وہ آوازیں سن کر میں بے اختیار کھڑی ہوگئی ۔ ’’ یہ کیا!‘‘ بانو کے چہرے پر سنجیدگی تھی ۔ وہ بولیں۔ ’’پاگل ہو گئے ہیں یہ لوگ ! جنون طاری ہوگیا ہے ان پر ہم دونوں کی وجہ سے ! یہ بس کسی طرح ہم دونوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں ۔ فائرنگ کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم باہر نکلیں اوروہ کسی طرح ہم دونوں کو نشانہ بنا دیں۔ ‘‘ پھر بانو بورڈ کی طرف متوجہ ہوگئیں ۔ میں نے مضطربانہ انداز میں کہا ۔ ’’ یہ گولیاں گھر کی بیرونی دیواروں کا پلاسٹر ادھیڑ رہی ہوں گی ، پھاٹک کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہوگا۔ ‘‘ بانونے بورڈ پر کچھ کرتے ہوئے کہا ۔ ’’میرا خیال ہے کہ یہ ہوائی فائرنگ ہے ۔ اگر گولیاں گھر پر برس رہی ہوتیں تو کوئی نہ کوئی ملازمہ گھبرائی ہوئی یہاں آجاتی۔ ‘‘ میں نے دیکھا کہ اسکرین پر سے وہ منظر ہٹ گیا اور چار چوکھٹوں میں باہر کی چار سمتوں کے منظر دکھائی دینے لگے ۔ فائرنگ کی وجہ سے لوگوں میں بھگ دڑ مچ گئی ہوگی ۔ سب اس جگہ سے دور چلے گئے تھے اور دکھائی نہیں دے رہے تھے ۔ جو گاڑیاں اس طرف آجا رہی ہوں گی ، انہوں نے فائرنگ کی وجہ سے دور رک جانا ہی اپنے حق میں بہتر جانا ہوگا ۔ اس وقت وہاں بالکل سناٹا تھا ۔ آس پاس رہنے والے اگر باہر ہوں گے تو وہ بھی اپنے گھروں میں جاگھسے ہوں گے ۔ ’’یہ منظر لاتی ہوں سامنے۔ ‘‘ بانو نے ایک چوکھٹے میں دکھائی دینے والے منظر کی طرف اشارہ کیا ۔ فوراً ہی باقی تین چوکھٹے غائب ہوگئے اور جس منظر کی طرف بانو نے اشارہ کیا تھا ، وہ پوری اسکرین پر دکھائی دینے لگا ۔ بانو نے زوم کیا تو اسٹریٹ لائٹ کا ایک کھمبا نظر آیا جس کی آڑ میں کوئی شخص چھپا ہوا تھا ۔ جب وہ ہوائی فائر کرتا تو اس کا ہاتھ دکھائی دے جاتا ۔ ہوائی فائرنگ کے بارے میں بانو کا خیال درست تھا ۔ ’’انہیں ایک اچھا سب دینے کا موقع ہے ۔‘‘ بانو نے کہا ۔ بورڈ پر ان کے ہاتھ تیزی سے حرکت کررہے تھے۔ میں نے اسکرین پر اپنی کار دیکھی ۔ ’’ اب میں اسے اپنے کنٹرول میں لے رہی ہوں۔‘‘ بانو نے کہا ۔ میں توجہ سے اسکرین کی طرف دیکھنے لگی،بلکہ توجہ سے ہی دیکھ رہی تھی۔میں نے اسکرین کے اسپیکر سے ایسی آواز سنی جیسے انجن اسٹارٹ ہوا ہو، اور پھر کار کو حرکت میں آتے ہوئے بھی دیکھا ۔ وہ پھاٹک کی طرف جارہی تھی جو بند تھا۔ بانو نے بورڈ کے برابر میں دیوار سے لگے ہوئے انٹر کام کا ایک بٹن دبایا اور پھاٹک کھلتا چلا گیا ۔ میری کار پھاٹک سے گزر گئی ۔ بانو کے ہاتھ بور ڈ پر مسلسل حرکت کررہے تھے ۔ اسکرین سے وہ منظر غائب ہوگیا اور وہ منظر زوم کی حالت میں سامنے آگیا جس میں کوئی کھمبے کی آڑ سے ہوائی فائرنگ کررہا تھا ۔ اس کے ساتھی دوسرے مقامات پر چھپے ہوائی فائرنگ کررہے ہوں گے ۔ یکایک فائرنگ کی آوازوں میں پہلے سے زیادہ شدت آگئی ۔ ’’کچھ اور لوگ بھی آگئے کیا؟‘‘ میرے منہ سے بے اختیار نکلا ۔ ’’نہیں۔‘‘ بانو نے جواب دیا ۔ اسی وقت میں نے دیکھا کہ اس کھمبے سے چنگاریاں پھوٹی تھیں ۔ ایسا لگا تھا جیسے کھمبے سے کوئی گولی ٹکرائی ہو ۔ ’’ یہ کیا!‘‘ میں پھر بے اختیار بولی ۔ ’’اس پر کس نے گولی چلائی؟ ‘‘ ’’تمھاری کار نے۔ ‘‘ بانو نے جواب دیا ۔ ’’ کیا مطلب؟‘‘ میں چونکی ۔ ’’ کار کے خفیہ حصے سے گولیاں نکل رہی ہیں ، مسلسل نکل رہی ہیں ۔ نشانہ کسی کا نہیں لیا گیا ہے ۔ بس ہر طرف گولیوں کی برسات ہو گئی ہے ۔‘‘ ’’ اور میری کار سے ! ‘‘ میں ہونق سی گئی ۔ بانو ہنسیں ۔ ’’ ابھی تو بتایا ہے ! …تمھاری ہی کار کے مختلف حصوں سے گولیاں نکل رہی ہیں ۔‘‘ ’’ مائی گاڈ !…یہ کیا بنا دیا ہے آپ نے میری کار کو ؟ ‘‘ اس وقت یکایک فائرنگ کی آوازیں بہت کم ہوگئیں ۔ غالباًپولیس موبائل تھی۔ بانو پھر ہنسیں ۔ ’’بھاگ نکلے ہیں وہ لوگ !…اب جو فائرنگ ہورہی ہے ، وہ تمھاری کار سے ہورہی ہے جس کی اب ضرورت نہیں رہی ۔ روکتی ہوں یہ فائرنگ۔ ‘‘ اور پھر سناٹا چھا گیا ۔گولیاں بند ہوچکی تھیں۔ اب بانو میری کار اسکرین پر لائیں ۔ وہ ریورس گیئر میں چلتی ہوئی پھاٹک کی طرف لوٹ رہی تھی ۔ سائرن کی آواز سنائی دینے لگی جو تیزی سے قریب آتی جارہی تھی ۔ میری کار پھاٹک سے اندر آگئی ۔ بانو نے ڈور انٹر کام کا ایک بٹن دبایا اور پھاٹک بند ہوتا چلا گیا ۔ کار پیچھے آتی چلی گئی اور اس جگہ نہیں رکی جہاں وہ میں نے کھڑی کی تھی ۔ ’’کہاں لے جارہی ہیں آپ اسے ؟‘‘ میں نے جلدی سے پوچھا ۔ ’’دیکھو۔‘‘ انہوں نے اسکرین کی طرف اشارہ کیا ۔ ’’میری نظروہیں تو جمی ہوئی ہے ! ‘‘ اسکرین پر یکایک منظر بدلا ۔ کلوز اپ میں ایک شٹر دکھائی دینے لگا ۔ پھر میں نے شٹر کو اوپر اٹھتے دیکھا ۔ ’’ یہ کیا؟‘‘ میرے منہ سے نکلا ۔ ’’گیرج ہے ۔‘‘ بانو نے جواب دیا ۔ پھر میں نے اپنی کار دیکھی جو بہ دستور ریورس گیئر میں چل رہی تھی ۔ وہ اسی طرح گیرج میں داخل ہو کر رک گئی ۔ بانو نے اس کا انجن بند کردیا ۔ پھر شٹر گرتا نظر آیا ۔ ’’ یہ کیوں ؟ ‘‘ میں نے پوچھا ۔ ’’ پولیس آرہی ہے ، بلکہ آچکی ہے ۔‘‘ سائرن کی آواز کسی جگہ رک گئی تھی ۔ شاید بانو کے گھر کے سامنے یا اس کے آس پاس ! ’’ اب یہ کم بخت تمھاری کار کے قریب آتے ہوئے بھی گھبرائیں گے ۔‘‘ بانو نے مسکراتے ہوئے کہا ۔ ’’ لیکن اسے گیرج میں بند کرنے کی کیاضرورت ہے ؟ ‘‘ ’’ پولیس کو لوگوں سے معلوم ہوگا کہ اس گھر سے ایک کار نکلی تھی اور اس کے نچلے حصے سے گولیاں برسنے لگی تھیں ۔ پولیس ضرور پوچھ گچھ کرنے کے لیے آئے گی ۔‘‘ ’’ تو وہ کار دیکھنے کا مطالبہ بھی کرے گی ۔ انہیں یہ عجیب تو لگا ہوگاکہ کار کے نچلے حصے سے گولیاں برسی تھیں ۔‘‘ ’’ہاں تو دکھادی جائے گی۔ ‘‘ بانو نے بے پروائی سے کہا اور پھر کھڑی ہوتی ہوئی بولیں۔ ‘‘ چلو ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر چائے پیتے ہیں ۔ ویسے تمھیں یہ سب کچھ کیسا لگا ؟ ‘‘ یوں محسوس ہورہا تھا جیسے ہالی وڈ کی کوئی ایکشن مووی دیکھ رہی ہوں۔ ‘‘ ہم دونوں ڈرائنگ روم میں آگئے ۔ بانو نے ایک ملازمہ سے چائے کے لیے کہا ۔ ’’پولیس کو کار دکھا دیں گی ؟ ‘‘ میں نے کچھ پریشانی سے کہا ۔ ’’ہاں۔‘‘ میں ان کا منہ تکتی رہ گئی ۔ ہم چائے پی چکے تھے کہ ایک ملازمہ نے پولیس کی آمد کے بارے میں اطلاع دی ۔ کیا صدف کی کار پریشانی کا سبب بنی ؟ کل کے روزنامہ 92نیوز میں ملاحظہ فرمائیں !