پاک سعودی مشترکہ اعلامیہ میں کشمیر کا ذکر نہیں کیا گیا جس پر کچھ لوگوں کو حیرت سی ہوئی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بات خلاف معمول ہے بلکہ غیر معمولی ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ مسئلہ کشمیر کا ذکر اگرچہ براہ راست نہیں ہے لیکن بالواسطہ تو ہے۔ وہ ایسے کہ مشترکہ اعلامیہ میں پاک بھارت مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے اور مذاکرات جب بھی ہوئے کشمیر کا موضوع ان میں شامل ہو گا۔ چاہے ضمنی ہی ہو‘ ہو گا تو ضرور۔ یوں بالواسطہ ذکر آ گیا۔ اور ذکر تو ذکر ہے۔ چاہے بالواسطہ ہو چاہے بلاواسطہ۔ سعودی عرب نے الگ سے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ دونوں ملکوں میں کشیدگی کم کرائے گا یہ بھی حوصلہ افزا بات ہے۔سعودی ولی عہد کا دورہ پاکستان اختتام کو پہنچا۔ اس سے ایک روز پہلے جناب سراج الحق ‘ امیر جماعت اسلامی کا بیان شائع ہوا۔ فرمایا پاک بھارت امن کا راستہ کشمیر سے ہو کر جاتا ہے۔ شاید ان کے مہتمم نشرو اشاعت نے کئی عشرے پہلے کا بیان غلطی سے جاری کر دیا۔ یہ بہت پرانی بات ہے۔ نئی بات یوں ہے کہ پاک بھارت امن کا راستہ کشمیر سے ہٹ کر جاتا ہے بلکہ پہلو بچا کر نکل جاتا ہے۔ مسئلہ کشمیر کبھی گھمبیر ہوا کرتا تھا۔ اب سمٹ سکڑ کر اصولی اور اخلاقی حمایت کے نکتے کی مشکل اختیار کر گیا ہے اور یہ نکتہ بھی دیوار پر نقطے کی طرح ہوتا جا رہا ہے۔ پریکٹیکل ڈکشنری میں اصولی اور اخلاقی حمایت کے معنے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ سعودی عرب کی طرف سے 20ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے اعلان کے باوجود سٹاک مارکیٹ پونے تین سو پوائنٹ نیچے چلی گئی۔ ایک ٹی وی پر کوئی مبصر اس حوالے سے من مرضی کی تشریح کر رہا تھا۔ حالانکہ یہ تشریح غیر متعلق تھی۔ ملک کی موجودہ معاشی بحران کا کوئی تعلق اس سرمایہ کاری سے اس لئے نہیں جوڑا جا سکتا کہ یہ سرمایہ کاری مستقبل کا معاملہ ہے‘ بحران کا تعلق زمانہ حال سے ہے۔ مختصر المیعاد سرمایہ کاری کا حجم بہت کم ہے۔ دو سال تو لگ جائیں گے ان ایم او یوز کو معاہدوں اور عملی منصوبوں کی شکل اختیار کرنے میں جن پر دستخط ہوئے ہیں۔ یہ شارٹ ٹرم والے ایم او یوز ہیں۔ بڑے منصوبے شکل بناتے بناتے پانچ سال لے جائیں گے۔ خاص طور سے ریفائنری والا منصوبہ۔ پانچ سال بعد کون حکومت میں ہو گا ؟ جو بھی ہو گا‘ خوشحالی یا بدستور بدحالی کا سوال اسی سے پوچھا جائے گا اس وقت تک حیران اور پریشان کرنے والی تشریحات کرنے کی ضرورت نہیں۔ ٭٭٭٭٭ دورے کے دوسرے اور آخری روز سعودی وزیر خارجہ نے پاکستانی ہم منصب کے ساتھ پریس کانفرنس کی۔ اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہو ئی جب مہمان وزیر خارجہ نے ہمارے ایک مغربی پڑوسی ملک کو دہشت گردی کا سب سے بڑا سرپرست ملک قرار دے دیا۔ انہوں نے کئی باتیں کہہ ڈالیں جس پر میزبان وزیر خارجہ نے پریس کانفرنس ختم کرنے کا اعلان کیا اور صحافیوں سے کہا کہ مزید سوالات کا وقت نہیں ہے۔ مہمان وزیر خارجہ نے کہا‘ نہیں‘ وقت کا کوئی مسئلہ نہیں۔ مجھے کوئی جلدی نہیں ہے۔ سعودی وزیر خارجہ ہمارے شاہ صاحب کی بات نہیں سمجھ سکے۔ شاہ صاحب کا مدعا تھا۔ پردے کی بات پردے ہی میں رہے تو اچھا ہے۔ خیز معاملہ ٹل گیا۔ سرکاری ٹی وی نے بے پردہ قسم کے فقرے نشر بھی نہیں کئے۔ آواز میوٹ کر دی۔ جہاں تک پردے والی بات کا تعلق ہے‘ شاہ محمود قریشی پھر سے جائزہ لے لیں کہ پردہ اب پردہ رہا ہی کب‘ وہ تو آب رواں کا آنچل ہو گیا ہے۔ البتہ یہ بات غنیمت ہے کہ اس معاملے میں بھی ہمارا اصولی موقف جوں کا توں قائم ہے۔ ٭٭٭٭٭ شریف خاندان کو ڈیل یا ڈھیل دینے کے حوالے سے خبریں بدستور گرم ہیں۔ خود حکومتی رہنما اس ’’منفی تاثر‘‘ سے پریشان ہیں جو ان خبروں سے پیدا ہو رہا ہے۔ ایک انگریزی ہفت روزے کے مدیر نے اپنی تحریر میں ڈیل کا تعلق سعودی وفد سے بھی جوڑنے کی کوشش کی ہے‘ زیادہ واضح انداز میں نہیں محض اشارتاً۔ لکھا ہے کہ شریف خاندان سے کہا گیا ہے کہ وہ عمران خاں کی حکومت کو غیر مستحکم نہ کرنے کی ضمانت دیں۔ معاملات نرم ہو جائیں گے۔ ایسی کوشش میں سعودی کا تعاون بھی ہے۔ پتہ نہیں‘ ان کی اطلاع سچ ہے یا نہیں لیکن اگر سچ ہے تو یہ سوئے ہوئے بچے کو لوری دینے والی بات ہو گی۔ لوری کی آواز سے سویا ہوا بچہ جاگ اٹھا تو۔؟ شریف خاندان نے خاموشی کی چادر تان رکھی ہے۔ بات پوچھی جائے تب بھی چپ رہنا ہے۔ مسلم لیگ بطور جماعت بھی شہر خموشں بنی ہوئی ہے۔ حکومت کے غیر مستحکم ہونے کا امکان یا اندیشہ کہیں بھی موجود نہیں ہے تو ’’ڈیل‘‘ کی پیشکش عوامی محاورے میں ’’بے فضول‘‘ سی بات نہیں لگتی۔؟ کچھ ذرائع یہ بھی خبر دے رہے ہیں کہ مسلم لیگ سے کہا گیا ہے کہ وہ دو چار مہینے اور ’’امن‘‘ کر لے‘ اسے پنجاب کی حکومت دے دی جائے گی اور سنا ہے کہ شہباز شریف اس پر تیار بھی ہیں۔ لیکن موجودہ صورتحال میں مسلم لیگ پنجاب کی حکومت لے کر کرے گی کیا؟ اس لئے کہ وہ حکومت بنائے گی تو اپنی اکثریت کے بل پر نہیں بنائے گی بلکہ ان چند بیساکھیوں کے بل پر بنائے گی جو دینے والے اسے دیں گے۔ فی الحال یہ بیساکھیاں بزدار کی سپرداری میں ہیں۔ ٭٭٭٭٭ مسلم لیگ ہی نہیں‘ حکومت کو پیپلز پارٹی سے بھی کوئی اندیشہ نہیں۔ اس کے مرکزی رہنما گاہے گاہے ایک آدھ پرزور بیان دے ڈالتے ہیں جس کی دھمک اگلے روز ہی ختم ہو جاتی ہے معاملہ اس وقت کچھ گرم ہوا تھا جب وزیر اطلاعات نے الٹی میٹم دیا تھا کہ وزیر اعلیٰ سندھ خود ہی استعفیٰ دے دیں ورنہ… اس پر پیپلز پارٹی مشتعل ہو گئی لیکن یہ اشتعال غیر ضروری تھا۔ وزیر اطلاعات کے بیان میں غصہ دلانے یا پریشان ہونے والی بات کچھ بھی نہیں تھی۔ ان کا مطلب تھا استعفیٰ دے دو‘ ورنہ تو پھر ہماری طرف سے ورنہ ہی ہے۔ ویسا ہی ورنہ جیسا ہماری ویگنوں کے پیچھے لکھا ہوتا ہے ’’کشمیر آزاد کرو ورنہ… امریکہ باز آ جائے ورنہ…!