یہ ورلڈ ریسلنگ اینٹرٹینمنٹ کی کسی نورا کشتی کامنظر نہیں بلکہ یہ پاکستان کے حق میں پہلی قرارداد منظور کرنے والے صوبہ سندھ کی حکومت اورسندھ پولیس کی باہمی لڑائی اور اٹھا پٹخ کے حقیقی مناظر ہیں جو ان دنوں آپ کو ٹی وی کی اسکرینوں اور اخبارات کی شہ سرخیوں میں دکھائی دے رہے ہیں۔ آئی جی سندھ اور سندھ حکومت کی اس کھلم کھلا لڑائی میں شکار پور کے ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان احمد نے اپنی خفیہ رپورٹوں میں سندھ کابینہ کے دو اہم وزیروں امتیازاحمد شیخ اور سعید غنی کی نیک نامی پرسوالیہ نشان اٹھا دیئے ہیں۔سندھ حکومت اور سندھ پولیس میں یہ رسہ کشی اس وقت شروع ہوئی جب وفاق نے14مارچ2016ء کو اے ڈی خواجہ کو آئی جی سندھ تعینات کیا۔ اس زمانے میں سابق صدر آصف علی زرداری اوران کے نئے کاروباری دوست اومنی گروپ کے روح رواں عبدالغنی مجید کے خلاف منی لانڈرنگ کا میگا کیس منظر عام پر آیا۔عبدلغنی مجید وہی شخصیت ہیں جو ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کے شوہر اور آصف علی زرداری کے ہم نوالہ ہم پیالہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو ہٹاکر سابق صدرزرداری کے مالی معاملات کے سیاہ وسفید کے مالک بن بیٹھے تھے۔ یار لوگ بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا لین دین کے معاملے میںاپنے لنگوٹیئے یار آصف علی زرداری کا بھرم کھو بیٹھے تو ’’گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے‘‘ کے مصداق وہ اس ذمہ داری سے معزول کردیئے گئے اور اومنی گروپ کے سربراہ عبدالغنی آصف علی زرداری کے فرنٹ مین کے طور پر سامنے آئے ۔ آصف علی زرادری کے زوال کا زمانہ بھی ان ہی دنوں سے شروع ہوتا ہے، ڈاکٹر ذوالفقار مرزا سابق صدر صاحب کی ناک کا بال تھے، آمادہ بہ بغاوت ہوئے توان کے سب کچے چٹھے کھول کر رکھ دیئے۔ وہ سابق صدر آصف علی زرداری کے ماضی کے کئے کرائے سے خود کو کسی طرح بھی بر الذمہ تو قرار نہیں دے سکتے لیکن ’’نہ کھیئڈ اں گے نہ کھیڈن دیاں گے‘‘کی مثال بن کر انہوں نے اپنے مشکل وقت کے یارکو بڑی مشکلوں میں ڈال دیا۔اسی دور میں پہلی مرتبہ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ اور سندھ حکومت کے مابین اختلافات کو ہوا ملی۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی سیاسی جاگیربدین میں سندھ حکومت کے بعض ہمدرد پولیس افسران نے ان کا ناطقہ بند کیا تو آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ آڑے آگئے تو سندھ حکومت نے ان کی سرگرمیوں کو حکومت مخالف قرار دیتے ہوئے آئی جی سندھ کی تبدیلی کی خبریں اڑانا شروع کر دیں، معاملہ بگڑتا چلا گیا اور ایک وقت آیا کہ اے ڈی خواجہ سندھ حکومت کے لئے ناقابل برداشت ہوگئے۔ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے منصب کو سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس جناب امیر مسلم ہانی نے تحفظ دیا اور وہ 13جون 2018ء تک سندھ حکومت کے نہ چاہنے کے باوجودوہ اس منصب پر فائز رہے۔ سندھ ہائی کورٹ کی طرف سے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو کام جاری رکھنے کا حکم دیتے ہوئے ان کے تقرریوں اور تبادلوں کے اختیارات بحال کرنے کے فیصلے کے بعد بھی سندھ حکومت ان سے نالاں ہی رہی۔سندھ حکومت نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کی خدمات وفاق کے حوالے کرنے کے لیے وفاقی حکومت کو خط لکھا اورسردار عبدالمجید دستی، خادم حسین بھٹی اور غلام قادر تھیبو کے نام نئے آئی جی سندھ کے لیے تجویز کئے اور اگلے ہی روز حکومت سندھ نے اے ڈی خواجہ کی خدمات وفاق کے حوالے کرتے ہوئے 21 گریڈ کے افسر سردار عبدالمجید دستی کو قائم مقام آئی جی سندھ مقرر کردیا ۔ اس لڑائی میں نقصان عوام کا ہوا۔ ڈاکٹرسید کلیم امام کو 12 ستمبر 2018ء کوآئی جی سندھ پولیس مقرر کیا گیا، ان کی تقرری کے کچھ عرصہ بعد ہی یہ تاثر عام ہونے لگا کہ نئے آئی جی سندھ اور سندھ حکومت میں بھی ٹھن گئی ہے، افسران کے تبادلے کے اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنے کے معاملے پر آئی جی سندھ اور سندھ حکومت پھر آمنے سامنے آگئے۔ اس مشکل گھڑی میںنئے آئی جی سندھ ڈاکٹر سید کلیم امام نے اپنے پیش رو اے ڈی خواجہ کی طرح عدالت کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے وفاقی حکومت اور گورنرہائوس سندھ کی خوشنودی حاصل کرنے کو ترجیح دی جو ان کی پیشہ ورانہ حیثیت کے حوالے سے سوالیہ نشان بن گئی۔یوں تو چھوٹے موٹے اختلافات آئے روز رونما ہوتے رہتے تھے لیکن وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور آئی جی سندھ سید کلیم امام کے درمیان تنازعہ اس وقت شدت اختیار کرگیاجب ایم کیو ایم لندن کے ٹارگٹ کلر یوسف عرف ٹھیلے والا کا وزیر اعلیٰ سندھ کے خلاف وڈیو بیان منظرعام پر آیا تھاجس کے بعد آئی جی اور وزیر اعلیٰ سندھ کے اختلافات کی خلیج مزید بڑھ گئی۔ٹارگٹ کلر کے ویڈیو بیان کے بعد آئی جی سندھ اور دیگر پولیس افسران نے اس سنگین غلطی کا اعتراف کیااور سید مراد علی شاہ سے معافی بھی مانگی مگر وزیر اعلیٰ سندھ نے ٹارگٹ کلرکے بیان کے اجرا کو غفلت نہیںبلکہ اپنے خلاف سوچی سمجھی سازش قراردیا۔ ان سنجیدہ اختلافات سے سندھ حکومت اور اس کے ایک ذیلی ادارے کے مابین اعلانیہ جنگ شروع ہوگئی ہے۔حکومت سندھ کی جانب سے صوبہ بدرکیے جانے والے ایس پی شکارپور ڈاکٹر رضوان نے 24 نومبر 2019ء کو ایک بیان میں کہا تھا کہ وڈیرے ڈاکوؤں کی پشت پناہی کرتے ہیں، جب پولیس ان کے خلاف کارروائی کرتی ہے تو اعلیٰ حکام پولیس کی مدد نہیں کرتے۔ اس بیان کے بعدسندھ حکومت نے ڈاکٹر رضوان احمد کو معطل کرتے ہوئے صوبہ بدر کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیاگیاجس کی تحریک انصاف سندھ نے کھل کر مخالفت کی اور کہا گیا کہ وزیراعلیٰ سندھ نے پولیس قوانین کے مطابق آئی جی سندھ سے مشاورت نہیں کی ہے اس لئے یہ تبادلے غیرقانونی ہیں جبکہ دسمبر میں آئی جی سندھ سیدکلیم امام نے چند افسران کو صوبہ بدر کرنے پر سخت رد عمل کا اظہار کیااور اس طرح کے فیصلوں کو پولیس کے مورال اور آئی جی کی کمانڈ کو کم زورکرنے کے مترادف قراردیا ۔آئی جی سیدکلیم امام سندھ حکومت کے احکامات کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوگئے اور افسران کے تبادلے کے احکامات پرمتعلقہ افسران کو عہدہ چھوڑنے سے روک دیا تھا۔سندھ حکومت نے مسلسل تنازعات کے باعث بالآخر آئی جی سندھ کو ہٹانے کا فیصلہ کیا،سندھ کابینہ کی چارج شیٹ ہے کہ آئی جی سندھ پہلے روز سے ہی سندھ حکومت سے تعاون نہیں کر رہے اور وزیراعلی ہاؤس کی جانب سے جاری احکامات پر عمل نہیں کرتے،سندھ حکومت کے کئی اہم اجلاسوں میں بھی آئی جی سندھ کی غیر حاضری ہدف تنقیدبنتی رہی جبکہ اس دوران وہ سندھ حکومت کو بائی پاس کرکے اسلام آباد یاترا کرتے رہے۔ سندھ حکومت اور آئی جی سندھ کی اس لڑائی میں دارالحکومت کراچی اور اضلاع میں امن وامان کی صورت حال انتہائی دگرگوں ہو گئی ہے،سندھ حکومت اور آئی جی سندھ کی باہمی کشمکش سے کراچی میں رینجرز کے آپریشن 2013ء کی کامیابیوں پر پانی پھر گیا ہے اور روشنیوں کے شہر کراچی میں جرائم پیشہ عناصر نے دوبارہ تاریکیوں کا راج قائم کر لیاہے۔پولیس گردی کے واقعات بڑھ رہے ہیں،اسٹریٹ کرائم کا جن بے قابو ہو گیا ہے، قتل وغارت گری بھی روز کا معمول بن گئی ہے ، عام شہری ایک بار پھر عدم تحفظ کا شکار ہو گیا ہے۔سندھ حکومت اور آئی جی سندھ کی اس اعلانیہ جنگ میں پنڈورا بکس کھل گیا ہے جس میں سیاستدان اور پولیس افسران ایک دوسرے کے بدن سے کپڑے نوچ کر ایک دوسرے کو برہنہ کررہے ہیں۔ یہ ہمارے سیاسی معاشرے کے زوال کی نشانی ہے کہ پولیس افسران سیاست کرنے لگے ہیں اور حکومت خود پولیس بننے لگی ہے ، اس طرح کی خواہشیں اور کوششیں بغاوتوں کو جنم دیتی ہیں جوریاست کو کمزور کرنے کا سبب بنتی ہیں۔