امریکیوں کا تکیہ کلام you know(آپ کو تو پتہ ہے )سنتے سنتے ایک زمانہ ہوگیا اور اب یہ تکیہ کلام امریکی بھی نہیں ،شاید اسے عالمی تکیہ کلام کہنا چاہیے۔اس لیے مجھے بھی یہی استعمال کرنا ہے۔سویو نو یہ حالیہ سفر امریکہ جاری ہے جس کی مختصر روداد میں اپنی بھاگ دوڑ والی مصروفیات میں کچھ نہ کچھ لکھتا رہا ہوں اور ان پڑھنے والوں اور ان شہروں میں رہنے والوں سے معذرت کے ساتھ پیش کرتا رہا ہوں جن کیلئے ان تحریروں میں کچھ نیا نہیں ہوگا۔یہ اطمینان مجھے پھر بھی ہے کہ بہت سے پڑھنے والوں کے لیے یہ نیا ہے اور قارئین کے تاثرات سے اندازہ ہورہا ہے کہ انہیں بہت پسند کیا جارہا ہے۔ ٹیکساس کا نام آتے ہی ماضی کی یادوں میں کاؤ بوائز اور امریکی فلمیں تازہ ہونے لگتی ہیں۔چوڑا سا کاؤ بوائے ہیٹ،گلے میں سرخ مفلر ،چمڑے کے نوک دار جوتے جن میں ایڑی کی طرف بھی لوہے کا کانٹے دار ستارہ ٹکا ہوا۔کمر میں دو دو پٹکے جن میں چار چار پستول انگلی کے ایک اشارے کے منتظر۔چہروں پر بے رحمی اور سختی۔گھوڑے پر دہری کاٹھیاں اور خورجینیں‘بندوق کی لبلبی بے چین‘ سرخ ریت‘ بنجر چٹانیں‘چھوٹی چھوٹی صحرائی بستیاں‘ شیرف‘ بنک‘ چند ڈالرز یا انتقام کیلئے قتل‘لوٹ مار‘ کلنٹ ایسٹ ووڈ‘ گریگری پیک‘ عمر شریف‘ میکناز گولڈ (Meckennas gold) میگنیفشنٹ سیون (Magnificient seven) اور بہت سی فلموں کے ساتھ اس سلسلے کی 2015ء میں ریلیز ہونے والی تاحال آخری زبردست فلم دی ریوی ننٹ(The Revenant)۔ ایسی یادوں کے ساتھ اگر ہمارا یہ تاثر تھا کہ ٹیکساس پہنچ کر ائیر پورٹ سے نکلتے ہی سامنے ایک کاؤبوائے سرخ گھوڑے پر سوار بغلی پستول پر ہاتھ رکھے خشونت بھری نظروں سے ہمارا منتظر ہوگا تو کیا غلط تھا۔لیکن بھئی، ایسا کچھ تھا نہیں۔ہیوسٹن سے پہلے ڈیلس بھی ہم دیکھ چکے تھے اور اس کا مختصر احوال بھی میں لکھ چکا ہوں۔یہ جدید ترین شہر اپنی منفرد خصوصیات کے ساتھ ہر رنگ سے مالامال تھے۔ اگر کچھ نظر نہیں آیا تو وہ کاؤ بوائز تھے جو ان سے دور الگ بستیوں میں اب بھی موجود تو ہیں لیکن ان کے رہن سہن بھی جدید ہوچکے ہیں۔اب وہ لباس اور ثقافت وہ سواریاںقصۂ پارینہ ہوئیں ۔ بس ایک فیشن یا ایک روایت باقی ہے۔گاہے گاہے اس کے میلے بھی بپا ہوتے ہیں اور لوگ انہیں دیکھنے بھی آتے ہیں لیکن آں قدح بشکست و آں ساقی نہ ماند۔ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔ اکثر بڑے شہروں کی طرح ہیوسٹن کا ولیم ،پی، ہوبی (William P.HOBBY) ائیر پورٹ بھی رہائشی بستیوں سے دور تھا۔ ہیوسٹن کے ایک نامور مئیر کا نام تھا جس کے نام پر ائیر پورٹ کا نام رکھا گیا۔ہمارے پر خلوص محبت بھرے میزبان جناب عنایت اشرف ہمیں ائیر پورٹ سے اپنے گھر لے آئے جہاں چند دن قیام میں ان کی اور دوسرے سب دوستوں کی ان تھک مہمان نوازی اور بے غرض دوستی دل میں گھر کر گئی۔مشاعرہ بھی بہت جم کر ہوا اور اردو برادری نے کافی تعداد میں شرکت کی ۔کافی پرانے اور نئے دوستوں سے ملاقات ہوئی ۔ اللہ ان سب کو سدا سرسبز و شاداب رکھے۔آمین ہیوسٹن خلیج میکسیکو کے دہانے پر واقع ہے۔ خلیج میکسیکو جو بڑے بڑے سمندری طوفانوں کا منبع ہے۔ 25 اگست 2017ء کا ہاروے( Harvey) نامی طوفان اس سلسلے کا آخری بڑا طوفان تھا جس نے ہیوسٹن اور ملحقہ علاقوں میں زبردست تباہی مچائی تھی۔ سن1900ء کا بھیانک طوفان ہیوسٹن کے قریب ساحلی شہر گیلویسٹن((Galveston پر نازل ہوا جس کا نتیجہ ہزاروں ہلاکتیں اور ہزاروں بے گھر لوگ تھے اور اس کے بعد لوگ گیلویسٹن سے رہائش ترک کرکے ہیوسٹن منتقل ہوگئے۔اس طوفان کی نشانی اب بھی گیلویسٹن کے ساحل پر ایستادہ ہے۔ گیلویسٹن کا سفر ہیوسٹن کے دنوں کا ایک خوب صورت دن تھا۔برادرم عنایت اشرف کی میزبانی میں گیلویسٹن ساحل پر پہنچے تو یخ بستہ ہوا کے تھپیڑوں نے اس طرح استقبال کیا کہ چند منٹ بھی اس کے سامنے گزارنا مشکل تھا۔زمستانی ہوا میں شمشیر کی تیزی تھی ۔ گلویسٹن کے دو کناروں کو ملانے کے لیے ہر پندرہ منٹ بعد ایک فیری آتی جاتی ہے جس میں گاڑیوں سمیت سوار ہوا جاسکتا ہے ۔ ہم سوا ر ہوئے تو بگلوں اور دیگر آبی پرندوں نے کھلے عرشے پر ہمارا استقبال کیا ۔ ان خوبصورت پرندوں کو اپنے ہاتھ سے چوگا فضا میں اچھال کر کھلانے کا اپنا لطف تھا ۔بلکہ اپنا ہاتھ بلند کرکے کھڑے ہوجائیں تو سیکنڈوں میں یہ پرندے اپنا رزق آپ کی انگلیوں سے جھپٹ لیتے ہیں۔ ہم فیری میں آتے جاتے اسی تجربے سے گزرتے اور اجنبی پرندوں سے اپنی دوستیاں بناتے رہے ۔ ہیوسٹن کے بعد سالٹ لیک سٹی جو ریاست یوٹاہ کا مشہور شہر ہے ،ہماری اگلی منزل تھی ۔سالٹ لیک سٹی تین طرف سے بلند برف پوش پہاڑوں اور چوتھی سمت سے ایک نمکین پانی کی جھیل سے گھرا ہوا بہت خوبصورت شہر ہے ۔اسی جھیل کی وجہ سے اس شہر کا یہ نام پڑا ہے ۔ریاست یوٹاہ (Utah) اپنی خوبصورتی ، جھیلوں، پہاڑوں اور جنگلات کی فراوانی کی وجہ سے مشہور ہے ۔ لیکن اس کی ایک انفرادیت یہ ہے کہ عیسائیوں کے ایک مذہبی فرقے کے لوگ مورمنز (Mormans) یہاں بڑی تعداد میں آباد ہیں ۔ اس شہر میں اکثریت انہی کی ہے اور وہ یہاں کاروبار، عمارات ،زمین اور جائیداد کو سنبھالے ہوئے ہیں ۔ان کا ایک بڑا چرچ بھی شہر کے مرکز میں ہے جو بہت خوبصورت عمارت ہے ۔مورمنزکے عقائد، رسم و رواج،رہن سہن اور معاشرت دیگر عیسائی فرقوں مثلا کیتھولک اور پروٹسٹنٹ سے بہت مختلف ہے اور یہ فرقے مور منز کو عیسائی مذہب سے خارج سمجھتے ہیں۔ مورمنز میں خاندان کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور ان میں ایک زمانے سے کثیر الازدواجی چلی آتی تھی جو اب بھی بہت سے لوگ اختیار کیے ہوئے ہیں ۔ہم نے اس مشہور چرچ اور ملحقہ عمارات کی سیر کی اور انہیں اندر سے بھی دیکھنے کا موقعہ ملا۔ ممکن ہے کبھی اتنا وقت مل سکے کہ مورمنز اور ان کی تاریخ کے بارے میں تفصیل سے لکھ سکوں۔ سالٹ لیک سٹی میں برفانی پہاڑوں کی وجہ سے موسم میں سکی انگ کے لیے دور دور سے سیاح کھنچے آتے ہیں ۔ایسے ہی ایک سکی انگ ریزارٹ پارک سٹی پر اپنے خوش مزاج میزبان حامد شیخ صاحب کے ساتھ جانا ہوا ۔زمین آسمان ، درخت ، عمارتیں سب سفید قبا میں ملبوس لیکن سچ یہ ہے کہ برفانی حسن کی بظاہر یک رنگی بہت سے نیرنگ منظروں کو جنم دیتی ہے ۔ ہم جب وہاں پہنچے تو شدید سردی تھی اور راستے ہی میں برف باری بھی شروع ہوگئی ۔ اس حسین منظر کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ۔ چند گھنٹے اس برف زارمیںگزارنا اس سفر کا ایک اور ناقابل فراموش تجربہ تھا۔ شہر میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے جن کے دل پاکستان کے دکھ سکھ کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ان میں بہت سے لوگوں کو یہاں مقیم ہوئے چالیس سال کے قریب ہورہے ہیں اس عرصے میں انہوں نے مساجد بنائیں اور آباد کی ہیں ۔مسلمانوں کی یک جہتی کے لیے کام کیا ہے اور ادب و ثقافت کی شمعیں روشن رکھی ہیں۔جناب مقبول حسین صاحب جن کا بنیادی طور پر لاہور سے تعلق ہے ان سب لوگوںکو جوڑے ہوئے ہیں اور ان کی خوش قسمتی کہ انہیں ٹیم میں بھی بہت مخلص لوگ ملے ہیں۔چنانچہ ایک کنبے کی طرح مل جل کر رہنے والے یہ لوگ اپنے بھی دکھ سکھ بانٹتے ہیں اور پاکستان کے بھی ۔ یہاں مشاعرہ دراصل ڈیمز کی تعمیر کے لیے رقم اکٹھی کرنے کا ایک وسیلہ بھی تھا جس میںلوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور مشاعرے میں کافی تعداد میںشرکت کی ۔اس شعر کے ساتھ آج کی ملاقات ختم کرتا ہوں۔ نہ ابر دشت پہ برسا ، نہ نہر جاری ہوئی سنا ہے رات پہاڑوں پہ برف باری ہوئی