یہ عنوان کچھ عجیب سا لگتا ہے، سب لوگ سوتے میں خواب دیکھتے ہیں‘ ہاں مگر بہت سے خواب جاگتے میں بھی دیکھے جاتے ہیں۔بے سوچے سمجھے خیال کا سرکش ناہوار انجانی راہوں پر سرپٹ دوڑنا شروع کر دیتا ہے ۔پاکستان کا خواب علامہ اقبال نے جاگتے میں دیکھا تھا اور مولانا حسرت موہانی نے سوتے میں آزادی کا‘ اقبال کو جاگتے خواب پر کسی نے روک ٹوک نہیں کی‘ نیند میں خواب دیکھنے والے بوریا نشین حسرت کو قید کر دیا گیا۔ مولانا حسرت کو خواب آزادی کے جرم میں انگریز مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا، تو مجسٹریٹ نے مجرم موہانی سے پوچھا کیا تم اپنے جرم کا اقرار کرتے ہو؟ کون سے جرم کا حسرت نے سوال کیا؟ ہم نے آزادی تو نہیں مانگی آزادی کا صرف خواب ہی دیکھا ہے۔کیا آپ کے ہاں کوئی ایسا قانون بھی ہے، جو خواب دیکھنے پر پابندی لگاتا ہو؟ خواب تو خواب ہے ،اس پر اختیار کس کو ہے؟ وہ تو خود بخود بے سوچے بے سمجھے بن چاہے چلا آتا ہے۔کوشش کر کے بھی خواب کو خواب میں آنے سے نہیں روکا جا سکتا صاحب بہادر مجسٹریٹ کیا آپ اپنے خوابوں پر قدرت رکھتے ہیں؟ جب آپ آزادوں کو اپنے خواب پر اختیار نہیں تو پھر ہم غلاموں کی اوقات ہی کیا ہے؟ ایسا ہی کچھ بروز جمعہ 26مئی کو بعد دوپہر ہمیں بھی پیش آیا نماز جمعہ کے بعد گھر میں اکیلا ہی تھا‘ میاں مشتاق علی الصبح ترکش ایئر لائن سے واپس امریکہ کے لئے پرواز کر چکے تھے۔واپس فیصل آباد جانے سے پہلے ’’قیلولہ‘‘ کے لئے کمرے میں جا سویا‘ یہ چند لمحے ہی تھے جب آنکھ لگی پھر نیند کھل گئی۔ اس چمن میں کیا گیا گویا دبستان کھل کھل گیا کیا دیکھتا ہوں یہ ہفتہ وار دوستوں کی محفل ہے‘ جو برسوں سے ہر جمعہ کے دن چوہدری وحید کے وسیع و عریض دفتر میں منعقد ہوا کرتی ہے، حسب معمول دوپہر کے کھانے پر احباب جمع ہیں‘خالد بھائی ‘ میاں مشتاق‘ چوہدری وحید‘ لیاقت بلوچ‘ سید احسان اللہ وقاص اور محفل کے روح رواں جناب مجیب الرحمن شامی اور رونق محفل جناب حفیظ اللہ نیازی بھی حاضر ہیں، آخر الذکر دونوں دانشوروں یعنی مجیب الرحمن شامی اور حفیظ اللہ نیازی کے مابین بحث چل نکلتی ہے‘ اس بحث یا مباحثے کا محرک اگرچہ راقم الحروف خود ہی تھا، لیکن جلد ہی محرک تو مکھن کے بال کی طرح باہر نکل گیا اور دانشووں کے سینگ تادیر پھنسے رہے۔ کیا دیکھتا ہوں کہ آنے والے زمانوں کے لئے نئے کیلنڈر کا مسئلہ درپیش ہے کہ نیا کیلنڈر کس اہم دن یا واقعہ سے منسوب اور آغاز ہو ،خواب راقم کا تھا چنانچہ عرض کیا کہ حالیہ برسوں میں تین بڑے واقعات دنیا کو درپیش رہے ہیں۔1۔ 27دسمبر 1979ء جب روس نے افغانستان پر قبضہ کرنے کے لئے کابل میں فوجیں اتاریں‘ سرد جنگ کے حریفوں کے درمیان افغانستان کے میدانوں میں گرم جنگ کا آغاز ہو گیا‘ دنیا دو گروہوں میں بٹ گئی یہ ایک عالمی جنگ کی طرح تھا‘ دس برس تک معرکہ گرم رہا‘ انجام روس کا افغانستان سے انخلا اور انخلا کے بعد سب سے بڑی عالمی قوت کے حصے بخرے ہونے پر ہوا‘ چنانچہ پہلا نقطہ آغاز 1979ء سے ہو سکتا ہے۔2۔ دوسرا اہم ترین واقعہ 11ستمبر 2000ء جب امریکہ کے شہر نیو یارک کے جڑواں میناروں پر دہشت گردوں نے یرغمال مسافر بردار طیاروں کو ٹکرا کر میناروں کو مسمار اور ہزاروں بے گناہ شہریوں کو ہلاک کر کے دنیا کی واحد اور سب سے بڑی عالمی طاقت کی ’’رِٹ‘‘ کو چیلنج کر دیا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے بعد دنیا بھر کے انسانوں کی زندگیاں یوں بدل گئیں کہ پھر کبھی پہلا سا امن اور حالات لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ 3۔ تیسرا واقعہ 9اپریل 2022ء ہے‘ جب امریکہ کے ایما پر پاکستان کے سابق سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے عمران خاں کی حکومت ختم کرنے کے لئے ’’عدم اعتماد‘‘ کا ڈھونگ رچایا، جس کے بعد عوامی ردعمل کی طوفانی لہروں نے یک بیک پوری دنیا کو لپیٹ میں لے لیا نہ صرف پاکستان میں لگ بگ تین کروڑ شہریوں نے احتجاج کیا بلکہ دنیا بھر کے ایک سو سے زیادہ دارالحکومتوں اور بڑے شہروں میں لوگ اہم مقامات پر اکٹھے ہو کر ایک غریب اور چھوٹے ملک کے لیڈر کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے رہے‘ اس احتجاج کی خاص بات جو دنیا کے ہر احتجاج سے اس کو ممتاز کرتی ہے، وہ اس کا پرامن اور رنگا رنگ جشن نما احتجاج تھا، سب سے انوکھا اور الگ وہ بھی رمضان المبارک کی راتوں میں جب مسلمان عبادت کے سوا کسی کام کو ترجیح نہیں دیتے‘ ایسا انوکھا شدید ردعمل جس کے اثرات ایک برس گزرنے پر بھی کم ہونے میں نہیں آ رہے‘ان مذکورہ تین واقعات اور دنوں میں سے کس کو نئے کلینڈر کا نقطہ آغاز قرار دیا جائے؟ بھلے معاملہ خواب کا تھا خواب بھی کسی اور کا۔9اپریل اور عمران خاں نام زبان پر آنا تھا کہ حفیظ اللہ نیازی صاحب کے تن بدن بھڑک اٹھے‘ لال پیلے ہو کر بولے کیا پدی کیا پدی کا شوربہ‘ کہاں روس اور امریکہ اور کہاں لاچار عمران خاں‘ یہ بیچ میں کہاں سے آ گیا؟ آخر اس کی اوقات کیا ہے؟ شامی صاحب ٹھہرے لسان العصر ان کے سامنے کون ٹھہر سکتا ہے‘ دلائل اور تاریخی شہادتوں کے انبار لئے پھرتے ہیں‘ انہوں نے روس پر تو نگاہ غلط انداز ڈالنا بھی پسند نہ کیا ‘ نیازی صاحب سے امریکی بیانیہ کو لتاڑ کے رکھ دیا ‘ جاگتی آنکھوں میں تو شامی صاحب بھی عمران خاں کے یوں طرف دار نہیں رہے۔ ایک طرف تو یہ خواب کا معاملہ تھا ہوش و خرد کا نہیں‘ دوسری طرف حفیظ اللہ کو زبان و دلائل میں نکل جانے دینا ان کی جوانمردی اور قومی غیرت کا مسئلہ ہے‘ بھلے جو بھی ہو آخر کو عمران خاں ان کا ہم وطن اور پہنچ سے دور نہیں تو وہ غیر کا منہ کیوں چومیں وہ بھی سوتے میں‘ حفیظ اللہ امریکہ کی شان میں زباں و بیان کے گوہر لٹاتے چلے گئے‘ نیازی صاحب آخر کو نیازی ہی تو ہیں، زور بازو میں بھلے بڑھ کر ہوں لیکن طلاقتِ لسانی میں شامی صاحب کا سامنا کون کرے‘ انہوں نے تو زمانہ طالب علمی کے تقریری مقابلوں اور مباحثوں میں دوسری پوزیشن کو نظر بھر کے نہیں دیکھا، ہمیشہ اول رہے اور ٹرافی اٹھا کر چلتے بنے تو آج کیوں ہار ماننے لگے، وہ بھی ایک نیازی سے یہ کوئی میدان جنگ تو نہیں عقل و دلیل کا معرکہ ہے، ایسے معرکوں کے وہ جیتے ہوئے غازی ہیں۔ نیازی صاحب کا استدلال تھا کہ آپ روس و چین ایسی عالمی طاقتوں کو بھی امریکہ مقابل رکھ نہیں سکتے، چہ جائیکہ عمران خاں کا ذکر کریں جو ایک سپاہی کے ہاتھوں چاروں شانے چت گرا‘ امریکہ نے روس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، ساری دنیا نے اس کے اقتدار اعلیٰ کے سامنے سرنگوں کر دیا‘ افغانستان کا رخ کیا تو ساری دنیا بشمول روس و چین اس کے پامہ رکاب تھی، کسی کو چوں کرنے کا یارا نہ تھا‘ وہ اکیلا سپر پاور بن کے رہا کسی کو آنکھ ملانے کی ہمت نہ ہوئی‘ اول تو نئے کلینڈر کی کوئی ضرورت ہی نہیں، فرض کریں یہ ناگزیر ہو تو اس کا فیصلہ امریکہ کے سوا کون کرے گا؟ اس کے فیصلے پر اقوام متحدہ بھی بلا چوں و چرا عمل کرے گی۔ اب شامی صاحب کی باری تھی انہوں نے کہا یہ حربی صلاحیت اور سفارتی اثرورسوخ کا قصہ نہیں‘ دنیا میں رائج کلینڈروں میں کون سا ہے جس کا اجراء کسی بڑی قوت یا سلطنت نے کیا ہو‘ عیسوی کلیلنڈر حضرت عیسیٰ سے ہے ‘ ہجری کیلنڈر کا آغاز نبی حضورؐ کی ہجرت سے ہے۔ جب آپﷺ کومکّہ سے چلے جانے پر مجبور ہونا پڑا۔ ہندوئوں کا کیلنڈر ‘چین اور ہجرت سے پہلے عربوں کا کیلنڈر ہاتھی والوں کے حملے کے دن سے شروع ہو ،اگر امریکہ کے 9ستمبر 2001ء کو اہم جانتے ہو تو وہ تو امریکہ کے لئے ’’آغاز بھی رسوائی‘ انجام بھی رسوائی ثابت ہوا‘ شروع میں اس کی عالمیت کو چیلنج کیا گیا اور انجام کار وہ نہتے افغانوں کے ذلت آمیز شکست کے بعد راتوں رات بھاگ نکلا‘ اگر آغاز کامیابی سے ہے پھر اس کا شروع 15اگست 2021ء سے ہونا چاہیے جب طالبان فاتحانہ کابل میں داخل ہوئے خوش قسمتی سے پاکستان کا یوم آزادی بھی دراصل 15اگست کو پڑتا ہے، شامی صاحب زوروں میں تھے یہ ماننا ہی ہو گا ہم آج عہد عمران میں زندہ ہیں دنیا بھر مقبولیت اور اثر و رسوخ کے اعتماد سے کوئی اس کا ہمسر نہیں‘ عالمی سروے اور پاکستان کے انتخابی نتائج گواہی دیتے ہیں‘ اس نے تین نسلوں کو متاثر کیا‘ سیاست کے انداز بدل ڈالے وہ رجحان ساز بن کے آیا‘ اس نے عدم تشدد کے اصول کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔اسی لمحے آنکھ کھل نہ گئی ہوتی تو نہ جانے یہ کالم کتنی نشستوں میں تمام ہوتا۔