بانو نے کچھ تعجب سے میری طرف دیکھا، پھر بولیں۔ ’’ واقعی؟‘‘ ’’ کنفرم بات ہے۔ ‘‘میں نے ان کے چہرے کے تاثرات غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’ وہ بالکل آپ جیسی تھیں وہ بھی لڑکیوں سے محبت کرتی تھیں، آپ بھی لڑکیوں سے محبت کرتی ہیں۔ انہیں صرف ایک لڑکی سے بہت زیادہ پیار تھا، آپ بھی دوسری لڑکیوں سے زیادہ مجھے چاہتی ہیں۔ انہیں بھی ایک پراسرار شخصیت سمجھا جاتا تھا اور اب آپ کو بھی پراسرار سمجھا جانے لگا ہے۔‘‘ ’’ کیا وہ بھی سائنٹسٹ، سرجن اور انجینئر تھیں؟‘‘ ’’ یہ باتیں تو سامنے نہیں آئی ہیں۔‘‘ ’’ تو وہ بالکل میری جیسی تھی؟ کوئی فرق نہیں تھا؟‘‘ ’’ بتایا تو یہی گیا ہے۔‘‘ بانو یہ باتیں کرتے ہوئے مسکراتی رہی تھیں۔ انہوں نے کہا۔ ’’ تو پھر اب مجھے تو بوڑھا ہوناچاہیے تھا۔‘‘ ’’ لیکن آپ نہیں ہیں۔‘‘ بانو نے ہنس کر کہا۔ ’’ تو پھر شاید میں اس صبیحہ بانو کا دوسرا جنم ہوں۔‘‘ ’’ اس فلسفے پر مجھے تو یقین نہیں ہے۔‘‘ ’’ بہت سی باتوں پر یقین نہیں کیا جاتا لیکن وہ ہوتی ہیں۔‘‘ ’’ آپ کو اس فلسفے پر یقین ہے؟‘‘ ’’ ایسے ہی کہہ دیا میں نے! اور کچھ کہوں بھی کیا۔ میں اس کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکتی کہ میں ماضی کی کسی عورت کی ہم شکل بھی ہوں اور ہم سیرت بھی! ویسے کیا خیال ہے تمھارا، اگر اب میں اپنا نام صبیحہ بانو ہی رکھ لوں، نیا آئیڈنٹی کارڈ بنوالوں جس میں اپنا نام صبیحہ بانو لکھوں۔ ‘‘یہ سب کہتے ہوئے بانو کا انداز ایسا تھا جیسے تفریحاً باتیں کرنے لگی ہوں۔ پھر یکایک انہوں نے سنجیدہ ہوکر کہا۔ ’’ ویسے بعض ہم شکل لوگوں کے واقعات تو سامنے آتے رہے ہیں۔‘‘ ’’ بات سیرت کی بھی تو ہے!‘‘ بانو کے جواب سے پہلے ہی میرے موبائل کی گھنٹی بج اٹھی۔ کال کیپٹن عارف کی تھی۔میں نے زخمی اور مردہ شخص کے معاملات میں چار افرادکومامورکیا تھا لیکن اس کی ذمے داری میں نے کیپٹن عارف کو سونپی تھی۔ ’’ کوئی خاص بات کیپٹن؟ ‘‘میں نے پوچھا۔ ’’ کیا وہ زخمی ہوش میں آگیا؟‘‘ ’’ جی ہاں۔ وہ ہوش میں آچکا ہے لیکن ابھی اس کی حالت ایسی نہیں کہ اس کا بیان لیا جاسکے۔ میں نے آپ کو کچھ اور بتانے کے لیے فون کیا ہے۔ ان دونوں کی جیبوں سے ان کے شناختی کارڈ برآمد ہوئے ہیں اور ایسے کا غذات بھی جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ کس ملک کے شہری ہیں۔‘‘ ’’ اسرائیل کا نام تو نہیں ہوگا۔‘‘ ’’ جی ہاں کمانڈر! ‘‘کیپٹن عارف نے کہا۔ ’’ میں ہاسپٹل کی لابی سے بول رہا ہوں۔ آس پاس خاصے لوگ ہیں۔ وہ میری آواز تو شاید نہ سن رہے ہوں، پھر بھی میں محتاط انداز میں بتارہا ہوں کہ وہ اس ملک کے شہری ہیں جو اسرائیل کو تسلیم کرچکا ہے۔‘‘ ’’ مسلمان ملک؟‘‘ ’’ جی ہاں۔ ‘‘کیپٹن عارف نے کہا ۔’’ اور اس ملک کا سفارت خانہ اس معاملے میں ایکٹو ہوگیا ہے۔ وہاں سے دو آدمی ہاسپٹل آچکے ہیں۔ پولیس بھی آچکی ہے۔ سفارت خانے والے پوچھ رہے ہیں کہ اس کار والے کو کیوں نہیں پکڑا گیا جس سے ان دونوں کی کار کا حادثہ ہوا ہے۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ ہمیں اس گاڑی کے آس پاس کوئی دوسری گاڑی نظر نہیں آئی لیکن اس کا سراغ لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس پر انہوں نے اس کار کا نمبر بتادیا جو اس وقت آپ کے پاس تھی۔ یہ انہوں نے نہیں بتایا کہ وہ نمبر انہیں کیسے معلوم ہوا ہے۔ جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ اپنے ذریعے کے بارے میں کچھ نہیں بتائیں گے۔ میں نے ان سے کہا ہے کہ ہم اس نمبر کی کار کے مالک کا سراغ لگالیں گے۔ اب آپ بتایئے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟‘‘ میں نے سوچ کر کہا۔ ’’ میں تمھیں چند منٹ بعد فون کرکے بتائوں گی۔‘‘ رابطہ منقطع کرکے میں نے بانو کو صورت حال بتائی۔ ’’ یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ انہوں نے تمھاری کار کا نمبر بتایا ہے۔‘‘ بانو نے کہا۔ ’’ تم ابھی ہاسپٹل چلی جائو تم اس بارے میں کہہ سکتی ہو کہ تمھاری کار کے بارے میں انکوائری ہورہی تھی جس کا علم تمھیں ہوگیا اس کی اطلاع تمھیں کیپٹن عارف نے دی تھی اور اس حادثے کے بارے میں بھی بتایا تھا چنانچہ تم خود ہاسپٹل پہنچ گئی ہو یہ بھی کہنا کہ تمھیں تو اس کا بھی علم نہیں کہ حادثہ کہاں ہوا ہے اور کون مرا اور کون زخمی ہوا ہے، پولیس سے یہ بھی کہنا کہ تمھاری کار دیکھ لی جائے جس میں کہیں ایک ڈینٹ بھی نہیں پڑا ہے جبکہ اتنے بڑے حادثے میں تمھاری کار کو بھی زبردست نقصان پہنچنا چاہیے تھا اور اگر پہنچا تھا تو اتنی جلدی اسے بالکل ٹھیک کوئی بھی نہیں کرا سکتا ۔‘‘ ’’ آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں ۔‘‘میں نے بانو کی باتیں توجہ سے سننے کے بعد کہا ’’ویسے ایک بات اور! اگرچہ اس کا امکان تو نہ ہونے کے برابر ہے کہ مجھے کار کی ملکیت بھی ظاہر کرنی پڑے ۔‘‘ ’’ اس کی نوبت آنے کا کوئی امکان نہیں ‘لیکن تم اس طرف سے بھی مطمئن رہو کار تمھارے نام سے رجسٹر ہوچکی ہے کاغذات ڈیش بورڈ کے خانے میں موجود ہیں ۔‘‘ میں نے حیرت سے کہا ’’ آپ نے اتنی جلدی یہ کام بھی کروا ڈالا۔‘‘ ’’یہ ضروری تھا بس اب فورا روانہ ہوجائو۔‘‘ اچھی خاصی گفتگو کا ستیاناس ہوگیا میں بڑ بڑاتی ہوئی اٹھی ۔’’ مجھے اپنی الجھنیں رفع کرنے کے لیے آپ سے کچھ اور بھی پوچھنا تھا۔‘‘ ’’ تم پھر کسی وقت بھی پوچھ سکتی ہو۔ ‘‘ جب میں بانو کے گھر سے روانہ ہوئی تو یہ سوال میرے دماغ میں گردش کرنے لگا کہ سفارت کاروں کا اتنی جلدی ہاسپٹل پہنچ جانا خاصا معنی خیز ہے انہیں اس کا علم کیسے ہوگیا؟ مجھے ان تین کاروں کا خیال آیا جو وہاں سے فرار ہوگئی تھیں ان ہی میں سے کوئی کسی اور کار میں بیٹھ کر واپس جائے واردات پر پہنچ سکتا تھا اس کے علم میں یہ بات آسکتی تھی کہ ان دونوں آدمیوں کو زندہ یا مردہ کس ہاسپٹل میں پہنچایا گیا تھا۔ ایسی صورت میں وہی لوگ سفارت خانے کو اس کی اطلاع دے سکتے تھے لیکن اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جاسکتا تھا کہ وہ ملک بھی فری میسن لاج کے بارے میں جانتا تھاجس کے سفارت خانے کے لوگ ہاسپٹل میرا تعاقب کرنے والوں میں سے کوئی بھی طالبان ٹائپ نہیں تھا سبھی سفید فارم تھے جس سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ مجھے اغوا کرنے کی کوشش فری میسن لاج کی طرف سے کی گئی تھی یعنی وہ دوست ملک بھی موساد کے ایجنٹوں کا مددگار تھا میرے ذہن میں فری میسن لاج اور اسرائیل کی ایجنسی موساد ایک ہی سکے کے دو رخ تھے ۔ صدف کا یہ خیال کسی حد تک ٹھیک تھا ؟ روزنامہ 92کی آئندہ اقساط پر پڑھیے ۔