لیبارٹری میں ایک کرسی پر بیٹھی ہوئی بانو نے مسکرا کر کہا ’’ کچھ دیر بعد سب کچھ دیکھ لینا، ابھی تو میرے پاس آئو، میں تمھیں کچھ دکھانا چاہتی ہوں۔ اسی لیے یہاں بلایا ہے۔ ‘‘ میں تیزی سے ان کے قریب گئی اور محبت سے ان کے گلے میں بانہیں ڈالتی ہوئی بولی۔ ’’ آخر آپ کیا ہیں بانو؟ بہترین سرجن، سائنٹسٹ اور یقینا انجینئر بھی! مجھے آپ نے جو الڑا بلٹ پروف کار کا تحفہ دیا ہے، وہ ایک سائنٹسٹ اور انجینئر کا مشترکہ عجوبہ ہے، میں اتنے عرصے سے اس گھر میں آرہی ہوں لیکن میں نے کبھی یہ لیبارٹری نہیں دیکھی، نہ آپ نے کبھی دکھائی۔‘‘ ’’میں نہیں چاہتی تھی کہ تمھارے دماغ پر تابڑ توڑ حملے ہوجائیں۔ ‘‘بانو نے ہنس کر کہا۔ ’’ تم سے اتنی قربت کے باعث اندازہ تھا کہ وقتاً فوقتاً یہ سب کچھ تمھیں معلوم ہو ہی جائے گا۔ میں نہیں چاہتی کہ تم میرے بارے میں بہ یک وقت سب کچھ جان لو۔‘‘ ’’آپ کی شخصیت کے کچھ اور پہلو بھی ہیں؟‘‘ ’’ یقینا ہیں لیکن وہ سب کچھ تم دھیرے دھیرے ہی جانو تو بہتر ہے اور اب یہ باتیں چھوڑو! میں نے تمھیں یہاں اس لیے بلایا ہے کہ تمھیں اس کے بارے میں بتائوں۔ ‘‘اشارہ اس بورڈ کی طرف تھا جس کے سامنے بانو کرسی پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ ان کے قریب ہی ایک کرسی شاید اس لیے تھی کہ انھوں نے مجھے وہاں بلایا تھا۔ ’’ بیٹھ جائو! بانو نے مزید کہا، اس بورڈ کو غور سے دیکھو۔‘‘ میں اب تک ان کے گلے میں بانہیں ڈالے ہوئے تھی۔ ان کے کہنے پر میں اس کرسی پر بیٹھ گئی اور اس بورڈ کی طرف دیکھنے لگی جس پر بہت سے سوئچ بٹن اور پش بٹن تھے۔ ان کے علاوہ چھوٹے چھوٹے سرخ، ہرے اور زرد بٹن بھی تھے۔ بیچ میں ایک اسکرین تھی جس کے نیچے ایک لیور لگا ہوا تھا۔ ’’ میں یھیں سے سب کچھ آپریٹ کرتی ہوں۔ ‘‘بانو نے کہا اور ایک بٹن دبایا۔ اس کے ساتھ ہی اسکرین پر ایک لمحے کے لیے برقی جھلماہٹ ہوئی اور پھر میری کار دکھائی دینے لگی جو میں نے بانو کے گھر کے پورچ میں کھڑی کی تھی۔ بانو نے ایک اور بٹن دبایا تو اسکرین کے اسپیکر سے ایسی آواز آنے لگی جیسے کار کا انجمن اسٹارٹ ہوا ہو۔ بانو نے بورڈ پر پھر کچھ کیا اور مجھے بتایا۔ ’’ اب تمھاری کار کا کنٹرول مکمل طور پر میرے ہاتھ میں ہے۔‘‘ ’’ میری کار کہاں ہے وہ؟ وہ تو آپ کی ہے ۔‘‘ ’’ وہ تمھیں دے چکی ہوں اور اسے واپس لینے کا ارادہ نہیں ہے۔ ‘‘بانو نے مسکراتے ہوئے کہا، پھر وہ سمجھانے لگیں کہ وہ میری کار اپنے کنٹرول میں لینے کے بعد اسے کس کس طرح استعمال کرتی تھیں جو میری سمجھ میں پوری طرح نہیں آیا جس کا اظہار میں نے بانو سے بھی کردیا۔ ’’ ایک ایک کرکے سب اچھی طرح سمجھ جائوگی۔ ‘‘بانو نے کہا۔ ’’ یہ سب کچھ تمھاری کار میں ہے لیکن محدود جگہ میں! یہ جو تم بڑا بورڈ دیکھ رہی ہو، اس کا سبب کچھ اور ہے۔ تم نے دیکھا ہی ہوگا کہ میں نے سارے سوئچ اور پش بٹن استعمال نہیں کئے ہیں۔ وہ کچھ اور کاموں کے لیے ہیں جن کے بارے میں تمھیں پھر کبھی بتائوں گی۔ ابھی تو تم وہی پوری طرح نہیں سمجھ سکیں جو میں نے تمھاری کار کے بارے میں بتایا ہے۔ بس اتنا اور بتادوں کہ اگر تم مجھ سے رابطہ کرنا چاہو گی تو یہاں ایک بزر بجنے لگا۔ یہی سارا سسٹم میری کار میں ہے۔‘‘ ’’ آپ کی کار میں؟ ‘‘میں نے حیرت سے کہا۔’’ میں نے تو نہیں دیکھا!‘‘ ’’ تم میری اس کار میں بیٹھی ہو جس میں یہ سب کچھ نہیں ہے۔ وہ میری دوسری کار ہے۔ میں نے اس قسم کی دو کاریں اس لیے تیار کی تھیں کہ اگر کبھی ایک میں کوئی خرابی ہوجائے تو اسے درست کرنے میں میرا وقت ضائع نہ ہو اور میں دوسری کار استعمال کرلوں ان میں سے ایک کار بلیک ہے جو میں نے تمھیں دے دی ہے اور دوسری سرخی مائل سیاہ ہے۔ یہ سسٹم اُس میں ہے۔‘‘ ’’ میں چکرا گئی ہوں یہ سب کچھ جان کر! ‘‘میں نے کہا۔ ’’ آپ کے بارے میں ان گنت سوال بھی ہیں میرے ذہن میں۔‘‘ ’’ موقع ہے ابھی۔ کر ڈالو سب، لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ میں ہر سوال کا جواب دوں۔ بعض سوالوں کے جواب تمھیں بعد میں کسی وقت ملیں گے۔‘‘ ’’ میری کار کے عقبی حصے میں ایک شیلڈ کہاں سے آگئی تھی؟‘‘ ’’ وہ کار کے نچلے حصے میں پوشیدہ ہے جسے میں جب چاہوں اس طرح باہر لاسکتی ہوں۔ کار کے نیچے وہ عمودی پوزیشن میں ہے۔ باہر آکر وہ افقی پوزیشن میں آجاتی ہے۔ وہ غیر معمولی فولاد کی ہے جس کی ٹکر مضبوط سے مضبوط چیز برداشت نہیں کرسکتی۔‘‘ ’’اس تصادم سے میری کار کی ٹیل لائٹس تو ٹوٹنی چاہیے تھیں لیکن وہ نہیں ٹوٹیں!‘‘ ’’ اس کار کی کوئی چیز کبھی نہیں ٹوٹ سکتی۔ اس کار کی تباہی صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ کوئی طیارہ اس پر بم گرادے۔‘‘ میں نے طویل سانس لی۔ ’’ یعنی میں اس میں ہر طرح محفوظ رہوں گی۔‘‘ ’’ قطعی۔‘‘ ’’ آپ نے مجھ سے ان دونوں آدمیوں کے بارے میں نہیں پوچھا جو اس تصادم کے نتیجے میں اپنی کار میں پھنس گئے تھے۔‘‘ ’’ میں نے تمھیں کار ہی میں بتادیا تھا کہ ایک تو مرچکا ہوگا۔ اسٹیرنگ اس کی پسلیوں میں دھنس گیا تھا۔ دوسرا زخمی ہے جسے تم نے ہاسپٹل پہنچوادیا ہے۔ وہ بے ہوش بھی ہے۔ ہوش میں آنے کے بعد بھی ڈاکٹر اس کے زخموں کے باعث اس کا بیان نہیں لینے دیں گے۔ تم نے اپنے آدمیوں کو ہدایت کی ہے کہ اس کی حفاظت میں کوئی کوتاہی نہ ہو۔‘‘ میں نے ایک طویل سانس لی۔ ’’ آپ یہ بھی جانتی ہیں کہ میں نے اپنے آدمیوں کو کیا ہدایت کی ہے؟ لیکن مجھے اس بات پر حیرت نہیں ہوئی۔ پہلے بھی کئی بار ایسا ہوچکا ہے کہ جو بات آپ کے علم میں نہیں ہونا چاہیے تھی وہ آپ جانتی تھیں۔ ایسا کیونکر ممکن ہوتا ہے بانو؟‘‘ ’’ میں ابھی تمھارے اس سوال کا جواب نہیں دوں گی۔ ‘‘بانو نے مسکراتے ہوئے کہا، پھر بولیں۔ ’’ کوئی اور سوال؟‘‘ ’’ سوال تو میرے ذہن میں بہت سے ہیں بانو، یہ تو ناممکن ہے کہ آپ اپنے سرجن ہونے کا ثبوت اپنے ساتھ لیے پھرتی ہوں لیکن ہاسپٹل میں وہ آپ کے پاس تھے۔ یہ کیونکر ممکن ہوا۔‘‘ ’’ تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ وہ ایسی چیز تو نہیں جو ہر وقت ساتھ رکھی جائے۔ وہ میں نے اسی وقت کسی سے منگوائے تھے۔‘‘ ’’ میں نے تو کسی کو نہیں دیکھا جو وہ آپ کو دے گیا ہو!‘‘ ’’ تم نے نہیں دیکھا تو اس میں میرا کیا قصور؟ ‘‘بانو ہنس دیں۔ ’’ اچھا! ‘‘میں نے طویل سانس لی۔ ’’ ابھی میرے ذہن میں کئی سوال ہیں، لیکن ایک بات میں آپ سے پوچھنے کے لیے کئی دن سے بے چین تھی۔ اب اس وقت میں وہی سوال کروں گی۔ پچاس سال پہلے ایک خاتون کو دیکھا گیا تھا جو بالکل آپ جیسی تھیں۔ ان کا نام صبیحہ بانو تھا۔ کیا آپ وہی صبیحہ بانو ہیں؟‘‘ بانو نے اس سوال کا کیا جواب دیا؟