وہ جو کہتے ہیں کہ اگر آپ جج کو قائل نہ کر سکیں تو اسے کنفیوژ کر دیں۔ہو سکتا ہے آپ کو اس کنفیوژن کا فائدہ پہنچ جائے۔ آج کل کچھ لوگوں نے طے کر رکھا ہے کہ آپ اگر قوم کو اپنے نکتہ نظر کے بارے میں قائل نہ کر سکیں تو اسے کنفیوژ کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے دل میں شکوک و شبہات پیدا کر دیں۔ اللہ بھلی کرے گا۔ اس فارمولے پر عمل کرتے ہوئے ایسے دانشور ابھرتے رہتے ہیں جو اس بیچاری قوم کے دل و دماغ میں ہنگامے برپا کیا کرتے ہیں۔ آج ہی میں نے ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کے کالم میں ایک ایسے ہی دانشور کا تذکرہ پڑھا ہے۔ معلوم ہوا کہ میں اپنے حکمرانوں کے دو سالہ جشن میں مگن رہا اور یہ یہاں سوشل میڈیا کے ذریعے زہر گھولتے رہے ان پر تفصیلی گفتگو تو کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھتا ہوں تاکہ تحقیق مزید کر کے ان کا قرض چکا سکو۔ ہمارے ہاں ایسے مبارک علی گاہے گاہے پیدا ہوتے رہتے ہیں جن کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ جن معاملات پر قوم یک سو ہے‘ انہیں مشکوک بنا دیا جائے۔ ایسے بقراطوں کو ہمارے ہاں پذیرائی ملے نہ ملے‘ کچھ پشت پناہی ضرور مل جاتی ہے۔ سوشل میڈیا پر نئے نئے طریقے ایجاد ہو گئے ہیں جہاں آپ تنازعہ اور ہر خود غلط باتیں کر کے کمائی بھی کر سکتے ہیں اور مقبول بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ کوئی صاحب ہیں جو پیدا تو یہیں ہوئے ہیں مگر سویڈن میں مقیم ہیں۔ اشتیاق حسین یا ایسا ہی کوئی نام ہے۔ کہتے ہیں ان کی کتاب آکسفورڈ والے چھاپنے والے ہیں۔ ایسی باتوں سے آپ کسی اور کو متاثر کر سکتے ہیں۔ یہ خاکسار اس حوالے سے بالکل چکنی مٹی ہے۔ آکسفورڈ کا کیا ہے، یہ تو پاکستانیوں کے لئے درسی کتابیں مرتب کرانا چاہتا ہے تو اس کے لئے فہمیدہ ریاض کا انتخاب کرتا ہے۔خدا نہ کرے اس ملک پر ایسا وقت آئے کہ یہ خاتون نئی نسل کی اتالیق قرار پائیں۔سو آکسفورڈ کا ثقاہت اور متانت کا ہمارے تہذیبی فکری اور تربیتی حوالوں سے معیار نہیں ہے۔ ابھی میں نے ان کے کچھ حوالے دیکھے ہیں۔ سنا ہے برادرم اظہار الحق اور بریگیڈیئر حامد سعید اس پر درک رکھتے ہیں۔ انشاء اللہ وقت نکال کر ان کا پورا کچا چھٹا بیان کردوں گا۔ فی الحال تو رسید دے رہا ہوں کہ انہیں نشان زد کر لیا گیا ہے۔ آپ کی علمیت کا پیچھا کیا جائے گا اور اس کا پول کھولاجائے گا۔ ایسے بہت سے شہاب ثاقب مغرب کی خلائوں سے ہمارے کرہ ارض میں داخل ہوتے ہیں ان کا مقدر اگرچہ راکھ ہو جانا ہوتا ہے مگر کچھ دیر کے لئے متوجہ ضرور کرتے ہیں۔ ہر زمانے میں کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑ دیا جاتا ہے۔ پاکستان 14اگست کو نہیں 15اگست کو بنا تھا۔ قرار داد لاہور 23مارچ کو نہیں 24مارچ کو پاس ہوئی تھی۔اس سے آپ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہی نہ کہ کنفیوژن پیدا کی جائے وگرنہ اس سے فرق کیا پڑتا ہے۔اب یہ لے آئے ہیں کہ پاکستان ایک جمہوری جدوجہد کا نتیجہ نہ تھا برطانوی فوج نے اسے ایک بفر زون کے طور پر بنایا تھا یا یہ کہ مسلمان ہندوستان میں ایک اقلیت تھے‘ الگ قوم نہ تھے۔ عجیب طرح کا رطب ویا بس پھیلایا جاتا ہے۔ ایک زمانے میں اس بات پر زور تھا کہ قائد اعظم کیبنٹ مشن پلان پر تیار ہو کر گویا پاکستان کے مؤقف سے ہٹ گئے تھے۔ کوئی عائشہ جلال تھیں جو ہمارے ہاں اچانک پاپولر ہو گئی تھیں اگرچہ بین الاقوامی سطح پر وہ کیسی پولیٹیکل سائنٹسٹ یاہسٹورین تھیں، یہ پتا نہ چل سکا ہمارے ہاں رواج ہے کہ جو بھی ٹیڑھی بات کرے، اسے ایک لابی سر پر اٹھا لیتی ہے۔ یہی مؤقف بھارت کے جسونت سنگھ کا تھا۔ دو چار اور بھارتیوں کا بھی یہ کہنا تھا۔ وہ بیچارے تو جناح کو بھارتیوں میں ذرا قابل قبول بنانا چاہتے تھے تاکہ سیاست میں اپنے مخالفوں کا حلیہ بگاڑ سکیں۔ وگرنہ ہمارے ہاں اس طرح کی باتوں کی پذیرائی کیوں ہوتی ہیں۔ اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ ایک زمانے میں تو قائد اعظم کو سیکولر ثابت کرنے پر زور تھا۔ حالانکہ انہوں نے زندگی بھر یہ لفظ کبھی استعمال نہیں کیا۔ کسی نے کہا‘ کیا فرق پڑتا ہے، خیالات تو وہی تھے جو سیکولر کے ہوتے ہیں۔ اس پر قائد اعظم کی 11اگست کی تقریر کا حوالہ دیا گیا۔عرض کیا اور یہ بات میں نے 88ء میں عرض کی تھی کہ ذرا میثاق مدینہ اور 11اگست کی تقریر کو ساتھ ساتھ رکھ کر بتا دو کہ ان میں کیا فرق ہے۔ پھر جن قدروں کو آپ سیکولر کہتے ہیں انہیں اسلامی کیوں نہیں کہہ لیتے ،جہاں ریاست مدینہ کی تشکیل کی پہلی شرط یہ تھی کہ اس ریاست میں بسنے والے یہودی اور مسلمان امت واحدہ ہوں گے۔ ہر ایک کو اپنے اپنے مذہب کی آزادی ہو گی۔ دلچسپ بات ہے کہ قائد اعظم سے فارغ ہو کر یہ لوگ اقبال کی طرف پلٹتے ہیں۔انہیں بھی سیکولر ثابت کرتے ہیں کہ وہ تھیو کریسی اور ملا ازم کے خلاف تھے۔ ان کی عقل کا کیا کیا جائے۔ سنا ہے کہ سوشل میڈیا پر آج کل ایسے بہت سے جھوٹ پذیرائی پا رہے ہیں۔ مری تو یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ سوشل میڈیا ہی نہیں میڈیا باالفرض الیکٹرانک میڈیا میں نفوذ کرنے کے لئے عالمی سطح پر ایک اچھا خاصا منظم منصوبہ موجود ہے۔ یہ بات تو ہم بار بار کہتے رہے ہیں اور ایک بار تو یہ خبر بھی آ گئی تھی کہ امریکی کانگرس نے پاکستانی میڈیا کے لئے الگ سے ایک رقم مختص کی ہے۔ ایک دو لوگوں کے نام بھی آئے تھے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مغرب کے ’’کاریگر‘‘ صرف سیاسی محاذ ہی پر منصوبہ بندی نہیں کرتے رہتے اور لوگوں کے ذہن اپنے ڈھب پر ڈھالنے پر نہیں لگے رہتے بلکہ فکری اور تہذیبی محاذ پر بہت باریکی سے نفوذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کوشش میں وہ بعض اوقات علمی جہت بھی اس سلیقے سے شامل کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں کا سادہ لوح مسلمان یہ سمجھنے لگا ہے کہ دنیا بہت آگے نکل گئی ہے۔ ہمیں ان نظریات کی گاڑی میں بیٹھ کر تیز رفتاری سے آگے بڑھنا ہے۔ اب یہی دیکھئے کہ سویڈن سے کوئی شخص پکڑ کر لے آئے ہیں اور ہم پر رعب ڈال رہے ہیں، دیکھو علم کا سورج کس افق پر جا رہا ہے۔ یہ علمی مباحثے وہ میڈیا کے زور پر کرنا چاہتے ہیں اور اس کے ساتھ انہیں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی مدد بھی مل جائے تو کیا بات ہے۔ انشاء اللہ ان کے بارے میں مواد منگوایا ہے۔ اسے اچھی طرح چھان پھٹک کر حاضر ہوںگا۔دیگ سے چاول کے جو دو ایک دا نے چکھے ہیں‘ اس سے اندازہ ہوتا ہے یہ مزے کا پکوان ہو گا۔ من بھاتا کھا جا کہہ لیجیے۔