معاشی امور پر تحقیق کے ادارہ پائیڈ کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں ڈیڑھ کروڑ بالغ افراد سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔بعض دیگر اندازوں کے مطابق سگریٹ سمیت مختلف طریقوں سے تمباکو کا نشہ کرنے والوں کی تعداد اڑھائی کروڑ سے زیادہ ہے جس میں حقّہ‘ بیڑی‘پان‘ نسوار وغیرہ شامل ہیں۔ جب کہا جاتا ہے کہ حکومت تمباکو نوشی پر سخت پابندیاں عائد کرے تو سگریٹ ساز اداروں کے حامی شور مچاتے ہیں کہ ان اقدامات سے حکومت کی آمدن کم ہوجائے گی لیکن یہ کتنی بودی دلیل ہے۔ لاکھوں لوگ سگریٹ نوشی کرنے سے شدید امراض کا شکار ہوجاتے ہیں اوراسکے باعث قومی معیشت کوآمدن سے کہیں زیادہ نقصان پہنچتا ہے۔اعداد و شمارخود بولتے ہیں۔ پائیڈ نے اس برس تمباکو نوشی پر ایک تحقیقی رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ دو ہزار اُنیس میں تمباکو نوشی سے جو امراض لاحق ہوئے اور اموات ہوئیںاُن سے ملک کوتقریباً سوا چھ سو ارب روپے کا نقصان پہنچا۔ تمباکو نوشی سے کینسر ‘ سانس اور دل کی بیماریاںہوئیں جن کے علاج معالجہ پر تقریباً ساڑھے چار سو ارب روپے خرچ ہوئے۔جبکہ تمباکو کی صنعت سے حکومت کو ٹیکسوں کی مد میں ایک سو بیس ارب روپے حاصل ہوئے۔ یعنی سرکار کو تمباکو سے ہونے والی آمدن سے ساڑھے تین گنا سے زیادہ رقم ان امراض پر خرچ ہوگئی جو تمباکو کے باعث لاحق ہوئے تھے۔ غریب خاندان سگریٹ نوشی سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ کراچی میں قائم ادارہ سوشل پالیسی اور ڈویلپمنٹ سینٹرنے ٹھوس تحقیق کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ کم آمدن والے گھرانوں میں سگریٹ نوشی کی وجہ سے کھانے پینے کے اخراجات پر زد پرتی ہے۔ جو رقم خاندان کو اپنی خوراک کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے پر صرف کرنی چاہیے وہ سگریٹ ‘ تمباکو خریدنے میں لگادی جاتی ہے۔ان خاندانوں کی رقم کا ایک بڑا حصّہ سگریٹ نوشی کرنے والے افراد کے امراض کے علاج معالجہ پرخرچ ہو جاتا ہے۔بچے دودھ کے لیے ترس رہے ہوتے ہیں۔ باپ سگریٹیں پھونک رہا ہوتا ہے۔ایک مرتبہ عبدالستار ایدھی نے کہا تھا کہ جو لوگ میرے پاس امداد لینے کیلئے آتے ہیں انکے پاس بھی سگریٹ کی ڈبی ہوتی ہے۔ دنیا میں تمباکو کے نقصانات پر ہزاروں کی تعداد میں مستند تحقیقی مقالات لکھے گئے۔ اس نشہ کے انتہائی مضر نقصانات بلا شک و شبہ ثابت ہوچکے۔ اسی لیے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے سگریٹ نوشی کے فروغ پر پابندیاں لگانے اوراسکی روک تھام کے لیے اقدامات پر مبنی ایک عالمی معاہدہ ترتیب دیا جسے فریم ورک آف ٹوبیکو کنٹرول (ایف سی ٹی سی) کہا جاتا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا کے درجنوں ممالک نے اس معاہدہ پر عمل کرنے کا عہد کیا۔تاہم ہماری حکومتیںکسی نہ کسی بہانے سے اس معاہدہ کی شقوں پر مکمل عمل درآمد کروانے سے گریز کرتی رہی ہیں۔ نتیجہ ہے کہ سگریٹ نوشی کم ہونے کی بجائے بڑھتی جارہی ہے۔ حالانکہ حکومت نے اقوام متحدہ کے تحت تشکیل دیے گئے پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کیلیے تمباکو نوشی کو2025 تک تیس فیصد کم کرنے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ سگریٹ کا نشہ ایسا ہے جو ایک دفعہ لگ جائے تو چھوڑنا مشکل ہوتا ہے۔ جو لوگ اسے چھوڑنا شروع کرتے ہیں اُنہیں اسکی شدید طلب محسوس ہوتی ہے۔ اُداسی اور ذہنی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مختلف تحقیقاتی سروے رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں سگریٹ نوشی کرنے والے افراد کی اکثریت اس نشہ سے جان چھڑوانا چاہتی ہے لیکن انہیں اس کے لیے طبی اور نفسیاتی مدد درکار ہے۔ دنیا کے کئی ممالک نے ایسے طریقے دریافت کرلیے ہیں جن سے سگریٹ نوشی چھڑوانے میں مدد ملتی ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ الیکٹرانک(ای) سگریٹ کے ذریعے عام‘ روایتی سگریٹ کا نشہ چھوٹ سکتا ہے۔ الیکٹرانک سگریٹ میں بھی تمباکو میں پایا جانے والا نشہ آور مادہ نکوٹین مائع شکل میں استعمال ہوتا ہے ۔اسکو استعمال کرنے والا اُن دہ نقصان دہ اثرات سے بچ جاتا ہے جو سگریٹ کے دھویں سے نکلنے والے کیمیائی مادوں سے ہوتے ہیں ۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ای سگریٹ کے استعمال سے صرف طریقہ کار تبدیل ہوجاتا ہے اورصحت کو نقصان کم ہوجاتا ہے۔ نشہ اپنی جگہ موجود رہتا ہے۔عالمی ادارہ صحت نے سگریٹ نوشی ترک کروانے کیلئے کچھ اور طریقوں کی منظوری دی ہے۔ ان میں نکوٹین پیچز‘ نکوٹین کی چیونگ گم‘ نکوٹین کی چوسنے والی گولیاںشامل ہیں۔ سگریٹ کی جگہ انکے استعمال سے آدمی کا نشہ پورا ہوجاتا ہے لیکن وہ دھویں سے بچ جاتا ہے۔ برطانیہ میں رائل کالج آف فزیشن نے اپنی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ میڈیا کے ذریعے ان متبادل طریقوں کو فروغ دے۔ جاپان ان سرکردہ ممالک میں شامل ہے جنہوں نے ان طریقوں کی مدد سے سگریٹ نوشی کم کرنے میں بہت کامیابی حاصل کی ہے۔ ہمارے ہاں ابھی یہ طریقے عام نہیں ہوئے لیکن ان کے استعمال سے سگریٹ نوشی کی عادت ختم یا کم کروائی جاسکتی ہے۔یہ متبادل اشیاء خاصی مہنگی ہیں۔حکومت کو اِنہیں سستا بنانے کے اقدامات کرنے چاہئیں۔ پاکستان میں تمباکو کی صنعت میں تین سو ارب روپے سے زیادہ کالین دین ہوتا ہے۔ تمباکو کی زیادہ تر کاشت خیبر پختونخواہ کے صوابی‘ مانسہرہ اور بونیراضلاع میں کی جاتی ہے۔ ملک میں گزشتہ برس ساڑھے دس کروڑ کلوگرام تمباکو پیدا ہوا جس میں سے ساڑھے چارکروڑ کلوگرام تمباکو سگریٹ بنانے والی کمپنیوں نے خریدا۔ اسکا مطلب ہے کہ باقی تمباکو کچھ تو برآمد ہوجاتا ہے اوراسکا ایک بڑا حصہ غیرقانونی طور پر سگریٹ بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔غیر قانونی سگریٹ کا کاروبار روکنے کی خاطر حال میں حکومت نے ٹریک اینڈ ٹریس نظام متعارف کروایا ہے تاکہ اسے زیادہ ٹیکس حاصل ہو۔ سگریٹ بنانے والی کمپنیاں بہت بااثر ہیں۔ سیاستدانوں اور اعلیٰ افسروں سے انکے گہرے تعلقات ہیں۔ اسی لیے حکومت تمباکو نوشی کے خلاف موثر اقدامات نہیں کرتی ۔ سگریٹ کے متبادل طریقوں (نکوٹین پیچ۔ ای سگریٹ وغیرہ) سے ایک راستہ کھلا ہے جنہیں فروغ دیا جائے تو تمباکو کا نشہ توموجود رہے گا لیکن اس سے پہنچنے والا نقصان بہت کم ہوجائے گا۔