شیخوپورہ ایک تاریخی شہر ہے، جس کا پرانا نام وِرک گڑھ تھا۔ مغل فرماں روا نور الدین جہانگیر سلیم شیخو کی شکار ہونے پر اِسے شیخوپورہ کا نام دیا گیا۔ آج سے چار سو سال قبل اپنے پیارے ہرن منسراج کی یاد میں اسی کے ہاتھوں ہرن مینار کی تعمیر عمل میں آئی، جو ایک انوکھی تاریخی ، تفریحی یادگار کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ آج اسی لاڈلے ہرن کی رعایت سے یہاں کے اکلوتے گورنمنٹ کالج کے طلبہ کو ’منسراجین‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے، جہاں چھبیس مارچ کو پرنسپل ڈاکٹر امان اللہ بھٹی کی سرکردگی میںالمنائی کی شاندار تقریب منعقد کی گئی۔ علاوہ ازیں ہمایوں بازار، اکبر بازار، جہانگیر بازار، شاہجہاں سٹریٹ اور شاہی قلعہ بھی مغلیہ دور کی واضح نشانیوں کے طور پر موجود ہیں۔ شیخوپورہ بیک وقت صنعتی اور زرعی علاقہ ہونے کی بنا پر پنجاب کا کماؤ پُوت ہے۔ ننکانہ صاحب کے علاحدہ ہونے سے پہلے اسے پنجاب کا سب سے بڑا ضلع ہونے کا اعزاز بھی حاصل تھا، جس کی سرحدیں امرتسر سمیت سات اضلاع سے ملتی تھیں۔ صوبائی دارالحکومت سے بہت قریب ہونے کی بنا پر اسے لاہور کا چھوٹا بھائی بھی کہا جاتا ہے۔ افسوس کہ بڑے بھائی نے ہمیشہ اس کے ساتھ ’برادرِ خُرد‘ والا سلوک ہی روا رکھا ہے۔ تمام صوبائی حکومتوں کو یہاں کسی ڈھنگ کے ادارے، یونیورسٹی، میڈیکل کالج، ایئرپورٹ، بڑے ہوٹل، نئے تفریحی پارک وغیرہ کی تعمیر کی توفیق نہ ہو سکی۔ حالانکہ اس سے لاہور جیسے مصروف شہر کے کندھوں کا بوجھ کافی حد تک ہلکا کیا جا سکتا تھا۔ شاید اس طرح لاہور جیسے تاریخی مقام کو دنیا کا گندا ترین شہر ہونے کا طعنہ بھی نہ سننا پڑتا۔ سیاست دان یہاں کے ہمیشہ ویسے ہی گزارہ لائق رہے ہیں، وہ بھی اپنے اپنے گزارے لائق۔ محمد حسین چٹھہ اور حنیف رامے کے علاوہ کوئی بھی قومی درجے کی سیاسی شخصیت دکھائی نہیں دیتی۔ آج سے ربع صدی قبل یہاں کے ایک ڈپٹی کمشنر شفقت نغمی نے معروف کرکٹر عاقب جاوید کی مشاورت اور مقامی تجار کی معاونت سے سڈنی کرکٹ گراؤنڈ کی طرز پر بین الاقوامی درجے کا ایک سٹیڈیم تعمیر کروایاتھا، جو ایک مدت سے اچھی کرکٹ کو ترسا ہوا ہے۔ لمحۂ موجود کے ڈپٹی کمشنر کا نام رانا محمد شکیل اسلم ہے، جن کا تعلق ایک معروف سیاسی گھرانے سے ہے۔ وہ انتظامی سُوجھ بُوجھ رکھنے والے نہایت ذمہ دار افسر ہیں۔ماحول اور حالات کی اونچ نیچ کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ وہ یہاں کے تاریخی اہمیت کے حامل مقامات کے لیے مناسب حفاظتی بندوبست کرنے کے ساتھ انھیں مرجعِ خلائق بنانے میں بھرپور کردار ادا کریں گے۔ مجھے یقین ہے کہ آج بھی اگر اس ضلع کے بعض مقامات مثلاً خان پور نہر، جنڈیالہ شیر خاں، ہرن مینار، شاہی قلعہ وغیرہ کو سیاحت و ثقافت کے حوالے سے خصوصی توجہ دی جائے تو اہلِ لاہور بلکہ پورے صوبے کے لیے نہایت کار آمد، روح پرور اور زود یاب تفریح میسر ہو سکتی ہے، جس سے اس شہر کے سافٹ امیج کے ساتھ ساتھ زرِ مبادلہ میں بھی خاطر خواہ اضافہ ممکن ہے۔ مقبرہ جہانگیر سے ہرن مینار تک سفر اور قیام کی سہولتوں کو بہتر بنا کے بھی سیاحوں کی توجہ مبذول کی جا سکتی ہے۔ آج کل میرے اس شہر میں 1922 ء میں ضلع بننے کی سو سالہ تقریبات چل رہی ہیں۔ رانا صاحب کے بقول اس شہر کو یہ اعزاز دو فروری انیس صد بائیس (2-2-22) کو حاصل ہوا تھا۔ اس اہم ترین سال میں اگر ہرن مینار کے مقام پر کسی بڑے ہوٹل کے قیام کی منظوری حاصل کی جائے، نیز شیخوپورہ کی تاریخ بھی نئے سِرے سے لکھوائی یا مرتب کروائی جائے، جس میں مختلف شعبوں اور محکموں کی کارکردگی کے ساتھ ساتھ ادبی، سیاسی، ثقافتی صورتِ حال کا ایک سَو سالہ مبسوط جائزہ پیش کیا جائے تو یہ بھی ضلعی انتظامیہ کا اہم کارنامہ سمجھا جائے گا۔ اس سال کے آغاز ہی سے شیخوپورہ میں مختلف فورمز پر کئی طرح کی تقریبات کا آغاز ہو چکا ہے۔ میرے لیے تو ان تقریبات کا سلسلہ پندرہ جنوری سے شروع ہو گیا تھا،جب میری مادرِ علمی گورنمنٹ کالج شیخوپورہ میں ’بزمِ شیرانی‘ کے پلیٹ فارم سے پروفیسر خرم عباس ورک ،پرنسپل حافظ ثناء اللہ اور دیگر احباب کے تعاون سے میری نئی کتاب ’’زاویے‘‘ کی تقریبِ پذیرائی منعقد ہوئی، جس کی صدارت جناب ڈاکٹر نجیب جمال نے کی ۔ ڈاکٹر علی محمد خاں اور رانا شکیل اسلم مہمانانِ خصوصی تھے۔ بیس فروری کو ہم دوستوں نے مع اہلِ خانہ ہرن مینا ر شیخوپورہ اور سید وارث شاہ کی جنم بھومی کا بھرپور دورہ کیا۔ ہیر خوانی کی سماعت اور بارہ دری کی قریبی زیارت سے مستفید ہوئے۔ چھبیس فروری کو معروف شاعر ادیب اور ادارۂ تالیف و ترجمہ جامعۂ پنجاب کے ڈائریکٹر جناب ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی کتاب ’’دو کوزہ گر‘‘ کی تقریب بھی بزمِ شیرانی کی محبتوں کے سائے تلے برپا ہوئی۔ ستائیس فروری کو شیخوپورہ میںتین دہائیوں سے علم و ادب کی اعلیٰ اقدار کے لیے وقف علمی و ادبی تنظیم ’دریچہ‘ کے زیرِ اہتمام شاندار مشاعرے کا انعقاد فاطمہ جناح لائبریری میں عمل میں آیا۔مشاعرے کی صدارت جناب عباس تابش نے کی۔ مہمانانِ خصوصی میں شاہین عباس، عظمیٰ جون، سجاد بلوچ، عنبرین صلاح الدین، عدنان بیگ اور احسان الحق مظہر تھے۔ تنظیم کے روحِ رواں ارشد نعیم نے میزبانی کی ذمہ داری کو خوب نبھایا۔ شعر شناس لوگوں کی اچھی خاصی تعداد آخر دم تک مشاعرے سے محظوظ ہوتی رہی۔ میرا یہ ضلع کئی دیگر حوالوں سے بھی قابلِ ذکر رہا ہے۔ یہ سکھ دھرم کے بانی گرو نانک کی جنم بھومی ہے۔ یہاں گنگا رام جیسی سماج سیوا اور انسان دوستی کے جذبات سے لبالب شخصیت پیدا ہوئی۔ صحافت میں حمید نظامی اور وقار انبالوی اسی ضلع کے سپوت ہیں۔ ادبی حوالے سے بھی یہ ضلع ہمیشہ نمایاں اہمیت کا حامل رہا ہے، جس کا خوشبو دار سلسلہ وارث شاہ سے ہوتا ہوا، میاں جان محمد وِرک، کلونت سنگھ وِرک، سید امین گیلانی، منشا یاد، ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی، پروفیسر افضل علوی، صدیق شاہد، عبدالجبار شاکر، بشیر باوا، ماسٹر الطاف، انتصار عابدی،صدیق تاثیر، انور علیمی، پروفیسر اکرم سعید، اصغر علی جاوید، شاہین عباس، طاہر جمیل، خالد ندیم، ارشد نعیم، سلمان گیلانی، حامد ظہور، ابرار حامد، فضل محمود،جواز جعفری،نوید رضا، اشرف نقوی، اظہر عباس، اکرم سرا، نعیم گیلانی، عزت مآب، نگہت خورشید،حرا رانا، جمیلہ یونس ، زینت فردوس اور دیگران تک پھیلا دکھائی دیتا ہے۔فی الحال صد سالہ تقریبات کے سلسلے کی سب سے بڑی تقریب تئیس مارچ کی شام ہرن مینار (جسے کبھی ہمٹونکل ٹونکل ہرن مینار کے ردھم کے ساتھ یاد کیا کرتے تھے) کے تاریخی مقام پر دیکھنے میں آئی۔میرے خیال میں یہ شیخوپورہ کی تاریخ میں سب سے بڑا کلچرل ایونٹ تھا، جسے نہایت عمدہ طریقے سے منعقد کیا گیا۔ یہاںمختلف نوعیت کے سو سے زیادہ سٹالز اور تمام صوبوں کی ثقافت کی بھرپور نمائندگی دیکھنے میں آئی۔پھر سیکورٹی، لائٹنگ اور تفریح، ہر حوالے سے تقریب بہت خوب صورت اور قابلِ رشک تھی، جس کا سہرا یقینا رانا شکیل اسلم اور ان کی پوری نوجوان ٹیم بالخصوص ڈی پی او فیصل مختار اور اے ڈی سی جی موسیٰ علی رضا کو جاتا ہے۔ آخر میں مَیں اپنے اس پیارے، نیارے، راج دُلارے شہر کے بارے میں یہی کہوں گا: اِک قریۂ کمال ہے شیخوپورہ مِرا سَو سال کا جمال ہے شیخوپورہ ِمرا