وقت بہت آگے نکل چکا ہے۔ زندگی انٹرنیٹ کے ساتھ اڑتی جا رہی ہے۔ سرحدوں کے فاصلے بے معنی بنتے جا رہے ہیں۔ مگر سندھ کا اکثریتی عوام ابھی تک میروں؛ پیروں؛ مخدوموں اور سیدوں کی سیاست کا قیدی ہے۔ جب بھی ملک کی اقتداری کروٹ لیتی ہے تب سندھ کے بڑے پیر مختلف پارٹیوں میں ہونے کے باوجود آپس میں سر جوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اس بار بھی انتخابات کا اعلان ہوتے ہی سندھ اور پنجاب کے مخدوم پیر پگاڑا کے پاس پہنچ گئے۔مخدوم جمیل الزماں کی پیرپگاڑا سے ملاقات آصف زرداری کے لیے پریشانی کا باعث بنی۔ اس نے فوری طور پر اسے بلال ہاؤس طلب کیا۔ سندھ کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ اگر سندھ کے تاریخی شہر ہالا کے مخدوم ہمت کریں تو پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کو لوہے کے چنے چبوا سکتے ہیں۔ مگر بات صرف مخدوم جمیل الزماں کی نہیں ہے۔ مخدوم امین فہیم سیاسی طور پر نرم مزاج کے مالک ہیں۔ اگر ان کا مزاج محاذ آرائی کا مخالف نہ ہوتا تو آصف زرادری آسانی سے پیپلز پارٹی کی قیادت پر قبضہ نہ کرسکتے۔ ویسے تو مرحوم امین فہیم اپنے قریبی حلقوں میں یہ کہتے رہے کہ اگر یوسف رضا گیلانی اور شاہ محمود قریشی مجھ سے وفا کرتے تو آصف زرداری پیپلز پارٹی کے سینٹرل کمیٹی کے ممبر بھی نہ ہوتے۔ مگر جب آصف زرداری نے امین فہیم کو مکمل طور پر نظرانداز کیا ؛ اس وقت بھی پیر پگاڑا نے اسے اپنے پاس بیٹھا کر بتایا تھا کہ ’’سیاست کی دوکان پر شرافت کا سکہ نہیں چلتا‘‘ وہ پیرپگاڑا اب سندھ کی سیاست میں نہیں ہے تو سندھ کی سیاست بہت بجھی بجھی سی نظر آتی ہے۔ پیرپگاڑا کو ہمیشہ پیپلز پارٹی سے شکایت رہی مگر جب مرتضی بھٹو دمشق سے ملک واپس آ رہے تھے تب بینظیر بھٹو نے بھائی کو انتخابات میں شکست دینے کے لیے پوری پارٹی کا زور لگایا۔ اس وقت بیگم نصرت بھٹو اپنے بیٹے کے چند وفادار ساتھیوں کے ساتھ لاڑکانہ کی گلیوں میں ماری ماری پھر رہی تھی۔ اس وقت میر مرتضی بھٹو کے ساتھیوں نے بیگم نصرت بھٹو کو بتایا کہ اس شہر میں پیرپگاڑا کا کافی ووٹ بینک موجود ہے۔ اگر وہ ہماری حمایت کریں تو ہم انتخاب جیت سکتے ہیں۔ یہ تاریخ میں پہلی بار تھا جب بیگم نصرت بھٹو نے پیرپگاڑا کو فون کیا اور پیرپگاڑا نے کوئی شکوہ شکایت کرنے کے سوا صرف کہا کہ اگر آپ کا یہ پیغام لیکر کوئی کارکن بھی آتا تب بھی میرے سارے مرید آپ کے بیٹے کو ووٹ کرتے۔ اس پیرپگاڑا کے یہ مخصوص انداز تھے جس نے 1988 کے دوران اپنے شہر کے مڈل کلاس شخص پرویز شاہ کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد انتخابی سیاست سے کنارہ کشی کرلی مگر وہ سندھ میں حکومتیں بنوانے اور حکومتیں گروانے میں بنیادی کردار ادا کرتا رہا۔ وہ پیر اپنے مخصوص مزاج کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔ وہ اپنے انداز میں بہت لبرل تھا۔ وہ بہت مذاق کیا کرتا تھا۔ وہ اپنی پیشن گوئیوں کے سلسلے میں بھی کافی مشہور تھے۔ اس کے جملے ملکی سیاست میں ہمیشہ مشہور رہے۔ جب پرویز مشرف اقتدار میں آئے تھے تب اس کے بارے میں لوگ بہت کم جانتے تھے۔ ایک صحافی نے اس دوراں پیرپگاڑا سے پوچھا کہ ’’پرویز مشرف کے بارے میں آپ کاکیا خیال کیا ہے؟‘‘ تب اس نے مسکرا کر کہا تھا کہ ’’میری اس سے ملاقات نہیں مگر اس کے کلاس فیلوز اور اس کے گلاس فیلوز سے معلوم ہوا ہے کہ بندہ کافی شوقین ہے‘‘ پرویز مشرف کے بارے میں ’’گلاس فیلوز‘‘ کا محاورہ اس پیرپگاڑا کی ایجاد تھا جو اب سندھ کی سیاست میں نہیں تو ایسا لگتا ہے سیاسی سالن میں نمک موجود نہ ہو۔ اس کی زندگی اور اس کی سیاست کا بہت مختلف انداز تھا۔ وہ ایک انگریز کی طرح زندگی گزارتا تھا اور ایک روایتی پیر کی طرح اپنے مریدوں کو مٹھی میں رکھتا تھا۔ آج وہ اس دنیا میں موجود نہیں ہے اور اس کی گدی پر اس کا بیٹا براجمان ہے لیکن کافی کوشش کے باوجود موجودہ پیرپگاڑا سندھ کی سیاست میں تبدیلی کا سبب نہیں بن پائے۔ موجودہ پیرپگاڑا شیخ رشید کو اپنا سیاسی استاد قرار دیتے ہیں اور ان کے سکھائے ہوئے سبق کی وجہ سے وہ کہا کرتے ہیں کہ پرویز مشرف کی قیادت میں مسلم لیگ اور ایم کیو ایم کے سارے دھڑوں کو ملاکر پیپلز پارٹی؛ مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے خلاف ایک سیاسی قوت تشکیل دی جائے۔ مگر اس کا یہ خواب ابھی تک ادھورا ہے۔ ادھورے خواب صرف پیرپگاڑا کے مقدر میں ہی نہیں بلکہ سندھ کے ان سیدوں اور مخدوموں کے پاس بھی بہت ساری حسرتیں ہیں مگر وہ سب ابھی تک اس نقصان سے نہیں نکل پائے جس میں انہیں ذوالفقار علی بھٹو نے دھکیلا تھا۔ سندھ میں سیدوں اور پیروں کی اس طرح پرستش کی جاتی تھی جس طرح ہندو اپنے دیوتاؤں کی کرتے ہیں ۔ ان کے حکم پر سب کچھ کرنے کے لیے تیار مریدوں نے پہلی بار بغاوت کا اظہار کرتے ہوئے یہ نعرہ لگایا تھا کہ ’’سب کچھ مرشد کا مگر ووٹ بھٹو کا‘‘ یہ نعرہ آگ کی طرح سندھ کے سیاسی جنگل کو جلاتا گیا۔ذاولفقار علی بھٹو کے بعد جب پیپلز پارٹی کی قیادت کرنے کے لیے بینظیر بھٹو آگے آئیں تب پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے یہ نعرہ بلند کیا تھا کہ ’’پیر کا نہ میر کا ووٹ بے نظیر کا‘‘ مگر اب پیپلز پارٹی کے پاس نہ وہ سیاسی جادوگر ہے جس کا نام ذوالفقار علی بھٹو تھا اور نہ سیاست کی سرزمین پر بے نظیر بھٹو کھڑی ہے۔ آصف زرداری اور ان کی سیاسی ٹیم کی ہزارہا کوششوں کے باوجود بھی بلاول میں وہ کشش پیدا نہیں ہو پائی جو سندھ کے عوام کو اپنی طرف اس طرح کھینچ لے جس طرح مقناطیس لوہے کے ذروں کو اپنی طرح کھینچ لیتا ہے۔ سندھ کی سیاست میں بینظیر بھٹو کا خون دس برس تک پیپلز پارٹی کو نہ صرف جوڑ کر رکھنے میں کامیاب رہا بلکہ خون بے نظیر کے باعث پیپلزپارٹی کی موجودہ قیادت کی بہت ساری نااہلیوں کے باوجود پیپلز پارٹی پہلے ملک اور پھر سندھ میں اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ اب حالات بدل رہے ہیں۔ اب بے نظیر کا خون پیپلز پارٹی کو جوڑنے اور مخالف قوتوں کا گھیرا توڑنے کی صلاحیت کھو چکا ہے۔ اب پیپلز پارٹی میں ایسی کوئی مرکزی قوت موجود نہیں جو پارٹی کو بھی یکجا رکھ پائے اور اپنے امیدواروں کو انتخابات میں بھی کامیاب بنائے۔ ایک وقت ایسا تھا کہ سندھ سیاسی طور پر پاکستان کے تمام صوبوں سے آگے تھا۔ اس کا ثبوت 1983 ء اور 1986ء کے دوراں بحالی جمہوریت کی وہ تحریکیں تھیں جن میں سندھ کی جیلیں بھر گئی تھی۔ اس تحریک میں صرف پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے گرفتاریاں پیش نہیں کیں بلکہ اس تحریک میں عام لوگ بھی مارشل لا کی مزاحمت کرنے کے لیے سڑکوں پر آئے اوروہ گرفتار ہوئے۔ تحریک برائے جمہوریت نے سندھ میں سیاسی کارکنوں کو جنم دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔یہ وہ وقت تھا جب سیاست مکمل طور پر بیوپاری نہیں بنی تھی۔ اس وقت میں جمہوریت کو بھی ایک آدرش کی حیثیت حاصل تھی۔ اس وقت میں سندھ میں عام لوگوں نے ووٹ کی طاقت سے وڈیروں کے نوٹوں اور پیروں کے کوٹوں کو شکست دی تھی۔ اس وقت سندھ میں ووٹ مکمل طور پر سیاسی تھا۔ وہ وقت گزر گیا۔ اب سندھ میں سیاسی ووٹ ایک بار پھر برادریوں؛ قبیلوں؛ اور میروں؛ پیروں کے حوالے ہو رہا ہے۔ اس لیے جب سندھ میں پیر اکٹھے ہوتے ہیں تو آصف زرادری عدم تحفظ کے احساس میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ موجودہ دور کے پیر اور مرشد سیاسی طور پر اتنے ذہین نہیں ہیں جتنے ذہین ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں تھے۔ اس صورتحال کو سندھ کا سیاسی زوال نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے کہ ووٹ کی سیاسی حیثیت ختم ہوتی دیکھ کر پیپلز پارٹی نے آکسفورڈ سے تعلیم حاصل کرنے والے بلاول کو لاڑکانہ کے ایک پیر کے سامنے پیش کیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کو پیر کے سامنے عقیدت کے ساتھ بیٹھا دیکھ کر سندھ کی مڈل کلاس میں بہت غصہ پیدا ہوا۔ انہوں نے کہا کہ جب آکسفورڈ سے تعلیم حاصل کرکے واپس آنے والے پیروں کے قدموں میں بیٹھ کر سیاسی کامیابی کی دعا لیںگے تو حقیقی عوامی جمہوریت کیسے آئے گی؟ مگر اس وقت سندھ میں حقیقی عوامی جمہوریت کے لیے کون جدوجہد کر رہا ہے؟ اس وقت سب اقتداری کھیل کے کھلاڑی ہیں۔اس کھیل میں بائیں بازو اور ترقی پسند قسم کے حلقے تو کیا پیپلز پارٹی جیسی سینٹرل لیفٹ سے تعلق رکھنے والی پارٹیاں بھی سب کچھ بھلا کر ایک بار پھر اقتدار کے لیے ہر اصول سے ہاتھ اٹھانے کے لیے تیار ہیں۔ اس وقت ہر پارٹی نئے نئے نعرے تخلیق کر رہی ہے۔ مگر کیا ووٹ صرف نعروں سے ملتا ہے؟ ووٹ نعروں اور نغموں سے نہیں ملتا۔ ووٹ ایک کردار اور اس کردار پر اعتبار سے حاصل ہوتا ہے۔ وہ کردار اور وہ اعتبار ختم ہونے کے باعث سندھ کا ووٹ جو پسند کی شادی کرنے والی لڑکی کی طرح بغاوت کا مرتکب ہوا تھا وہ ووٹ محبت میں بیوفائی حاصل ہونے کے بعد اس ٹوٹی پھوٹی لڑکی کی طرح میروں اور پیروں کے گھر لوٹ رہا ہے۔ سندھ کے سرکش سیاسی ووٹ کی واپسی عوامی عشق کی شکست ہے۔ اس شکست کا سبب کون ہے؟اس سوال پر سوچنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں۔ نہ عوام اور نہ نام نہاد عوامی رہنما اور نہ بے وفائی کا شکار ہونے والی لڑکی جیسا ووٹ اور سندھ کے پیر اور میر تو سندھ کے سوچنے سے ڈرتے ہیں۔ وہ عوام سے کہتے ہیں ’’مت رو۔ جوہوا سو ہوا۔ آنسوؤں سے آدرش واپس نہیں آتے۔‘‘