بانو نے ملازمہ کو ہدایت کی۔ ’’ان لوگوں کو ڈرائنگ روم میں بٹھائو۔‘‘ ’’ کیا کہا جائے گا ان لوگوں سے ! ‘‘ میرے لہجے میں تشویش تھی۔بانو نے جواب دیا اور پھر موبائل پر کسی سے رابطہ کرنے لگیں ۔ رابطہ قائم ہونے پر بولیں ۔ ’’ تین نمبر گیرج سے کار نکال کر پورچ میں کھڑی کردو۔‘‘ اس بات سے میں نے سمجھ لیا کہ یہ ہدایت انھوں نے اپنے شوفر کو دی تھی جو ایک لڑکی ہی تھی ۔ ایک آدھ مرد کے علاوہ انھوں نے صرف لڑکیوں ہی کو ملازم رکھا تھا ۔ میں بولی ۔ ’’ جب کار پولیس کو دکھانی ہی تھی تو گیرج میں بند کرنے ہی کی کیاضرورت تھی؟ ‘‘ ’’جان لوگی ، آئو! ‘‘ بانو کھڑی ہوگئیں ۔ میں اور وہ جب ڈرائنگ روم میں پہنچیں اسی وقت پولیس کے تین افراد بھی ڈرائنگ روم میں آرہے تھے جن کی رہ بری ملازمہ ہی نے کی تھی ۔ ان تینوں میں ایک ہیڈ کانسٹیبل ، ایک کانسٹیبل اور ایک انسپکٹر تھا۔ ’’فرمائیے ! ‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’ میں آپ کی کیا خدمت کرسکتی ہوں ؟ ‘‘ پھر انھوں نے ان سے بیٹھنے کے لیے بھی کہا ۔ ’’ آپ کے چند پڑوسیوں نے ایک عجیب و غریب بات بتائی ہے ۔ میں اس کی تصدیق کرنا چاہتا ہوں۔ ‘‘ انسپکٹر نے کہا ۔ ’’ یقین کیجیے !‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’ باہر جو ہوائی فائرنگ ہوتی رہی ہے ، اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ ‘‘ ’’بات دوسری ہے۔ ‘‘ انسپکٹرنے کہا ۔ ’’ اور کسی حد تک ناقابل یقین بھی لیکن کیوں کہ آپ کے کئی پڑوسیوںنے ایک ہی بات بتائی ہے اس لیے میں اس بارے میں تصدیق کرنا چاہتا ہوں ۔‘‘ ’’ ایسی کیا بات ہے انسپکٹر؟ ‘‘ بانو کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی ۔ میں سنجیدہ ہی رہی تھی ۔ انسپکٹر بولا ۔ ’’جولوگ ہوائی فائرنگ کررہے تھے ، ان کا مقصد صرف دہشت پھیلانا ہوگا ۔ اس بارے میں تو چھان بین کی ہی جائے گی لیکن اس ہوائی فائرنگ کے وقت آپ کے گھر سے ایک کار باہر نکلی تھی ۔ اس کار کے نچلے حصے سے ہر طرف گولیاں برسنے لگی تھیں ۔ گوکہ ہوائی فائرنگ کی وجہ سے لوگ اپنے گھروں میں محدود ہوگئے تھے لیکن بعض لوگ کھڑکی سے جھانک بھی رہے تھے ۔ ان میں سے ایک نے ہمیں اس کار کے بارے میں بتایا ہے ۔ ان کے بیان کے مطابق کار میں ڈرائیور نہیں تھا لیکن پھر بھی وہ آپ کے گھر سے نکلی تھی اور واپس بھی آپ کے گھر میں گئی تھی ۔ مجھے اس کار کا نمبر بھی بتایا گیا ہے اور یہ بھی کہ وہ سوئپ ٹیل رولزرائس تھی ۔‘‘ ’’ بہت خوب !‘‘ بانو ہنسیں ۔ ’’سوئپ ٹیل رولز رائس تو ان کی ہے۔ ‘‘ انھوں نے میری طرف اشارہ کیا۔’’ اور یہ بھی درست ہے کہ یہ اپنی کار میں باہر نکلی تھیں ۔ یہ دیکھنا چاہتی تھیں کہ فائرنگ کون کررہا ہے اور کیوں رہا ہے ۔ یہ بات کہ کسی صاحب کو کار کا ڈرائیور دکھائی نہیں دیا تھا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تقریباً لیٹ کر ڈرائیونگ کررہی تھیں ۔ باہر سے انھیں دیکھا نہیں جاسکتا تھا لیکن یہ ان صاحب نے خواب میں ہی دیکھا ہوگا کہ اس کار کے نچلے حصے سے گولیاں برس رہی تھیں۔ ‘‘ ’’ کیا میں وہ کار دیکھ سکتا ہوں ؟‘‘ ’’جی دیکھ لیں ۔‘‘ یہ مجھے کہنا پڑا ۔ ’’آئیے !‘‘ بانو انسپکٹر سے کہتی ہوئی کھڑی ہوگئیں۔ دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے انسپکٹر نے پوچھا۔ ’’انھیں یہ خوف نہیں تھا کہ جو فائرنگ ہو رہی تھی ، وہ ان کو بھی نقصان پہنچا سکتی تھی ؟ ‘‘ ’’ ان کی کار بلٹ پروف ہے۔ ‘‘ ’’اوہ!‘‘ ہیڈ کانسٹیبل اور کانسٹیبل ان کے پیچھے چل رہے تھے ۔ پورچ میں کار کھڑی تھی ۔ انسپکٹر نے پہلے اس کا نمبر دیکھا ، پھر کا رکے نچلے حصے کو دیکھتے ہوئے اس کے گرد چکر لگایا ۔ بانو خاموشی سے ایک طرف کھڑی اسے دیکھتی رہیں ۔ میں ان کے ساتھ تھی ۔ انسپکٹر ہمارے قریب آیا ۔ ’’میں کار کو اندر سے بھی دیکھنا چاہوں گا ۔‘‘ اس نے مجھ سے کہا ۔ میں پریشان ہوجاتی ہوں لیکن بانو بول پڑیں ۔ ’’ضرور دیکھیے۔‘‘ انھوں نے مجھے اشارہ کیا ۔ میں نے چابی انسپکٹر کو دے دی لیکن اب میں خاصی الجھن میں مبتلا ہوگئی ۔ انسپکٹر کو کار میں اسکرین اور بہت سے بٹن تو نظر آجاتے ۔ وہ ان کے بارے میں بھی سوال کرسکتا تھا ۔ نہ جانے بانو کے ذہن میں کیا بات تھی ؟ انھوں نے جانے کیوں ’’پسپائی‘ ‘جیسا انداز اختیار کیا تھا ۔ اگر ان کا وہ انداز نہ ہوتا تو ایس آئی ایس سے اپنے تعلق کے باعث میں اسے ڈانٹ بھی سکتی تھی ۔ انسپکٹرنے کار کا دروازہ کھول کر ایک ڈیڑھ منٹ تک اندر دیکھا ، پھر دروازہ لاک کر کے ہمارے قریب آیا اور چابی مجھے لوٹاتا ہوا بولا ۔ ’’ آپ کے تعاون کا شکریہ ! …‘‘یہاں جو فائرنگ ہوئی اور آپ کار لے کر باہر نکلیں ، اس کی رپورٹ توتیار کرنی ہوگی ۔ اس کے لیے آپ کا بیان بھی ضروری ہے ۔ آپ کچھ دیر بعد پولیس ہیڈ کوارٹر آکر اپنا بیان ریکارڈ کروادیں ۔ امید ہے آپ قانون سے تعاون کریں گی۔ ‘‘ میری بہ جائے بانو بول پڑیں ۔ ’’ ضرور۔‘‘ انسپکٹر اپنے دونوں آدمیوں کے ساتھ اس طرف بڑھ گیا جہاں پولیس موبائل کھڑی تھی ۔ ’’ اس نے کار میں وہ سب کچھ نہیں دیکھا؟ ‘‘ میں نے جلدی سے بانو سے کہا ۔ ’’ہاں ۔ اس نے اس بارے میں کوئی سوال نہیں کیا۔ کار تم بھی اندر سے دیکھ لو !‘‘ بانو نے سنجیدگی سے کہا ۔ پولیس موبائل اس وقت پھاٹک کی طرف جارہی تھی ۔ ’’ میں کیا دیکھوں گی؟‘‘ ’’ دیکھ تو لو ! ‘‘ عجیب سی بات تھی بانو کی ، لیکن میں کار کے پاس گئی اور دروازہ کھول کر اندر ہی بیٹھ گئی ۔ اس وقت میرے دماغ کو جھٹکا سا لگا ۔ یہ وہ کار ہرگز نہیں تھی جو بانو نے مجھے دی تھی ۔ وہاں مجھے وہ سب کچھ نظر نہیںآیا جو الٹرا بلٹ پروف کار میں تھا ۔ میں بوکھلا کر کار سے اتری تو بانو قریب آگئی تھیں اور ہنس رہی تھیں ۔ ’’کیا مطلب!‘‘ میرے منہ سے نکلا ۔ ’’ سرپرائز دیا ہے تمھیں ۔‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’ یہ وہ کار نہیں ہے پگلی !…ہاں البتہ ہے بالکل ویسی ہی ! یہ میں نے اسی لیے رکھی تھی کہ ایسے ہی کسی موقع پر اسے کام میں لایا جاسکے ۔ آئندہ بھی ایسی کوئی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے ۔ میرا دماغ خراب نہیںہے کہ میں اسے تمھاری کار دکھا دیتی ۔ وہ اسی گیراج میں ہے جہاں تم اسے جاتے دیکھ چکی ہو ۔ مجھے خیال تھا کہ ایسی کوئی صورت حال پیش آسکتی ہے لہٰذا میں نے اسے چھپانا ہی مناسب سمجھا تھا ۔‘‘ ’’مائی گاڈ !‘‘ میرے منہ سے نکلا ۔ ’’میری تو اس وقت جان نکل گئی تھی جب وہ کار کو اندر سے دیکھ رہا تھا ۔‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’اب یہ کار گیراج نمبر تین میں واپس چلی جائے گی اور تمھاری کار یہاں لے آئی جائے گی ۔ آئو اب اندر چلیں۔ ‘‘ انھوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر واپسی کے لیے قدم بڑھایا ۔ ’’ تاریک دریچے ‘‘ میں نئے ہنگامے ! کل کے روزنامہ 92 نیوزمیںملاحظہ فرمائیں !