جنگ کا فیصلہ ہار اور جیت پر ختم ہوتا ہے۔ حماس، اسرائیل جنگ بندی جنگ کی مزید تیاری کا وقفہ ہے اور تھا کیونکہ دونوں متحارب فریقین کے جنگی جذبے جواں اور ہمت توانا ہے۔ اسرائیل کو غزہ کے شہریوں اور عمارات پر تقریباً ڈیڑھ، دو ماہ کی مسلسل بمباری میں وقفہ کی ضرورت تھی۔ اسرائیل کو جنگ جاری رکھنے کے لیے مزید مال اور اسلحہ درکار تھا، جو طویل جنگ کے لیے ناکافی تھا۔ نیز اسرائیل انسانی اخلاقی اور عالمی قوانین کے مطابق جنگ ہار رہا تھا، مگر وہ ہار تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھا اور نہ ہے۔ نیز یہ جنگ حماس کے اسرائیل پر جارحانہ حملوں کے باعث اسرائیلی جنگی منصوبہ بندی کے بجائے، جنگی جنون پر جا ری تھی جس کا اظہار اسرائیلی پریشانی اور حواس باختگی پر منحصر تھا۔ اسرائیل کا ہدف ہسپتال،جامعات، پناہ گاہیں، بچے بوڑھے اور خواتین تھیں۔ اسرائیل حماس کی مزاحمتی مجاہد تنظیم کا ایک فرد بھی شہید نہ کر سکی بلکہ حماس کی بنائی ہوئی جنگی خندقیں اسرائیلی حکومت، عوام اور فوج کے لیے ایک ڈرائونا خواب بن چکی ہیں۔ علاوہ ازیں اسرائیلی افواج غزہ کی سرزمین کا ایک چپہ بھی اپنے قبضے میں لانے یا فتح کرنے میں ناکام رہی ہے بلکہ اب تک غزہ میں زمینی قبضے کے لیے بھیجی گئی افواج کی اکثریت ٹینکوں سمیت ماری گئی یا جرنیلوں، کرنیلوں سمیت جنگی قیدی بنا لی گئی۔ لہٰذا اسرائیل کو جنگ جای رکھنے کے لیے نئی جنگی حکمت عملی درکار تھی اس لئے ا اس نے اپنے عالمی اور علاقائی حلیف نیز دوستوں سے عارضی جنگ بندی کرانے بلکہ منہ چھپائی کے لیے کام کرنے کا غیر اعلانیہ عندیہ دیا تھا۔ مشرق وسطیٰ میں امریکی جنگی اڈے سینٹ کام اور اسرائیل نواز مصری حاکم متحرک ہو گئے اور پہلے چار روزہ اور اب مزید دو تین روزہ جنگ بندی میں توسیع کے لیے سرگرم عمل رہے ہیں۔ اسرائیل کے خطے میںبالواسطہ طور پر معتمد حلیف ہیں۔ عارضی جنگ بندی اسرائیل کی ضرورت یا مجبوری تھی، حماس کی نہیں۔ اسرائیل نے اپنا نام نہاد بھرم رکھنے کے لیے کہیں نہ کہیں شہریوں پر فائرنگ اور اسیر بنانے کا عمل جاری رکھا بلکہ معاہدے کے مطابق اسرائیل کی جانب سے رہا ہونے والے قیدیوں کے منتظر لواحقین پر بھی فائرنگ اور حملے جاری رکھے۔ یعنی اسرائیل اپنی ہزیمت کے زخم چاٹ رہا ہے۔ مذکورہ 4، 6روزہ عارضی جنگ بندی کے موقع پر اسرائیلی حکام کا بیان تھا کہ ہم نے جنگ بندی بھرپور تیاری سے حملہ کرنے کے لیے کی ہے تا کہ اسرائیل حماس کا نام و نشان بھی مٹا دے گا کیونکہ ہمارے فوجیوں کا قیدی بننا ناقابل برداشت ہے۔ یاد رہے کہ حماس ایک قیدی اور اسرائیل 3قیدی رہا کرتا ہے۔ واضح ہے کہ پلڑا کس کا بھاری ہے۔ علاوہ ازیں حماس کے نمائندے حماد نے دو ٹوک جواب دیا تھا کہ حماس اسرائیل پر 7اکتوبر کی طرح بلکہ تیز تر حملے کرنے کی بار بار اہلیت، صلاحیت اور ہمت رکھتا ہے، لہٰذا یہ چابت ہو گیا ہے کہ عارضی جنگ بندی اسرائیل کی جانب سے تیز اور مہلک تر جنگ کی تیاری اور پیش خیمہ تھی اور ہے۔ جنگی توازن نے عارضی امن قائم کیا ۔ اسرائیل کا قیام اور استحکام عالمی نظام پر منحصر ہے ۔عالمی قوتیں اور ادارے اسرائیلی ریاست کی لائف لائن سپلائی LIFE LINE SUPPLY ہیں۔ یاد رہے کہ اسرائیل برطانیہ، روس اور امریکہ کی مشترکہ کاوش اور کاشت ہے۔ بعد ازاں عالمی اداروں نے مذکورہ عالمی قوتوں کی منصوبہ بندی کو بظاہر غیر جانبداری کے ذریعے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ہر حربہ، حیلہ، مکر، فریب، جھوٹ، ظلم، زیادتی، غیر انسانی، غیر اخلاقی اور غیر انصافی پر مبنی پالیسی کو اپنا رکھا ہے۔ اگر حماس، اسرائیل جنگ طویل عرصہ جاری رہی تو یہ پہلے اردگرد اور بعد ازاں موجودہ عالمی نظام کو درہم، برہم کر کے رکھ دے گی اور دنیا کو موجودہ صیہونی عالمی نظام کے برعکس ایک نے غیر صیہونی عالمی نظام کا سامنا ہو گا۔ اسرائیلی ریاست حماس کے ہاتھوں شکست خوردہ ہونے کے باوجود یکدم ڈھیر یا زیر نہیں ہو گی بلکہ برطانیہ، فرانس، یورپ، روس اور امریکہ کی جنگی شکست کی طرح آہستہ آہستہ زمیں بوس ہو گی۔ پاکستان کا قیام برطانوی استعماری پالیسی کی ناکامی تھی اور ہے جبکہ کمیونسٹ(اشترا کی) روس اور سرمایہ دار امریکہ کی حربی(جنگی) شکست کا سبب افغان جہاد( 1979ء تا 1989) تھا اور ہے۔ حماس افغان جہاد کی توسیعی شکل ہے اگر موجودہ حماس اسرائیل جنگ پھیلی تو اس میں عالم اسلام کی تمام جہادی قوتیں، عوامی قوت بن کر حماس کے ساتھ دامے، درمے، سخنے شامل ہو جائیں گی۔ موجودہ عالمی نظام کے انہدام میں بالواسطہ چین کی مالیاتی، تجارتی اور صنعتی طاقت بھی کارفرما رہے گی۔ اسرائیلی انتظامیہ بارہا اعلان کر چکی ہے کہ حماس کے خلاف جنگ طویل اور خطرناک ہو گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا حماس اسرائیل کی استعماریت تسلیم کر گی ، جس کا بہت کم امکان ہے ۔اگر حماس اور غزہ کے عوام اسرائیلی ظلم و ستم کے خلاف خاموش رہتے ہیں تو مسلمان عوام اور بالخصوص جہادی جذبوں کے حامل غیور عرب(مصری، عراقی، سعودی، شامی وغیرہ) کو سنبھالنا مشکل بلکہ ناممکن ہو جائے گا۔ اسرائیلی درندگی کی بیماری اور حماس کی مزاحمت رفتہ رفتہ ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر موجودہ عالمی نظام تہہ و بالا کر دے گی۔ حوثی مجاہدین نے اسرائیلی کے اعلانیہ معاون امریکہ کے بحری جہازوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ امریکی عوام اور ریاستیں جوبائیڈن کی امریکی انتظامیہ کے خلاف اٹھ رہی ہیں۔ اسرائیلی درندگی کے باعث مغربی جمہوری نظام اور ان کے حامی امیر مسلم حکمرانوں کے اردگرد تاریکی کے سائے گہرے ہوتے جائیں گے۔ جنگ کی طوالت دنیا کا نقشہ بدل کے رکھ دے گی۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے 1907ء میں بجا فرمایا تھا کہ: زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدار یار ہو گا سکوت تھا پردہ دار جس کا، وہ راز اب آشکار ہو گا دیار مغرب کے رہنے والوں، خدا کی بستی دکاں نہیں ہے کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرکم عیار ہو گا علامہ اقبال مزید فرماتے ہیں کہ نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے، وہ شہر پھر ہوشیار ہو گا! سفینۂ برگ گل بنالے گا قافلہ مور ناتواں کا! ہزار موجوں کی ہوکشاکش، مگر یہ دریا کے پار ہو گا