جامعات میں صرف جنسی استحصال ہی نہیں ہوتا یہاں فکری اور نفسیاتی استحصال بھی ہو تا ہے اوریہاں صرف لڑکیوں کا جینا حرام نہیں کیا جاتا یہاں لڑکے بھی محفوظ نہیں۔ ہمارے معاشرے میں سمسٹر سسٹم نفسیاتی مریضوں کو ’’ لائسنس ٹو کل‘‘ جاری کرنے کے مترادف ہے۔ یا اسے لپیٹ دیجیے یا اس میں با معنی اصلاحات متعارف کرائیے۔ایک پوری نسل کو نفسیاتی اور جنسی مریضوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ پی ایچ ڈی کی ایک طالبہ کی خودکشی کی خبر پڑھی تو زمانہ طالب علمی کی یادیں دیواردل سے آ لگیں۔ یہ طالبہ تو خیر پی ایچ ڈی کا تھیسز لکھ رہی تھی مجھے تو ایک معمولی سا مقالہ لکھنا تھا، صرف تین کریڈٹ آورز کے ایک مضمون جتنی جس کی حیثیت تھی۔ایک سمسٹر کے چھ سات مضامین جیسا ایک مضمون سمجھ لیجیے، بس یہ تھا کہ اس مضمون کا پیپر نہیں تھا ،ایک اسائنمنٹ نما چیز لکھنا تھی جس کا حجم مبلغ 21 صفحات پر مشتمل تھا۔ عشاء کے بعد لکھنے بیٹھا تھا اور دو گھنٹے کی ایک ہی نشست میں قصہ تمام کر دیا تھا لیکن ’’ استاد محترم‘‘ نے اس کو قبول فرمانے میں ڈھائی سال لگا دیے اور ان ڈھائی سالوں کے بعد جب یہ منظور ہوا تو یہ بعینہ وہی مسودہ تھا جو میں نے دو گھنٹوں میں لکھا تھا۔ڈھائی سال اسے اپنے پاس رکھ کر ’’ استاد محترم‘‘ نے صرف اپنے نفسیاتی مسائل کی تسکین کی تھی اور ایک طالب علم اس پر تو قادر نہ تھا کہ کسی نفسیاتی معالج کو ساتھ لیے پھرتا ، اس کے پاس اس عارضے کے خراج میں دینے کے لیے ڈھائی سال کے سوا کچھ نہ تھا۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں ایم اے انگریزی کی کلاس کا میں کوئی لائق طالب علم نہ تھا۔ بلکہ میں تو اس کا شاید کوئی سنجیدہ طالب علم بھی نہ تھا۔ شعبہ انگریزی کے سربراہ جب کلاس لینے آتے تو لیکچر ایک اکتا دینے والی ڈکٹیشن کے سوا کچھ نہ تھا۔ اس لیکچر کا معیار یہ تھا کہ موصوف ڈکٹیشن میں یہ بھی بتا رہے تھے یہاں کاما آئے گا اور یہاں فل سٹاپ لگائیے۔ علم و فکر کے اس شاندار مظاہرے نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔ میری دلچسپی اب حاضری پوری کرنے اور امتحان کی رات دوستوں سے ناول اور ڈراموں وغیرہ کا خلاصہ سن کر امتحان دینے تک رہ گئی۔ کچھ طالب علم البتہ یہ راز پا چکے تھے کہ جو صاحبان لیکچر دے رہے ہیں، پیپر بھی انہوں نے ہی چیک کرنے ہیں۔چنانچہ لیکچر کم ہوتا اور خوشامد کی میراتھن زیادہ ہوتی۔ ایک دن ایک صاحب نے شدید پنجابی لہجے میں بولی گئی انگریزی میں ایک انتہائی علمی سوال پوچھ لیا۔ سوال یہ تھا کہ ’’ سر آپ اتنا اچھا لیکچر دیتے ہیں آپ ناشتہ کس چیز کا کرتے ہیں‘‘۔ اور سر ’’ صاحب‘‘ جن کا لیکچر مغرب کی نماز کے بعد ہوتا تھا جب ناشتہ کی نسل بھی معدوم ہو چکی ہوتی تھی ، کتاب ایک طرف رکھ دی اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر مزے سے فرمانے لگے’’ ارے ناشتہ کیا کرتے ہیں ہم ، بس ایک’’ توس ‘‘لیتے ہیں اور ایک کپ چائے پی لیتے ہیں‘‘‘۔ادب کی ایسی کلاس معلوم انسانی تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ ہو رہی تھی۔ میرے جیسا طالب علم اب کہاں جاتا، جسے نہ اس لیکچر نما چاند ماری میں کوئی دلچسپی تھی نہ خوشامد سے۔اوپر سے ’’ استاد محترم‘‘ شعبے کے سربراہ بھی تھے۔ چنانچہ دو سال میں طالب علم نے ایم اے انگریزی کے تمام سمسٹرز پاس کر لیے لیکن جب 21 صفحات کے ’’ اس تھیسز نما‘‘ اسائنمنٹ کی نوبت آئی تو ’’ استاد محترم‘‘ نے اسے منظور فرماتے فرماتے پورے ڈھائی سال لگا دیے۔غدر بود ہے ، کیا لکھ دیا ، غدر بود کر دیا …اور ڈھائی سال بعد جب صاحب کی نفیسات کی تسکین ہو گئی تو وہی تھیسز پاس ہوا جو پہلی رات لکھا گیا تھا۔ غدر بود کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔ جس پرچے کے اوپر آصف محمود لکھا ہ ہو سمجھیں وہ غدر بود ہے۔ جو اسائنمنٹ آصف کی ہو وہ غدر بود ہے۔ دو تین مرتبہ ہم دوستوں نے ایک ہی جگہ سے دیکھ کر اسائنمٹ لکھ ماری جو لفظ بہ لفظ ایک جیسی تھی۔ کسی کو Good ملا تو کسی کو Very Good. لیکن جس پر آصف محمود لکھا تھا اس پر لکھ دیا : مجھے ڈر ہے آپ بمشکل پاس ہی ہو سکیں گے۔میں نے دوستوں کو قصہ سنایا انہوں نے نہ مانا۔ اسائنمنٹ سامنے رکھ دی پھر بھی وہ تاویل فرماتے رہے۔میں نے ڈان اخبار کا اداریہ نقل کیا اور چھوڑ آیا کہ ’’ استاد محترم‘‘ ایک مضمون لکھا ہے اخبار کو بھیجنے سے پہلے اگر آپ اصلاح فرما دیں۔ دو دن بعد مضمون واپس ملا تو سرخ پنسل سے اس میں غلطیوں کی اتنی اصلاح فرمائی جا چکی تھی کہ صفحہ مکمل طور پر صفحہ عروسی بن چکا تھا۔آخری سمسٹر کے ایک ایسے مضمون میں مجھے فیل کر دیا گیا جس کا پیپرسب سے اچھا ہوا تھا۔ میں اور افتخار لائبریری گئے تو اس مضمون کے سر بیٹھے تھے۔اچھے آدمی تھے اور ان سے اچھا تعلق بھی تھا۔میں نے کہا سر مجھے فیل کر دیا آپ نے۔ انہوں نے کسی لگی لپٹی کے بغیر کہا : ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ نے کہا تھا ۔لیکن آپ ناراض نہ ہوں ، سمسٹر میں کلیئر کر لیجیے گا۔ ایک دو اچھے اساتذہ بھی آئے ، بہت اچھے ۔لیکن غیر اعلانیہ سوال یہ تھا کہ ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ سے قابل کوئی بندہ آنے نہ پائے۔ اس سے صاحب خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگ جاتے تھے چنانچہ یہ اساتذہ نکال دیے گئے۔اب وہی لیکچر تھے :’’ کاما ، فل سٹاپ‘‘ اور آگے سے سوال ہوتا تھا : سر آپ تھکتے نہیں ، سر آپ ناشتہ کس چیز کا کرتے ہیں۔ پاکستان میں کوئی استاد ہو یا کسی تھانے کا حوالدار ، مزاج کی تہذیب یہاں کم ہی ہوئی ہے۔ اختلاف گوارا نہیں اور اختیارات ہضم نہیں ہو پاتے۔ایسے میں سمسٹر سسٹم ’’ لائسنس ٹو کل‘‘ بن چکا ہے۔کلاس میں جو طالب علم اچھا لگا اس کی نیا پار ، جس نے خوشامد کی حد کر دی وہ مقدر کا سکندرلیکن جس سے ان بن ہو گئی اس کا اکیس صفحات کا مقالہ اٹھائیس مہینے روک کر بیٹھ گئے۔ کہیں نفسیاتی استحصال تو کہیںجنسی استحصال۔ہم نے اپنے طالب علم نفسیاتی مریضوں کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھے ہیں۔ یقینا سب ایسے نہیں اور بلاشبہ اساتذہ کی اکثریت اچھی ہوتی ہے لیکن جہاں کوئی نفسیاتی پیچیدگی کا مارا استاد آ جائے وہاں سمسٹر سسٹم استحصال کا بدترین ذریعہ بن جاتا ہے۔اس نظام میں اپنے سماج کی حقیقتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے با معنی اصلاحات کی ضرورت ہے۔