ڈاکٹر استھرچو Esther Choo امریکی ریاست آرگن میں ایک امیگرینٹ ہیں۔ ڈاکٹر چو ریاست Oregon کے شہر پورٹ لینڈ میں ہیلتھ اینڈ سائنس یونیورسٹی میں ایک تجربہ کار فزیشن کے طور پر اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ انہوں نے 2017ء میں انڈی پینڈنٹ اخبار میں ایک مضمون لکھا کہ انہیں اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں سفید فاموں کے نسلی امتیاز کی بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے لیے White supremacy کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر چوکا کہنا ہے کہ سال میں دو تین بار انہیں ایسے سفید فام مریضوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ان سے اس لیے علاج کروانے سے انکار کردیتے ہیں کہ ان کا رنگ سفید نہیں ہے اور وہ امریکہ میں امیگرینٹ ہیں۔ان وائٹ نیشنلسٹوں میں نسلی امتیاز کی اتنی نفرت بھری ہوتی ہے کہ وہ ایک غیر سفید تجربہ کار فزیشن پر کسی ناتجربہ کار سفید فارم انٹرنی کو فوقیت دیتے ہیں۔ ڈاکٹر چو کا کہنا ہے کہ آج بھی امریکہ میں نسلی امتیاز کسی نہ کسی صورت موجود ہے۔ انتہا پسند سفید فام نیشنلسٹوں کو white superemacist یعنی وہ انتہا پسند جو سفید فاموں کی نسلی برتری پر یقین رکھے۔ سفید رنگت والے لوگوں کے نظریات‘ رسم و رواج‘ رہن سہن کے طور طریقے‘ ان لوگوں سے برتر اور اہم جو گہرے رنگ کے لوگ ہیں۔ ان میں گندمی سے سانولے اور سیاہ فام افراد شامل ہیں۔ وائٹ سپرمیسی کی اصطلاح ایک بار پھر عالمی میڈیا میں گونج رہی ہے۔ اس لیے کہ نیوزی لینڈ جیسے پرامن ملک کے شہر میں پچاس مسلمانوں کو جمعہ کے روز نماز پڑھتے ہوئے بہیمانہ انداز میں قتل کرنے والا آسٹریلوی قاتل بیرنٹن ٹیرنیٹ بھی سفید فاموں کی برتری پر یقین رکھنے والے انتہا پسند گروہ سے تعلق رکھتا ہے۔ آسٹریلیا کے وزیراعظم نے اس سانحے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے دو باتوں کو تسلیم کیا۔ پہلی بات تو یہ کہ نیوزی لینڈ میں پچاس بے گناہ مسلمانوں کا قتل کرنے والا آسٹریلوی باشندہ ہے اور دوسری بات یہ کہ وہ ایک white sueremaciest ہے اور اس کا تعلق سفید فام انتہا پسندوں کے گروپ سے ہے۔ 28 سالہ دہشت گرد برینٹن ٹیرنیٹ نے مسلمانوں کا یہ قتل عام کرنے سے پہلے اپنے سوشل میڈیا اکائونٹ پر ایک نفرت بھرا پیغام بھی پوسٹ کیا جس کا لب لباب اور خلاصہ وہی ہے جو سفید فاموں کی برتری پر یقین رکھنے والے انتہا پسندوں کا ہے۔ اس نے مسلمان امیگرینٹ کے خلاف اپنی نفرت کا کھل کر اظہار کیا۔ اسلاموفوبیا کا شکار یہ دہشت گرد جب نیوزی لینڈ کی عدالت میں پیش کیا گیا تو وہ بالکل پرسکون تھا گویا اس نے ایک اہم مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ہو۔ میڈیا کے کیمروں کے سامنے دہشت گرد قاتل نے اپنے ہاتھ کی انگلیوں سے سفید فاموں کی برتری کا ایک علامتی نشان بنایا۔ بظاہر تو یہ علامتی نشان ok کے اظہار کے لیے کیا جاتا ہے۔ ہاتھ کی شہادت کی انگلی کو انگوٹھے کے ساتھ جوڑیں تو جو علامت بنتی ہے یہی سپر میسیٹ انتہا پسندوں کا علامتی نشان ہے۔ ان کے مطابق اس نشان سے وہ انگریزی کا حرف IWP بناتے ہیں جس کا مطلب وائٹ پاور۔ ان انتہا پسند دہشت گردوں کا نعرہ ہے۔ Whites Lives Matter۔ قاتل نے مسلمانوں کو قتل کرنے کے لیے مسجد اور پھر خصوصی طور پر جمعے کے دن کا انتخاب کیا۔ مسجد اور جمعہ کی نماز۔ علامتی طور پر اسلامی ثقافت کا طاقتور اظہار کرتے ہیں۔ مسجد کے اندر جمعہ کی نماز پڑھتے ہوئے بے گناہ مسلمان مرد عورتوں اور بچوں کو قتل کر کے مسلمانوں کے طرز زندگی‘ مذہب‘ رسم و رواج کے خلاف بھرپور نفرت کا اظہار کیا گیا ہے۔ ایک اور بات اس میں اہم ہے کہ قاتل نے جس علاقے اور جن مساجد کا انتخاب کیا اس میں کئی اسلامی ملکوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان نماز پڑھ رہے تھے۔ مثلاً سعودی عرب‘ پاکستان‘ انڈونیشیا‘ ملائیشیا‘ ترکی‘ اردن سے تعلق رکھنے والے مسلمان خاندان متاثرین میں سے ہیں۔ اس طرح قتل عام کے اس ایک واقعہ سے اس گھنائونی دہشت گردی کا تانا بانا بننے والوں نے کئی قابل ذکر اور اہم اسلامی ملکوں میں اپنی نفرت کا پیغام بھیجا ہے۔ اس طرح یہ سانحہ کسی ایک شخص کی نفرت کا اظہار نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے۔ کیا نفرت کا یہ مسئلہ یہاں ختم ہو جائے گا؟ نفرت اور دہشت گردی کے اس سیلاب کو روکنے کے لیے عالمی سطح پر کوئی لائحہ عمل بنانا چاہیے۔ ابھی تک تو عالمی سطح پر مسلمانوں ہی کو دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے لیکن اس سانحے میں ایک پرامن ملک نیوزی لینڈ میں پرامن طریقے سے رہنے والے مسلمانوں کو بدترین دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اب مسلمان ملکوں پر منحصر ہے کہ وہ کتنے موثر انداز میں اپنا کیس اس عالمی مافیا کے سامنے لڑیں گے جو اس سلوگن پر یقین رکھتے ہیں کہ مسلمان قتل کرے تو وہ دہشت گرد ہے جس سے عالمی امن کو خطرہ ہے اور اگر مسلمان دہشت گردی میں مارے جائیں تو یہ Collateral Damage ہے۔سوشل میڈیا اس وقت دونوں طرف کے ردعمل سے بھرا پڑا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی ایک پیغام اسی طرح کے ردعمل کا اظہار یوں کرتا ہے۔ I am muslim I am violent terroist kill me and call it collateral damage. impreision me and call it security measure. Rob my resources, invad my land alter my leadership and call it Democracy. Excile my people and call it a new middle east. طاقتور عالمی مافیا‘ مسلمانوں پر دہشت گردی کا ٹیگ کامیابی سے لگا چکا ہے اور اب پوری دنیا میں مسلمان ایک معذرت خواہانہ انداز میں جی رہے ہیں۔ اسلام کا نام لینا‘ اسلامی شعائر پر بات کرنا بنیاد پرستی اور انتہا پسندی ہے۔ اس سانحے میں درجنوں مسلمان شہید کردیئے گئے۔ قاتل نے یہ قتل عام پوری دنیا کو فیس بکس کی live streaming کے ذریعے دکھایا۔ پرامن مسلمان جو جمعہ کی نماز پڑھنے آئے تھے۔ ان کو لہولہان کر دینا بدترین دہشت گردی ہے۔ یہ دہشت گرد اور انتہا پسند سفید فام ہیں۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جینڈا نے بھی اسے بدترین دہشت گردی قرار دیا۔ کیا مسلم دنیا میں اتنا دم خم ہے کہ اپنا مقدمہ عالمی مافیا کے سامنے لڑ سکے؟ اس سوال کا جواب مایوسی کے سوا اور کچھ نہیں کیونکہ جسے ہم مسلم دنیا کہتے ہیں وہ اسی وائٹ سپرمیسی کے گیت گا رہی ہے۔ عالمی مافیا کی دہلیز پر سرنگوں پڑی ہے۔ نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں