوں نے 19 ویں صدی میں تاریخی جامع مسجدکو23برسوں تک مقفل رکھا، جبکہ نام نہاد جمہوری بھارت نے اکیسویںصدی میںخداکے اس گھرکوباربارمہینوں تک بندرکھ کر 21 اسلام دشمنی کاریکارڈ قائم کیا۔ ماضی میںجن بودے بہانوں کے سہارے جامع مسجدسرینگرکومقفل کردیاجاتارہاہے اور یہاں نمازجمعہ کی ادائیگی اورنمازیوں کی آمد پر قدغن عائدکردی جاتی رہی ہے اورآج بھی ایسے ہی بہانے تراش کربندشوں کایہ مہیب سلسلہ بدستورمن وعن جاری ہے۔لیکن مداخلت فی الدین کے مرتکبین کو معلوم ہونا چاہیے کہ جامع مسجد سری نگرجس طرح روز اول سے مسلمانان کشمیر کا دینی اورسیاسی پلیٹ فارم رہاہے،اس کی شان اسی طرح دوبالا ہوتی رہے گی کیوں کہ مساجد اللہ کے گھرہیں اورانکی شان اسی نے دوبالاکررکھی ہے۔ اس لئے چاہے ماضی کے سکھ حکمرانوں کاظلم وجبرہو،ڈوگرہ حکمرانوں کی مطلق العنانیت ہو،سر نگرکے لال چوک میں نہرو اور شیخ عبداللہ کاایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈال کرکشمیراورکشمیریوں کی جدید طرز غلامی پر رقص کی وارداتیں ہوںیاپھرگذشتہ چھبیس برسوں سے کئی وزرائے اعلیٰ کی چھاتہ برداربھارتی فوج اور ریاستی پولیس کی بربریت اورسفاکیت کادوردورہ ہو سرینگرکی جامع مسجدسے اس اندھیرنگری ،شخصی غلامی ،جدیدطرزکی غلامی اورظلم وبربریت کے خلاف نہ صر ف صدائے احتجاج بلندہوتی رہے گی بلکہ اس کے خلاف صف بندی بھی ہوتی رہی گی۔ عصرحاضر کی ظالم وسفاک قوتیں،حکومتیں جامع مسجد کے دروازوں پرقفل چڑھانے کاگناہ عظیم کریں اوریہاں نمازیوں کی آمدکوطاقت کے بل بوتے پرسختی سے روکیں۔یہاں سے حق وصداقت کی آوازیں اٹھتی رہیں گی۔ تاریخ کے دریچوں سے جھانکنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ ماضی میں بھی جب جامع مسجد سری نگر سے اٹھنے والی صداکوروکنے کی کوشش کی گئی تو کیا کشمیرکے اس بڑے اورعظیم مرکزسے کشمیریوں کی صدائے حق دب سکی؟۔ ماضی کے ظالم حکمرانوں کی طرف سے جامع مسجد سرینگر میں نماز ادا کرنے کی پابندی اورمداخلت فی الدین کا ارتکاب ہوتارہاہے ۔لیکن کشمیریوں نے اسے مسترد کردیا۔تاریخ بتلارہی ہے کہ ناگفتہ بہ حالات کا اسیر،مصائب وآلام میں پابہ زنجیر اورہردورمیں استحصالی حکمران ٹولوںکے مبینہ استحصال کی تصویر بنا ہوا کشمیری مسلمان دین کے معاملے میں بہرصورت بر ہنہ شمشیرہے ۔وہ مداخلت فی الدین پرخاموش رہاہے نہ رہے گا۔