آبا ؤ اجداد… مبینہ یا میسر شجرے کے مطابق آدمؑ سے شیث، انوشن، کنعان سے ہوتا ہوا درجنوں پیڑھیاں بعد ’وِرک‘ نام کا ایک بزرگ ملتا ہے اور اس کے بعد اجے پال، مہندر، نورتھ سنگھ، دلیپ، منہاس، دیوان، آہن، جَس، کڑیال (جنڈیالہ شیر خاں کے قریب اسی نام کے تین گاؤں (کڑیال کلاں، کڑیال خُرد، بُڈھی کڑیال موجود ہیں) معروف شاعر تنویر بخاری کا تعلق کڑیال کلاں سے تھا)… بھکھی (شیخوپورہ سے چند کلومیٹر فیصل آباد روڈ پر واقع قصبہ نما گاؤں، جہاں ایک گرڈ اسٹیشن بھی موجود ہے، جس کا ہر نئے آنے والے سیاست دان کو جعلی کریڈٹ لینے کے لیے افتتاح کرنا ہوتا ہے) کالیا، چنن، میلو، راجا، امیر سنگھ، کلاس، فتح، بھویا، ہویا (اس کے نام پہ ہمارا آبائی گاؤں ہوئیکے ہے) رنسیں، ہندال، ہیبو (بتاتا چلوں کہ ان میں سے بیشتر کے ناموں کے گاؤں بھی شیخوپورہ، گوجرانوالہ، نوشہرہ وِرکاں کے آس پاس آج بھی موجود ہیں) اور بہترویں نسل میں چوڑھ سنگھ نامی شخص اسلام قبول کر لیتا ہے۔ اس سلسلے میں دس بیس سال قبل پیش آیا ایک دلچسپ واقعہ یاد آ رہا ہے۔ شیخوپورہ میں بے تکلف احباب کی ایک محفل برپا تھی کہ ہمارے ایک دور پار کے کزن اور سیاسی برادر ابنِ سعود وِرک (جو پرانا شہر شیخوپرہ میں مقیم تھے اور شیخوپورہ سے ایم پی اے کی نشست کے لیے بالعموم پی پی پی کے امیدوار ہوا کرتے تھے) نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ: ’’ساڈے وڈے سِکھوں مسلمان ہوئے سی‘‘ (ہمارے بڑے سکھوں سے مسلمان ہوئے تھے) طاہر جمیل جو عمدہ خطاط اور شگفتہ شاعر ، شہر کی ادبی سرگرمیوں کا ایک بڑا محرک ہونے کے ساتھ ساتھ مہا جملے باز بھی تھا، جھٹ بولا: ’’اچھا… پر ساڈے وڈے تے دِلوں مسلمان ہوئے سن!!! (پر ہمارے بڑے تو دل سے مسلمان ہوئے تھے) تہترویں نسل میں عمر دین وِرک، پھر بالترتیب میاں مراد وِرک، میاں انور وِرک ، میاں جان محمد وِرک، میاں شرف دین وِرک، میاں شمیر وِرک، میاں چراغ دین وِرک (پردادا) میاں محمد حنیف وِرک (دادا)میاں نذیر احمد وِرک (والد) اور اس کے بعد راقم بقلم خود۔ ( میاں، جو ہمارے ہاں بالعموم ارائیں فیملی، مسجد کے مولوی یا شوہر کے لیے مخصوص لقب، سابقہ یالفظ ہے۔ یہ انکشاف بھی کرتا چلوں کہ راقم جوں ہی شہر کی رونقیں اور ہنگامے چھوڑ کے کبھی گاؤں کی ویرانیوں اور آسانیوں کا رُخ کرتا ہے، تو دس بیس دیہات کی حدود میں داخل ہوتے ہی ڈاکٹر اشفاق کی بجائے ’میاں اشفاق‘ سے موسوم ہونے لگتا ہے… یہ بھی وضاحت کرتا چلوں کہ خاندان کے مذکورہ بالا بزرگ میاں مراد وِرک کے علم و فضل یا خود شناسی و خدا شناسی کی بنا پر انھیں احتراماً ’میاں‘ کا سابقہ عطا کیا گیا تھا) ہمارے خاندان کے دو بزرگوں کی کرامات اور عروس کی پورے علاقے میں دھوم ہے۔ان میں ایک میاں جان محمد وِرک ہیں کہ جن کا مزار حافظ آباد کے قریبی گاؤں لویرے میںواقع ہے اور جہاں دیسی مہینے ہاڑ کی دوسری جمعرات کو ان کا سالانہ عرس منعقد ہوتا ہے۔ میاں جان محمد فارسی زبان کے شاعر بھی تھے۔ ان کا ذکر میاں محمد بخش کے کلام اور برِ صغیر کے فارسی شعرا کے تذکروں میں بھی ملتا ہے۔ ان کا زمانہ مہاراجا رنجیت سنگھ والا ہے۔ پورے علاقے میںمشہور ہے کہ رنجیت سنگھ (کہ جس کی کل چھتیس بیویاں بتائی جاتی ہیں) کی ایک محبوب بیوی موراں (جو اپنے زمانے کی معروف طوائف تھی، حسن و جمال میں یکتا تھی، اور موراں کنجری کے نام سے معروف تھی) وہ میاں جان محمد کی خاص عقیدت مند تھی ، مبینہ طور پروہ حقہ پیتی تھی (دیہات میں بزرگ خواتین کے حقہ پینے کی روایت ہماری ایک نسل اوپر تک تو رائج تھی، اب شاید ناپید یا بہت کم ہے) ایک روایت کے مطابق رنجیت سنگھ سِکھوں کے مذہب میں حقے کی سخت مناہی کے باوجود، موراں کو اپنے ہاتھ سے حقہ پخا کے (تیار کر کے)دیتا تھا۔ یہ بات بھی زبان زدِ عام ہے کہ میاں جان محمد کا مزار اور اس سے متصل مسجد بھی موراں نے تعمیر کرائی تھی، جن کی دیواروں کی چوڑائی، اس زمانے کی خاص تعمیرات کے مطابق پانچ فٹ ہے۔ ایک زمانے میں کسی کی اطلاع، شکایت یا حسد پر بادشاہی مسجد کے اس زمانے کے خطیب کے روایتی فتوے (کہ مسجد ایک طوائف نے تعمیر کرائی)دینے پر مسجد سِیل کر دی گئی۔ اسی فتوے کی وجہ سے مسجد طویل عرصہ بند رہی، بڑی مشکل سے وارثان نے مسجد کو مولویوں کے فتوے اور حاسدوں کے حسد سے رہائی دلائی۔ آج کل ہمارے ایک بزرگ میاں فیض الحسن وِرک جن کی عمر نوے سال سے متجاوز ہے، ان دونوں عمارات کے محافظ و نگران ہیں۔ ہمارے دوسرے بزرگ میاں جان محمد کے صاحب زادے میاں شرف دین وِرک (انھیں شاہ شرف بھی کہا جاتا ہے، دیہات میںانھی سے یہ روایت منسوب ہے کہ جنگل کی ہرنیاں انھیں دودھ پلانے آیا کرتی تھیں۔ ہمارے دوست اور کولیگ ڈاکٹر غفور شاہ قاسم جب میرے ساتھ ایف سی کالج کی ایک رہائش میں مقیم تھے۔ ایک دن وہ اپنے کسی بزرگ کی مروی کرامت بیان کر رہے تھے کہ وہ افغانستان سے پتنگ پر بیٹھ کر برِ صغیر میں وارد ہوئے تھے اور پیر پتنگ شاہ کے نام سے معروف ہوئے۔ ہم نے جواب میں اپنے لگڑدادا کی ہرنیوں والی کرامت پیش کی تو فوراً ہاتھ کھڑے کر دیے۔ اسی طرح کسی دیوار پہ بیٹھ کے اسے گھوڑے کی طرح چلانے کا واقعہ بھی میاں شرف دین کے حوالے سے بیان کیا جاتا ہے۔ مَیں نے یہ واقعہ کئی اور بزرگوں کے ساتھ بھی مطالعہ یا سامعہ کیا ہے لیکن میرے خیال میں یہ اس زمانے میں سفر کی دشواریوں کے پیشِ نظر لوگوں کو مرعوب یا متاثر کرنے کے لیے مؤثر حربے کے طور پر بیان کیا جاتا رہا ہے ) کہ جن کا مزار ہمارے آبائی گاؤں ہوئیکے ہی میں ہمارے بھائی میاں فاروق اشرف وِرک کی زمینوں میں واقع ہے اور وہاں ہاڑ کی بارہ یعنی جون کی چھبیس کو ان کا سالانہ عرس باقاعدگی اور دھوم دھام سے برپا ہوتا ہے۔ ہمارے خیال میں دیہات کے یہ میلے ٹھیلے خالصتاً ثقافتی تہوار تھے اور قیامِ پاکستان سے قبل ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، سب ان میں پورے جوش و خروش سے شریک ہوتے تھے۔ بعد ازاں لوگ ان کو مذہبی رنگ دیتے چلے گئے اور چندے، نذرانے کے حصول اور گدی نشینی کی کشمکش کی بنا پر ان میں تفریح کے ساتھ ساتھ تفرقے کا عنصر بھی شامل ہوتا چلا گیا۔ تحقیق کریں تو ان میلوں کے لیے پورے پنجاب میں دن بھی بالعموم فصل پکنے کے بعد کا (بیساکھ، جیٹھ، ہاڑ) کے مہینوں میں سے طے ہوتا تھا، جب کسانوں کے گھروں میں خوشحالی ہوتی تھی۔یہ دیہات کے لوگوں کی واحد تفریح یا گیٹ ٹو گیدر کی کلاسیکی شکل تھی۔ ہم خود اپنے بچپن میں رنگ برنگے جھولوں، گرما گرم جلیبوں، قتلموں، فالودے، کبڈی میچ اور سب سے بڑھ کے آس پاس کے دیہات کے دوستوں سے ایک جگہ ملنے کے لیے پورے تردد کے ساتھ اس میں شرکت کیا کرتے تھے۔ بعض علاقوں میں گھوڑا ناچ اور رِچھ کتے کی لڑائی کا بھی اہتمام ہوتا تھا، جس کا مظاہرہ اب محض ٹی وی ٹاک شوز میں دیکھنے میں آتا ہے۔ (جاری)