بانو اس وقت سونیا سے باتیں کررہی تھیں ۔ میرے منہ سے ’’ارے ‘‘ سن کر وہ فوراًمیری طرف متوجہ ہوئیں ۔ میں نے مائوتھ پیس میں پوچھا ۔’’ آپ خود کس حالت میں ہیں آفیسر؟ ‘‘ ’’ میں بہت معمولی زخمی ہوا ہوں ۔ ایک گولی ہاتھ کو رگڑتی ہوئی گزری تھی ۔ مجھے ہاسپٹل میں داخل نہیں کیا جائے گا ، بینڈج کر کے ہی رخصت کردیا دیا جائے گا ۔‘‘ ’’ اس سلسلے میں اگر کوئی اور ڈیویلپمنٹ ہو تو آگاہ کیجیے گا ۔‘‘ ’’ضرور ! ‘‘ جواب ملا ۔ ’’ اسی لیے تو اس بارے میں بھی آپ کو اطلاع دی۔ ‘‘ بات ختم کرنے کے بعد میں نے بانو سے کہا ۔ ’’ اس موبائل پر حملہ کیا گیا جو ان جعلی سفارت کاروں کو لے کر جارہی تھی ۔ وہ تعداد میں آٹھ دس تھے اس لیے موبائل میں موجود تین کانسٹیبل اور پولیس آفیسران کا مقابلہ نہ کر سکے ۔ دو تو زخمی ہیں ، ایک ہلاک ہوگیا ہے ۔ پولیس آفیسر کو معمولی زخم آیا ہے ۔ واقعہ پولیس اسٹیشن سے کچھ ہی فاصلے پر پیش آیا تھا ۔ وہاں سے مدد جلد ہی آگئی لیکن اتنی ہی دیر میں حملہ آور اپنے دونوں آدمیوں کو چھڑالے گئے۔ ‘‘ ’’ہوں۔‘‘ بانو کے ہونٹ بھنچ گئے ۔ ’’ کیا ہوا کیپٹن ؟‘‘ سونیا نے مجھ سے پوچھا ۔ ابھی وہ اس بات سے واقف نہیں ہوئی تھی کہ مجھے اب ’’کمانڈر‘‘ کہہ کر مخاطب کیا جانا چاہیے ۔ ’’ فی الحال تم کسی واقعے کا اپنے ذہن پر بوجھ نہ لو ۔‘‘ بانو نے مجھ سے کہا ۔ ’’ برائن کی سیکیورٹی بڑھوا دو۔‘‘ ’’ابھی میرے ذہن میں یہ خیال آیاتھا۔ ‘‘ ’’ عین ممکن ہے کہ وہ دونوں ہاسپٹل میں اس وقت تک رکنا چاہتے ہوں ، جب وہ اس سے مل سکیں۔ وہ اسے قتل کر کے فرار ہوجاتے۔ وہ نہیں چاہتے ہوں گے کہ ان کے ساتھی سے پولیس کوئی بات اگلوا لے۔ وہ تو بیچ میں تمھاری کار کا معاملہ آگیا تو انہوں نے سوچا کہ تمھاری کار بھی اندر سے دیکھ لی جائے۔ ‘‘ میں نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے موبائل پر مسٹر داراب سے رابطہ کیا اور ان سے کہا کہ وہ برائن کی سیکیورٹی بڑھا دیں ۔ ’’کوئی پرندہ بھی اس کے کمرے میں پرنہ مار سکے۔ ‘‘ میں نے بات ختم کرتے ہوئے آخر میں کہا تھا ۔ ’’مجھے یہاں سے کب نجات ملے گی کیپٹن ؟ ‘‘ سونیا نے پوچھا۔ ’’ ابھی یہ سب باتیں سن کر مجھے بے چینی ہو گئی ہے ۔میں جلد از جلد ایکٹو ہونا چاہتی ہوں ۔ ویسے بھی اسپتال کی فضا سے دل تو گھبراتا ہے۔ ‘‘ ’’میرا خیال ہے کہ تمھیں کچھ دن یہاں رہنا پڑے گا۔‘‘ سونیا سے چند باتیں کر کے میں اور بانو کمرے سے نکلیں ۔ ’’ میں وہ فائل پڑھنے کے لیے بے چین ہوں۔ ‘‘ میں نے بانو سے کہا ۔ ’’ اب سیدھی گھر ہی جائوں گی۔ ‘‘ ’’نہیں!‘‘ بانو نے نے کہا ۔ ’’ تمھیں میرے ساتھ چلنا ہے ۔اچانک تمھیں جانا پڑ گیا تھا ، میں نے تمھیں جو کار دی ہے ، اس کی کارکردگی کے بارے میں تمھیں سمجھانا ہے اور ایک کام اس سے بھی زیادہ اہم ہے۔ ‘‘ ’’ وہ کیا؟‘‘ ’’ گھر چلو، بتائوں گی۔ ‘‘ میں بانو سے زیادہ بحث نہیں کرتی ، یہ میں کہیں پہلے بھی لکھ چکی ہوں ۔ ہاسپٹل سے میں ان کی کارکے پیچھے اپنی کار چلاتی ہوئی ان کے گھر پہنچ گئی ۔ اس وقت بانو بھی میری کار جیسی کار میں تھیں ۔ انہوں نے بتایا تھا کہ ان کی اس کار کا رنگ سرخی مائل بلیک ہے ۔ حالات اب ایسے ہی ہو گئے تھے کہ بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت تھی ۔ طالبان تو اپنے مرکز کی تباہی سے مشتعل تو تھے ہی ، فری میسن لاج کی صورت میں اب موساد کے لوگ بھی ہمارے پیچھے پڑ گئے تھے ۔ انہوں نے محسوس کیا ہوگا کہ یہ دونوں خواتین بہت زیادہ خطرناک ہیں جو کسی وقت بھی ان کی فری میسن لاج کا سراغ لگا سکتی ہیں ۔ گھر پہنچ کر بانو نے مجھے دو تصویریں دیں ۔ وہ دو آدمیوں کے سائیڈ پوز تھے ۔ دونوں ہی کے پیچھے ایک آدمی اور تھا جو صحیح طور پر دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔ ’’ یہ کون ہیں ؟‘‘ میں نے بانو سے پوچھا ۔ جو دو کاریں تمھاری کا رکے برابر چل رہی تھیں ، یہ دونوں انھی کاروں کے ڈرائیور ہیں۔ جب میں نے تمھاری کار اپنے کنٹرول میں لی تھی تو ان کیمروں کا ورک بھی دیکھا تھا ۔ اس کار میں چاروں طرف خفیہ کیمرے لگے ہوئے ہیں ۔ میں نے ان میں سے کچھ تصویریں اپنے پاس منتقل کر لیں۔‘‘ بانو نے مجھے اورتصویریں دکھائیں جن میںوہ دونوں کاریں تھیں ۔ ’’ ان میں ڈرائیونگ کرنے والوں کے چہرے بہت چھوٹے ہیں جبکہ آپ نے جو پہلے تصویریں دکھائیں ، ان میں صرف چہرے ہیں اوربڑے ہیں ۔ آپ نے کار کاٹ کر ان کے صرف چہرے بڑے کیے ہیں ۔‘‘ ’’ سامنے کی بات ہے جو تمھیں سمجھ ہی لینی چاہیے تھی۔ اب ان تصویروں کے ذریعے تم اپنے محکمے کے لوگوں سے انہیں تلاش کرائو ۔ تصاویر نادرا کو بھی بھیج دو لیکن امکان کم ہے کہ ان کے ریکارڈ میں یہ لوگ ہوں ۔‘‘ ’’ ابھی بھیجتی ہوں ۔ یہ تصویریں اپنے موبائل میں لے لوں۔ ‘‘ ’’ یہ میں اپنے موبائل میں لے چکی ہوں اور تمہارے موبائل کو بھیج چکی ہوں ۔ تم اپنا موبائل دیکھو۔ ‘‘ میں نے فوراً دیکھا ۔ دونوں تصویریں موجود تھیں ۔ وہ میں نے فوراً مسٹر داراب کو بھیجیں اور ان سے کہا ۔ ’’ جن افراد کے پاس کوئی کیس نہ ہو ، انہیں ان تصویروں کی کاپیاں دے دیں ۔ وہ سب اپنا زیادہ تر وقت شہر میں گھومتے ہوئے گزاریں ۔ جہاں بھی کسی کو ان میں سے کوئی نظر آئے ، وہ بہت ہوشیاری سے اس کی نگرانی کرے اور مجھے اطلاع دے۔ ‘‘ جب میں نے رابطہ منقطع کردیا تو بانو نے کہا ۔ ’’ یہ کچھ لمبا پروسس ہے ۔ دیکھتے ہیں کہ ان میں سے کب کوئی نظر آتا ہے ۔ اب میں تمھیں بتاتی ہوں کہ تمھاری الٹرا بلٹ پروف کی اور کیا صفات ہیں۔ ‘‘ ’’ میں خود بھی وہ سب کچھ جاننا چاہتی ہوں ۔‘‘ بانو مجھے اپی لیبارٹری ہی میں لے آئی تھیں ۔ وہ اٹھ کر اس کرسی پر جابیٹھیں جس کے سامنے وہ بورڈ تھا جس کی مختلف ڈیوائسز بہت کچھ کرتی تھیں ۔ بانو نے کچھ کیا اور اسکرین پر میری کار دکھائی دینے لگی ۔ میں بانو کے برابر میں جابیٹھی تھی ۔ بانو نے مجھے کچھ بتانے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ باہر سے بے تحاشا فائرنگ کی آوازیں آنے لگیں ۔ فائرنگ کرنے والے کون تھے ؟ کیوں کررہے تھے ؟ کل کے روزنامہ 92 میں ملاحظہ فرمایے !