الفاظ اور ارادوں کی حد تک تو بلاشبہ کلین اور گرین پاکستان مہم کا آغاز ایک شاندار پراجیکٹ ہے۔ جن خیالات اور عزم کا اظہار وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان نے اس مہم کا آغاز کرتے ہوئے کیا۔ وہ تو دل میں اتر جانے والی ہیں۔ صفائی ستھرائی کے حوالے سے اگر یہ سماجی تحریک وعدوں ارادوں اور فائلوں کے کاغذوں سے نکل کر واقعی برپا ہو جاتی ہے تو سمجھیں ایک سطح پر تو تبدیلی کا آغاز ہوگیا لیکن ڈرتے ہیں کہ اس قوم کے ساتھ پہلے بھی خوشنما وعدوں اور ارادوں کا مذاق ہوتا رہا ہے۔ ہر بار ہم امید باندھتے تھے۔ خواب دیکھتے تھے کہ اب ضرور وطن اور اہل وطن کی حالت سدھرنے والی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اپنے ملک پاکستان میں ہر بار آغاز حکومت میں ایسے خوشنما پراجیکٹ اور وعدوں کی بھرمار ہوتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ غبارے سے ہوا نکلنے لگتی ہے۔ عوام کو مہنگائی کے مسائل میں ایسا الجھا دیا جاتا ہے کہ شب و روز زندگی کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرتے کرتے بیتنے لگتے ہیں۔ پھر سارے سوال، سارے خواب سب وہیں دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے۔ عوام اپنی روزی روٹی کے چکر میں گم ہو جاتی ہے اور اہل اقتدار اور اہل اختیار کو پاکستانی معرکہ جمہوریت پورا پورا موقع دیتی ہے کہ اپنی جیبیں بھریں، بینک بیلنس بڑھائیں۔ اپنے اپنے کاروبار کو بڑھاوا دیتے رہیں۔ یعنی جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرنے کی مکمل چھوٹ کی گارنٹی موجود ہوتی ہے۔ پاکستانی معرکہ جمہوریت میں۔ جب تک حکومت آپ کی ہے کہ سارے موسم آپ کے حق میں ہیں۔ کوئی آپ کا بال بیکا نہیں کرسکتا۔ آزاد میڈیا کا تصور بھی ایک ڈھکوسلا ہی ہے۔ چینل، اینکر، صحافی، رپورٹر، کالم نگار، سب خریدا جاسکتا ہے۔ آپ اپنے حق میں رائے عامہ بنا سکتے ہیں۔گزشتہ حکومت کا پنجاب میں صفائی پراجیکٹ اس کی ایک مثال ہے۔ ن لیگ کی حکومت گزشتہ دس سال پنجاب میں رہی ہے۔ ان دس سالوں میں جو کچھ صفائی کے نام پر یہاں جوکچھ ہوتا رہا کسی کو دکھائی دیا نہ سنائی دیا۔ صفائی کے نام پر خزانے کی صفائی ہوتی رہی۔ نہ صرف یہ بلکہ لاہور کی صفائی کا ٹھیکہ غیر ملکی کمپنیوں کو دے کر سٹی گورنمنٹ کا صفائی کا پرانا سسٹم بھی جان بوجھ کر ناکارہ بنا دیا گیا۔ آغاز میں خادم اعلیٰ کہلانے کے شوقین شہہباز شریف نے بھی خوشنما باتیں کی تھیں اور کہا تھا کہ صفائی ہمارے ایمان کا جزو ہے اور بعد میں صفائی کے نام پر اربوں کی کرپشن ہوتی رہی۔ مجھے یاد ہے کہ اس پراجیکٹ کے ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا گیا تھا کہ اب کوڑے سے بجلی بنانے کا آغاز ہوگا۔ اب پانچ سالوں کے بعد صورتحال یہ ہے کہ نہ بجلی بنی، نہ پورے شہر کی صفائی ہوئی۔ شہر کے پوش علاقوں میں اور شہر کے کچھ مرکزی حصوں میں صفائی پر توجہ ضرور دی گئی لیکن شہر میں موجود کچی بستیاں کم آمدنی والے محلے اور علاقے صفائی کے اس مہنگے پراجیکٹ سے مستفید نہ ہو سکے۔اصل بات یہ ہے کہ لوگوں کے اندر صفائی کا شعور بیدار کیا جائے۔ معذرت کے ساتھ ہم ایسے مسلمان ہیں کہ زبانی کلامی کہتے رہیں گے کہ صفائی نصف ایمان ہے لیکن عمل ہمارا یہ ہوگا کہ گھر کی صفائی کر کے کوڑا محلہ میں پھینک دیتے ہیں اور مطمئن ہوتے ہیں کہ صفائی کے فرض سے سبکدوش ہوئے۔ گند پھیلانے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ اتوار کی چھٹی کے بعد گلشن اقبال پارک جائیں تو پارک کے خوب صورت سرسبز لانز میں جوس کے خالی ڈبوں، چپس کے خالی پیکٹوں کا ڈھیر لگا ہوتا ہے۔ اب سردیاں آ رہی ہیں تو قدم قدم پر کینوئوں اور مونگ پھلی کے چھلکوں کے ڈھیر منہ چڑاتے نظر آتے ہیں۔ اس میں پارک انتظامیہ کا بھی قصور ہے۔ یہاں کوڑا دان نہ ہونے کے برابر رکھے گئے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جتنا بڑا پارک ہے اس حساب سے قدم قدم پر کوڑا دان ہوں۔ یہ بھی ایک طرح کی تربیت ہے۔ اسی طرح شہروں، قصبوں، دیہاتوں، گلی محلوں میں چند فرلانگ کے فاصلے پر کوڑے دان رکھوائے جائیں تاکہ لوگوں کو کوڑا ڈسٹ بن میں ڈالنے کی عادت ہو۔ بنیادی بات لوگوں میں صفائی کی اہمیت ضرورت اور شعور بیدار کرنے کی ہے۔ کلین گرین پاکستان مہم اس حوالے سے مجھے ایک جامعہ پراجیکٹ لگتا ہے۔ اس کے خدوخال میں ایک اہم بات یہ تھی کہ صفائی کی اہمیت کو نصاب کا حصہ بنایا جائے گا اور یہ کہ مساجد میں جمعہ کے خطبوں میں مولوی صاحبان سے درخواست کی جائے گی کہ وہ صفائی کی اہمیت اجاگر کریں۔ پھر صاف ترین محلہ اور صاف ترین تحصیل کے مقابلے کروائے جائیں گے۔ اس طرح لوگوں کو انسنٹو دیئے جائیں گے۔ صفائی کے پراجیکٹ کو ایک ملک گیر مہم میں بدل کر ہی پاکستان کے ہر شہر، دیہات، محلہ اور گلی کو صاف ستھرا رکھا جاسکتا ہے۔ گزشتہ حکومت نے جب صفائی پراجیکٹ غیر ملکی کمپنیوں کے حوالے کیا تو ساتھ یہ اعلان بھی کیا تھا کہ ٹنوں کے حساب سے اکٹھا ہونے والے کوڑے سے بجلی بنائی جائے گی۔ ظاہرہے اس وقت ایسی خبروں نے میڈیا میں جگہ بھی بنائی اور واہ واہ بھی سمیٹی لیکن اب جب کھاتے کھل رہے ہیں تو کرپشن کی افسوسناک غضب کہانیاں بے عملی کی داستان سنا رہی ہیں۔ کوڑے سے بجلی تو کیا پیدا ہونی تھی۔ ن لیگ کے اس کوڑا پراجیکٹ نے قومی خزانے کی بھی صفائی کردی۔ جہاں تک کوڑے سے بجلی بنانے کا تصور ہے، دنیا کے کئی ملکوں میں اس پر کامیابی سے عملدرآمد ہورہا ہے لیکن سویڈن اس میدان میں سب سے آگے ہے۔ دنیا اس پر حیران ہے کہ کیسے سویڈن میں گھروں سے جمع ہونے والے کوڑے کا سو فیصد ری سائیکل کیا جاتا ہے۔ اب تو اس کو Recylcing Revolution کا نام دیا گیا ہے۔ ہم ابھی تک سرخ اور سبز انقلاب کے رومانس سے نہیں نکلے جبکہ جدید دنیا کا انقلاب ہے۔ ری سائیکلنگ انقلاب۔اس میں ناکارہ کوڑے کو توانائی میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔ سویڈن کا یہ تجربہ اس قدر کامیاب ہے کہ ان کی ضرورت کے لیے انہیں ناروے سے کوڑا امپورٹ کرنا پڑتا ہے۔ سویڈن اپنے کوڑے کا صرف ایک فیصد کھاد بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ باقی تمام کوڑا بجلی بنانے اور ری سائیکلنگ کرنے کے کام آتا ہے۔ کوڑے کو ری سائیکل کرنے کا کام سویڈن میں بہت سال پرانا ہے۔ انٹرنیٹ کی ایک ویب سائٹ کے مطابق سویڈن کے پہلے ری سائیکلنگ پلانٹ نے 1904ء میں کام کرنا شروع کیا تھا۔ اور اب 2018ء تک وہاں جدید ترین ری سائیکلنگ پلانٹ کام کر رہے ہیں۔ اس موضوع پر پڑھتے ہوئے میں حیران رہ گئی کہ سویڈش لوگوں کی کس سطح تک ٹریننگ ہو چکی ہے کہ وہاں لوگ جب اپنے گھروں کا کوڑا پھینکتے ہیں تو اسی پہلے درجے پر کوڑے کی چھانٹی کرلیتے ہیں۔ شیشے اور پلاسٹک کی بوتلیں الگ، سزیوں پھلوں کے چھلکے الگ، اسی کوڑے کے ہر آئٹم کی گروپنگ کر کے اس کو اس کی کیٹیگری میں پھینکا جاتا ہے۔ وہاں گھروں کے آس پاس مختلف کیٹیگری کے ڈسٹ بن حکومت کی طرف سے لگے ہیں اور شہری پوری ذمہ داری کے ساتھ چھانٹی شدہ کوڑے کو الگ الگ کنٹینروں میں پھینکتے ہیں۔ جہاں سے ری سائیکلنگ کے لیے کوڑا لے جایا جاتا ہے۔ ایک ہم ہیں کہ گھر کی صفائی کر کے کوڑا دوسرے کے گھروں کے سامنے پھینک دیتے ہیں اور پھر ہاتھ جھاڑ کر دوسروں کو فیس بک پر اخلاقیات، تہذیب اور تمیز سکھاتے ہیں۔ دنیا ٹریش کو ٹریثر میں بدل رہی ہے اور ہم ہیں کہ اپنے ٹریثر کو ٹریش کرنے میں ثانی نہیں رکھتے۔ ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے