کفر ٹوٹا آخر خدا خدا کر کے۔سندھ میں لوکل با ڈیز کے اداروں کی مدت 30 اگست 2020ء کو ختم ہوگئی تھی اور 120 دن میں الیکشن ہونا تھے۔یعنی جو الیکشن یکم جنوری 2021 سے پہلے ہونا تھے وہ آخر کار 15 جنوری سال 2023 میں ہو ئے۔ صرف دو سال کی تو دیر کی مہربان آتے آتے۔ سونے پہ سہاگہ ایم کیو ایم نے ایک دن پہلے اس الیکشن کا بائیکاٹ کردیا۔ اب ایم کیو ایم کے بائیکاٹ کے بعد کراچی اور حیدر آباد کے الیکشن کی کیا وقعت ہو گی یہ تو کراچی اور حیدر آباد کے مکین جانتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد یہ الیکشن 24 جولائی 2022ء کو ہونا تھے وہ تو خدا کا کرنا کہ ملک میں سیلاب آگیا اور بہت سی املاک کے ساتھ ساتھ سندھ کے بلدیاتی الیکشن کو بھی بہا کر لے گیا۔بعد میں الیکشن کے لئے 28 اگست 2022ء کی تاریخ طے ہوئی اور وہ بھی سیلاب کی نظر ہوگئی تو 22 نومبر 2022ء کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اعلان کیا کہ یہ الیکشن 15 جنوری 2023ء کو ہونگے۔ سندھ کی حکومت نے اس بار بھی بڑی دہائی دی کہ ملک میں امن عامہ کی صورت حال بہت خراب ہے فی الحال الیکشن نہ کروائے جائیں۔ مگر الیکشن کمیشن نے سندھ کی حکومت کی یہ تجویز رد کردی اور خلاف توقع الیکشن 15 جنوری کو ہو گئے۔ یہ الیکشن کراچی ڈویژن کے سات اضلاع اور حیدر آباد کے 9 اضلاع میں ہوئے، کراچی اور حیدر آباد کے شہروں کے علاوہ مٹیاری،جامشورو، ٹنڈو محمد خاں،ٹنڈو اللہ یار، دادو، ٹھٹھ، سجاول اور بدین کے علاقے دوسرے مرحلے میں شامل تھے۔ سندھ میں بلدیاتی الیکشن کے لئے جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف بضد تھی اور حکومت سندھ یعنی پیپلز پارٹی الیکشن سے بھاگ رہی تھی۔ پیپلز پارٹی کو خد شہ تھا کہ الیکشن کی صورت میں اس کا کراچی اور حیدر آباد پر اثر کم ہو جائے گا۔ دوسری جانب ایم کیو ایم کا مطالبہ تھا کہ حلقہ بندی نئی ہوںتو اس صورت میں کافی نئی سیٹوں کے وجود میں آنے کی امکانات موجود تھے۔ اگر نئی حلقہ بندیاں ہوں تو کراچی شہر کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی سیٹوں کے مزید بڑھنے کا امکان ہے جس کی بنا پر سندھ میں سیاست میں تبدیلی آسکتی ہے۔اب جب ایم کیو ایم کے بکھرے دھڑے متحد ہو رہے ہیں تو ان کی طاقت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اب مصطفی کمال کی پاک سر زمین پارٹی، ایم کیو ایم حقیقی اور فاروق ستار ایک ہی بینر تلے اکھٹے ہو رہے ہیں۔ لندن سے بھی لگتا ہے کہ الطاف حسین اب صحتیاب ہو رہے ہیں۔ اب جب 15 جنوری کو الیکش ہو چکے ہیں جب تک یہ کالم شائع ہو گا اس وقت تک نتائج مکمل ہو چکے ہونگے۔اس وقت کے نتائج کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کو سبقت حاصل ہے۔ لگ یوں رہا ہے کہ پہلی بار کراچی اور حیدر آباد میں پاکستان پیپلز پارٹی کا میئر بن جائے گا۔ پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی ان الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگا رہی ہیں۔یہ ہفتہ کافی گہما گہمی کا مرکز رہا۔پنجاب کے وزیر اعلی جناب پرویز الہی نے صوبائی اسمبلی توڑنے کی درخوست کر دی اور اس پر گورنر نے اپنے دستخط نہیں کئے اور یوں ہفتہ کی رات کو یہ اسمبلی خود بخود تحلیل ہو گئی۔ اب نگران وزیر اعلی کا انتخاب ہوگا ، 17 تاریخ تک پرویز الہی اور لیڈر آف اپوزیشن حمزہ شہباز کے پاس وقت ہے کہ وہ کوئی متفقہ نام دیں۔ مگر ایسا ممکن نظر آ نہیں رہا۔ حمزہ شہباز اس وقت ملک سے باہر ہیں اور انکے پاکستان آنے کا کوئی پروگرام بھی نہیں ہے۔ اس وقت پانچ نام گردش کر رہے ہیں جن میں تین پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے ہیں اور دو پاکستان مسلم لیگ نواز کی طرف سے۔ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے جو نام گردش میں ہیں وہ جناب شعیب سڈل، سلمان شاہ اور پرویز حسن کے ہیں۔ پرویز سڈل ایک ریٹائر بیوروکریٹ ہیں وہ پولیس میں کافی اہم خدمات انجام دے چکے ہیں۔کراچی میں امن امان کرنے میں انکا نام آتا ہے۔ سلمان شاہ ایک معاشی ماہر ہیں اور پرویز حسن قانون دان ہیں۔ بعد میں پرویز الہی کی عمران خان سے ملاقات کے بعد تین حتمی ناموں کا اعلان ہوا ہے اور وہ تین نام ہیں احمد نواز سکھیرا، نصیراحمد خاں اور ناصر سعید کھوسہ ہیں۔ پرویز الہی کا کہنا تھا کہ وہ یہ تین نام پنجاب کے گورنر کو بھیج رہے ہیں اور امید ہیں کسی ایک پر اتفاق ہو جائے گا۔ احمد نواز سکھیرا کا نام سر فہرست ہے۔ جناب احمد نواز سکھیرا پاکستان پولیس میں کافی اہم خدمات انجام دے چکے ہیں صوبہ بلوچستان میں انہوں نے کافی اہم رول ادا کیا تھا۔ امید کی جاتی ہے کہ احمد نواز سکھرا ہی پنجاب سے نگران وزیر اعلی ہونگے۔ اگر اپوزیشن اور حکومت ان ناموں پر متفق نہیں ہوتی تو الیکشن کمیشن پنجاب میں نگران وزیر اعلی کا اعلان کرے گا۔ ایک اہم خبر یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ق کو پاکستان تحریک انصاف میں ضم کر دیا جائے۔ اس حوالے سے جب پرویز الہی سے پوچھا گیا تو انہوں کا کہنا تھا عمران خاں یہ چاہتے ہیں اور مونس الہی کی بھی یہ رائے ہے اگر یہ ممکن ہو گیا تو پنجاب کا آئندہ وزیر اعلی مونس الہی کے بننے کے امکانات ہیں۔ چوہدری پرویز الہی کے پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہونے کا مطلب ہے کہ وزارت اعلی انکے گھر میں رہے گی اور پاکستان تحریک انصاف کو ایک مضبوط وزیر اعلی کا امیدوار مل جائے گا۔ پشاور میں ایک دہشت گردی کے واقعہ میں ایک ڈی ایس پی سمیت پولیس کے تین اہلکار شہید ہو گئے ہیں اس حملہ میں بہت جدید قسم کا اسلحہ استعمال کیا گیا ہے۔ پشاور میں اس طرز کا پہلا واقعہ ہے۔ بنوں اور ڈیرہ اسمعیل خاں میں یہ اسلحہ پہلے بھی استعمال ہو چکا ہے۔