بھارت میں ہریانہ صوبہ میں پنچکولہ کی اسپیشل کورٹ نے سمجھوتہ ایکسپریس بلاسٹ کیس میں ملوث سبھی ملزمان سوامی اسیمانند، لوکیش شرما، کمل چوہان اور راجیندر چودھری کو بری کر دیا ۔ پچھلے کئی برسوں سے خصوصاً،2014ء میں وزیر اعظم نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد جس طرح عدالت میں اس کیس کی پیروی ہورہی تھی، یہ فیصلہ توقع کے عین مطابق ہی تھا۔ملزموں کا دفاع کوئی اور نہیں بلکہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی )کے لیگل سیل کے سربراہ ستیہ پال جین کر رہے تھے۔ بلاسٹ کے مبینہ ماسٹر مائنڈ سنیل جوشی کی 2007 ء میں ہی پراسرار حالات میں موت ہو چکی تھی۔ دہلی ،لاہور سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین میں 18 فروری 2007ء کو پانی پت کے قریب 2 بم بلاسٹ ہوئے تھے جن میں 68 لوگ مارے گئے تھے،ان میں زیادہ تر پاکستانی تھے، نیز دیگر 12 شدید زخمی ہوگئے تھے۔استغاثہ کی طرف سے کل 299گواہوں کی فہرست پیش کی گئی تھی، جن میں 224کورٹ کے سامنے پیش ہوئے۔ ان میں سے 51 اہم گواہ اپنے بیان سے منحرف ہوگئے۔ 13 چشم دیدپاکستانی گواہ عدالت کے سامنے پیش ہی نہیں ہوئے۔ اسپیشل جج جگدیپ سنگھ نے اسکی تفصیلات اپنے آرڈر میں درج کی ہیں۔ ان کے مطابق تین بار سمن جار ی کرنے کے باوجود پاکستانی گواہان کو عدالت میں لانے کی کوئی سعی نہیں کی گئی۔ مارچ2017ء میں پہلی بار نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کو پاکستانی گواہ حاضر کرنے کیلئے کہا گیا۔ کئی ما ہ بعد وزارت خارجہ کا ایک مکتوب موصول ہوا کہ بیان درج کروانے کی تاریخ سے کم از کم چار ماہ قبل سمن ان کے پاس پہنچنا چاہئے۔ جولائی 2017ء میں پھر نومبر میں شنوائی کیلئے سمن جاری کئے گئے۔ یہ سمن وزارت داخلہ نے کئی ماہ بعد وزارت خارجہ کے سپرد کئے۔ جواب کا انتظار کرتے ہوئے، اپریل 2018ء میں عدالت نے تیسری بار گواہوں کو حاضر کروانے کیلئے حکم نامہ جاری کیا اور جولائی2018ء کو وزارت داخلہ کو اس کی یاد دہانی بھی کروائی۔ جس کے جواب میں بتایا گیا کہ سمن وزارت خارجہ کے ذریعے پاکستانی فارن آفس کے سپرد کئے گئے ہیں۔ بھارتی ذرائع کے مطابق پاکستانی حکام نے یہ سمن گواہوں تک پہنچانے کے بجائے واپس کردیئے۔ چند سال قبل ہریانہ کے سابق ڈائریکٹر جنرل پولیس ( لاء اینڈ آرڈر) وکاس نارائن رائے نے راقم کو بتایا تھا کہ اس کیس کو حتی الامکان کمزورکرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ نارائن رائے، اسپیشل انوسٹی گیشن ٹیم (ایس آئی ٹی) کے سربراہ تھے، جس نے سمجھوتہ دھماکوںکی ابتدائی تفتیش کی تھی۔ ’’ہندو دہشت گردی‘‘ کے حوالے سے بھارت میں سرکاری ایجنسیوں پر دبائوبنایا جارہا تھا، کہ وہ اپنی تفتیش ختم کریں نیزعدالتی پیروی میں تساہل اور نرمی سے کام لیں۔ ابتدائی تفتیش میں بھارتی ایجنسیوں نے ان دھماکوں کے تعلق بھی مسلم نوجوانوں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی، چند ایک کو حراست میں بھی لیا۔ میڈیا میں انڈین مجاہدین اور پاکستان میں سرگرم کئی تنظیموں کا بھی نام لیا گیا۔ مگر چند دیانت دار افسران کی بدولت اس دھماکہ میں ایک ہندو انتہا پسند تنظیم' ابھینوبھارت‘ کے رول کو بے نقاب کیا گیا۔سب سے زیادہ خطرے کی گھنٹی اس وقت بجی جب نومبر 2008ء میں ملٹری انٹیلی جنس کے ایک حاضر سروس کرنل پرساد سری کانت پروہت کے رول کی نشاندہی کرکے اس کو گرفتار کیا گیا۔اگلے دو سالوں میں نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے سوامی اسیما نند اور ایک انجینئر سندیپ ڈانگے کو حراست میں لے لیا۔ اسی دوران راجستھان کے انٹی ٹیررسٹ سکواڈ کے 806 صفحات پر مشتمل فرد جرم میں انکشاف کیاگیا ، کہ فروری 2006ء میں ہندو انتہا پسندوں نے وسطی بھارت کے ایک شہر اندور ایک میٹنگ کرکے سمجھوتہ ایکسپریس پر حملے کی سازش تیار کی تھی۔ اس میٹنگ میں ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیوک سیوم سنگھ(آر ایس ایس) کے مقتدر لیڈر اندریش کمار بھی موجود تھے۔ اس سے قبل ان کا نام اجمیر شریف کی درگاہ میں ہوئے دھماکہ کی سازش میں بھی آیا تھا۔مگر ان کی کبھی دوران حراست تفتیش نہیں ہوئی۔ 12 فروری 2012ء میں این آئی نے آر ایس ایس کے کارکنوں راجندر پہلوان، کمل چوہان اور اجیت چوہان کر گرفتار کیا۔ ایجنسی کے بقول ان تین افراد نے ہی ٹرین میں بم نصب کئے تھے۔ گو کہ بھارت میں سرکاری ایجنسیاں دہشت گردی سے متعلق واقعات کا تعلق آنکھ بند کئے مسلمانوں سے جوڑتی آرہی ہیں، مگر 29 ستمبر 2008ء کو مہاراشٹرہ کے مالیگائوں شہر کے ایک مسلم اکثریتی علاقہ میں ہوئے دھماکوں اور اس میں ملی لیڈز نے مہاراشٹر کے اینٹی ٹیررسٹ سکواڈ کے سربراہ ہیمنت کرکرے کو چونکا دیا۔ اور ایک غیر جانبدارانہ تفتیش کے بعد اس نے ہندو دہشت گردی کا بھانڈا فاش کیا۔بدقسمتی سے کرکرے 2008ء کے ممبئی حملوں میں دہشت گردوں کا نشانہ بن گئے، جس کے بعد یہ تفتیش مرکزی ایجنسی این آئی اے کے سپر د کی گئی۔ اس کے بعد تو حیدرآباد کی مکہ مسجد، اجمیر درگاہ، سمجھوتہ ایکسپریس دھماکوں کے تار بھی ہندو دہشت گردی سے جڑتے گئے۔ جب کرکرے نے یہ نیٹ ورک بے نقاب کیا تھا تو بی جے پی اور شیو سینا کے متعدد رہنمائوں نے ان کے خلاف زبردست شور برپا کیا اور انہیں 'ملک کا غدار‘ قرار دیا تھا۔ (جاری ہے)