یہ انتظامی نااہلی مثال ہے کہ حکومت سندھ300سرکاری بنگلوں‘ فلیٹس اور کوارٹرز پر قابض سابق افسران اور بااثر سیاسی شخصیات سے قبضہ نہ چھڑوا سکی۔ سندھ حکومت نے ایک طرف قبضہ مافیا کے خلاف کراچی میں آپریشن شروع کر رکھا ہے دوسری طرف اپنی ہی املاک پر اس کا کنٹرول نہیں۔ غریب اور کمزور کے گھروں پر تو بلڈوزر چلائے جا رہے ہیں لیکن سابق سرکاری افسران ابھی تک بنگلوں اور فلیٹس پر قابض ہیں۔ سارے اختیارات ہونے کے باوجود اگر حکومت قبضہ واگزار نہیں کروا سکی تو اس شک کو تقویت ملتی ہے کہ ان افسران کو سیاسی پشت پناہی حاصل ہے‘ جو لوگ اس وقت سرکاری عہدوں پر موجود ہیں بنگلے‘ فلیٹس اورکوارٹر میں رہائش رکھنا ان کا استحقاق ہے۔ جس سے وہ محروم ہیں۔ تمام تر سرکاری اختیارات کے باوجود چیف سیکرٹری سندھ نے بااثر قابضین کے سامنے ہتھیار ڈال رکھے ہیں۔ جو صوبے کے انتظامی معاملات پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے؟ قابضین کے خلاف آپریشن میں رکاوٹ ڈالنے والے ایم این ایز‘ ایم پی ایز اور وزراء کے نام عوام کے سامنے آنے چاہئیں۔ تاکہ عوام کو بھی علم ہو کہ قبضہ گروپس کا سرپرست کون کون ہے‘وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ صوبے میں حکومتی رٹ کو چیلنج کرنے والے افراد کے خلاف کارروائی فی الفور شروع کریں تاکہ بااثر سابق سرکاری افسران سے گھر خالی کروا کر مستحقین کے سپرد کئے جا سکیں۔ جن لوگوں کی سرکاری ملازمتیں ختم ہو چکی ہیں وہ بھی ذرا سوچیں آخر کس حیثیت سے وہ ان گھروں پر قابض ہیں۔ انہیں خود بھی احساس کرنا چاہیے۔