لاہور میں سموگ کی لعنت زندگی کا لازمی حصّہ بن چکی ہے۔ سردیاں شروع ہوتے ہی نمی‘ مٹی اور دھویں کا آمیزہ فضا کو ڈھانپ لیتا ہے۔ ٹیلی ویژن چینل شور مچاتے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ صورتحال کا نوٹس لیتی ہے۔ انتظامیہ کو صوبائی دارالحکومت میں کم کرنے کیلیے اقدامات کرنے کے احکامات جاری کرتی ہے۔ سرکاری ترجمان گھسے پٹے اعلانات دہراتے ہیں کہ حکومت کس قدر سنجیدگی سے سموگ کم کرنے کیلیے کام کررہی ہے۔ لیکن کچھ خاص فرق نہیں پڑتا۔ جاڑے کا موسم گزرتے ہی لوگ اس مسئلہ کو بھول جاتے ہیں‘ اگلانومبر آنے تک۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لاہور اور گرد و نواح میں سموگ میں کمی نہیں آئی بلکہ معاملہ سنگین ہوگیا ہے۔ لاہور دنیا کے دو تین آلودہ ترین شہروں کی صف میں شامل ہے۔ بعض اندازوں کے مطابق دنیا کا آلودہ ترین شہر۔ اس مرتبہ لاہور کے کم گنجان آباد نواحی رہائشی علاقوں میں رہنے والے بھی فضائی کثافت کے باعث آنکھوں میں جلن کی شکایت کررہے ہیں۔ ہسپتالوں ‘ کلینکوںمیں گلے اورسانس کے مریضوں کا ہجوم ہے۔خاص طور سے چھوٹے بچوں کا۔ پندرہ بیس سال پہلے سانس کی تکلیف دور کرنے کی خاطر استعمال ہونے والے آلات نیبولائزر اورپَف کم کم استعمال ہوتے تھے۔ عام طور سے دَمہ کے مریضوں کے پاس نظر آتے تھے۔ اب یہ آلات اکثر ہاتھوں میں دکھائی دیتے ہیں۔ سموگ کا روگ لاہوریوں کو گھُن کی طرح چاٹ رہا ہے۔زندگی کا مزا کرکرا ہوچکا۔اِس شہر کی سردیاں شاندار ہوتی ہیں کیونکہ ان میں اتنی شدّت نہیں ہوتی کہ کاروبارِ زندگی معطل ہوجائے۔ نہ برف باری نہ منفی درجۂ حرارت ۔لاہور کا ٹھنڈا میٹھا موسم ِسرما گھومنے پھرنے کا موسم ہُوا کرتا تھا۔ دھوپ میں بیٹھنے کا۔باغ میں سیر کرنے کیلیے آئیڈئل۔ اب لوگ گھروں سے نکلتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ مکانوں کے کواڑ بند رکھتے ہیں کہ فضائی غلاظت اندر داخل نہ ہو۔چند روز پہلے لاہور ہائی کورٹ نے شہر کے کاروباری اداروںکو حکم دیا کہ وہ ایک دن میں اپنے نصف کارکنوں کو دفاتر بلائیں تاکہ سڑکوں پر ٹرانسپورٹ کم ہو۔ گاڑیوں کے دھوئیں میں کمی آئے ۔شہر میںساٹھ سے ستّر فیصد فضائی آلودگی موٹر کاروں‘ رکشوں اور موٹر سائیکلوں کے باعث ہے۔ شہر میں ستّر لاکھ گاڑیاں ہیں۔مصروف اوقات میں ایک وقت پر پندرہ لاکھ گاڑیاں موجود ہوتی ہیں۔ ان سے نکلنے والی کاربن‘ سلفراور نائٹروجن پر مشتمل گیسیں ہوا کو مسموم کرتی ہیں۔ سردی کے باعث فضا کی نمی اور مٹی سے مل کر سموگ بناتی ہیں۔ محکمہ ماحولیات اور شہری انتظامیہ نے دُھواں چھوڑتے کارخانوں پر سختی کی ہے۔ انہیںقانون کے مطابق آلودگی کم کرنے کے آلات لگانے پر مجبور کیا ہے۔ لیکن گاڑیوں کا کوئی علاج نہیں۔ یہی زیادہ خرابی کی جڑ ہیں۔ لوگ خوش ہوتے ہیں کہ لاہور میں سڑکیں چوڑی کردی گئیں۔ انڈر پاس ‘ بالائے سڑک پُل بنادیے گئے۔ لیکن سڑکوں کی ترقی دو دھاری تلوار ہے۔ شہر میں کاروں‘ موٹر سائیکلوں کی تعداد بڑھ گئی۔آلودگی زیادہ ہوگئی۔شہر میںاسکولوں اور دفتروں کے اوقات میں نہر کے دونوں اطراف تین تین رویہ سڑک پر ٹریفک جام رہتی ہے۔ دھوئیں کے جھکڑ نکلتے ہیں۔ سموگ توبنے گی۔اگر موٹر کاروں کا مقصد زندگی کو سہل بنانا تھا تو وہ فوت ہوچکا۔ اس سے پھیلنے والی آلودگی نے اسکے فوائد پر پانی پھیر دیا۔گہرائی سے سوچا جائے تو پیٹرول سے چلنے والی گاڑیاںہماری دشمن بن چکی ہیں۔ لاہور میںسموگ اسوقت ختم ہوگی جب پیٹرول سے چلنے والی گاڑیوں کا استعمال کم کیا جائے گا۔ بصورت ِدیگر یہ لعنت ہمیں چمٹی رہے گی۔ معاملہ اتنا سادہ نہیں کہ حکومت کے نمائشی اقدامات سے حل ہوجائے۔ اسکے لیے منصوبہ بندی ‘ استقامت سے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور سے نقل و حمل‘ ٹرانسپورٹ کے شعبہ میں فوری اور طویل مدتی اقدامات کرنے ہوں گے۔لاہور جیسے بڑے شہروں کے چوکوں‘ چوراہوں میں نمایاں الیکٹرک بورڈز لگائے جائیں جن میں آلودگی کی شرح کو دکھایا جائے تاکہ سڑکوں پر سے گزرنے والے لوگ شہر کی آلودگی سے آگاہ ہوں اور وہ اسکے بارے میں زیادہ حساس ہوں۔شہر میں دس بارہ سال سے زیادہ پرانی گاڑیاں یا خراب انجن والی گاڑیوں پرسختی سے پابندی عائد کی جائے۔ لازمی بنایا جائے کہ ہر گاڑی کا سالانہ معائنہ کروانے کے بعد اسکے اچھی حالت میں ہونے کا سرٹیفکیٹ لیا جائے گا۔ لاہورسمیت بڑے شہروں میں الیکٹرک کاروں ‘ الیکٹرک رکشوں یا ہائبرڈ گاڑیوں کے استعمال کو فروغ دیا جائے۔ شہر میں گاڑیوں کی تعداد کو محدود کرنے کے لیے شہر میں چلنے والی گاڑیوں پر دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ ٹیکس لگایا جائے تاکہ لوگ پبلک ٹرانسپورٹ کے استعمال کو ترجیح دیں۔ زیادہ اچھا ہے کہ لوگ بڑے شہروں میںصرف مخصوص اوقات میںلگژری کے طور پر نجی ٹرانسپورٹ استعمال کریں ۔لاہور میں سموگ صبح کے وقت زیادہ شدیدہوتی ہے۔ اگر دوپہر بارہ بجے تک نجی گاڑیوں کے استعمال پر پابندی لگادی جائے تو اسکی شدت خاصی کم ہوسکتی ہے۔ لیکن اس مقصد کے حصول کی خاطر اسکولوں اور دفاتر جانے والوں کیلیے متبادل پبلک ٹرانسپورٹ کا بندوبست کرنا ہوگا۔ شہری نجی ٹرانسپورٹ کا استعمال اسی وقت ترک یا کم کریں گے جب انہیں متبادل ٹرانسپورٹ دستیاب ہو۔۔ لاہور کی اکثر سڑکیں اتنی کشادہ ہیں کہ ان پر بسیں آرام سے چل سکیں۔ راقم الحروف نے لندن کی سڑکوں پر سفر کیا ہے جو لاہور کے مقابلہ میں کم چوڑی ہیں لیکن وہاں بسیں چلتی ہیں۔ حکومت ایک ہزار بسیں خرید کرلاہور میں پبلک ٹرانسپورٹ کے طور پرچلائے تاکہ لوگ موٹر سائیکلوں‘ کاروں کی جگہ ان کا استعمال کریں۔ یہ بسیں پیٹرول کی بجائے متبادل صاف ایندھن جیسے سی این جی یا الیکٹرک بیٹری سے چلیں۔ بسیں خریدنے پر اس سے کہیں کم رقم خرچ ہوگی جو حکومت سڑکیں چوڑی کرنے اور انڈر پاس بنانے پر خرچ کررہی ہے۔بیس پچیس ارب روپے سے دو تین برسوں میں وقفے وقفے سے بسیں خریدی جاسکتی ہیں ۔ حکومت نجی شعبہ کو یہ رقم آسان قرض کی صورت میں فراہم کرسکتی ہے۔ جب تک پبلک ٹرانسپورٹ کو وسیع پیمانے پر فروغ نہیں دیا جائے گا اور نجی گاڑیوں کا استعمال کم نہیں کیا جائے گا لاہور میں سموگ کا مسئلہ ختم نہیں ہوگا۔ نہ فضائی آلودگی میں کمی آئے گی۔