پارلیمان کے دونوں ایوانوں نے سٹیٹ بینک آف پاکستان کا ترمیمی قانون کثرت رائے سے منظور کرلیا ہے۔ ایوان کے اندر اور باہر اس کی شدید مخالفت کی گئی۔ اس کے خلاف سیاسی بنیادوں پر مبالغہ آمیز تبصرے کیے گئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ نیا قانون ملک و قوم کے مفاد میں ہے۔ اس سے نہ ملک کی خودمختاری پر کوئی آنچ آئے گی نہ ہمارا مرکزی بینک عالمی مالیاتی ادارہ(آئی ایم ایف) کے ماتحت ہوجائے گا۔نہ کوئی ریاست کے اندر ریاست بننے جارہی ہے۔ سٹیٹ بینک کا موجودہ قانون انیس سو چھپن (1956)میں بنایا گیا تھا۔ اس کے بعد بدلتے ہوئے حالات سے مطابقت قائم کرنے کی خاطراس میں چار بار ترامیم کی گئیں۔ موجودہ ترمیم پانچویں ہے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) دونوں پارٹیوں کی گزشتہ حکومتوں نے اس قانون میںترامیم کی تھیں۔ نئے قانون کے تحت حکومت مرکزی بینک کے گورنر‘ اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرزکے نان ایگزیکٹوارکان‘ ڈپٹی گورنر اور مالیاتی پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) کے ارکان نامزد کرے گی۔ وفاقی حکومت سٹیٹ بینک کو ایک مانیٹری اور فسکل رابطہ بورڈ (ایم ایف پی سی بی) کے ذریعے کنٹرول کرتی تھی۔ ترمیمی قانون کے تحت اس بورڈ کو ختم کردیا گیا ہے۔اب حکومت اور سٹیٹ بینک میںرابطہ قائم رکھنے کے لیے ایک نیا طریق کار وضع کیاجائے گا۔ لیکن حکومت سٹیٹ بینک کے عہدیداروں کو دھمکا کر ان سے اپنی مرضی کا کام نہیں لے سکے گی۔ کیونکہ ان کے خلاف کسی ضابطہ کی کارروائی یا تحقیقات کرنے کے لیے کسی ادارہ جیسے نیب یا ایف آئی اے وغیرہ کو پہلے بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز سے اجازت لینا ہوگی۔یہ شرط اسلیے رکھی گئی ہے تاکہ بینک کے معاملات میں سیاسی حکومت مداخلت نہ کرسکے۔ اسٹیٹ بینک ہر چھ ماہ بعد اپنی کارکردگی اور معاشی صورتحال پر رپورٹ پارلیمان میں پیش کرے گا۔ نئے قانون کے تحت اس بات کی ممانعت کردی گئی ہے کہ کوئی شخص جس کے پاس دوہری شہریت ہو وہ سٹیٹ بینک کا گورنر نہیں بن سکتا۔یعنی صرف وہی گورنر بننے کا اہل ہوگا جو پاکستان کا شہری ہے۔اس قانون کے مطابق گورنر کے عہدہ سے سبکدوش ہونے والا شخص اس بات کا پابند ہوگا کہ وہ دو سال تک کسی عالمی ادارہ میں ملازمت نہیں کرے گا۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی شخص سٹیٹ بینک کے گورنرکا عہدہ چھوڑ کرفوراً آئی ایم ایف یا عالمی بینک یا ایشیائی ترقیاتی بینک میں جا کرعہدہ سنبھال لے۔گو یہ سخت قسم کی شرط ہے لیکن پاکستان میں ایسا ماحول بن گیا ہے کہ اپنے ملک کے قابل لوگوں پربے سر و پا اعتراضات کیے جاتے ہیںکہ یہ عالمی اداروں کے ایجنٹ ہیں وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ ہمیں خوش ہونا چاہیے کہ ہمارے تعلیم یافتہ ماہرین معیشت کی دنیا میں قدر کی جاتی ہے ۔ ان کی صلاحیت کی بنا پرانہیں عالمی اداروں میں اچھا مقام ملتا ہے۔ وہ بیرونی ممالک سے تربیت حاصل کرنے کے بعد اپنے ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ عالمی ادارے اتنے بُرے ہیں تو ہم ستّر سال سے ان سے مال لیکر کیوں کھا رہے ہیں؟عالمی بینک اور آئی ایف کے دیے ہوئے آسان قرضوں کی بدولت ہمارے ملک میں سڑکیں‘ ڈیم‘ پُل تعمیر ہوئے۔ زراعت کو جدید بنایا گیا۔ صنعتی ترقی کی داغ بیل ڈالی گئی۔ اسٹیٹ بینک کے ترمیمی قانون میںملکی خود مختاری یا مفادات کے خلاف کوئی شق نہیں ہے۔ بلکہ وفاقی حکومت کو ایک مالی نظم وضبط کا پابند بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ کہ وہ سٹیٹ بینک سے دھڑا دھڑقرضے نہ لے کیونکہ اس سے افراطِ زر پیدا ہوتا ہے ۔ مہنگائی کا سیلاب آتا ہے۔ افراط ِزرٹیکس کی ایک قسم ہے کیونکہ اس سے روپے کی قدر کم ہوجاتی ہے۔ قوتِ خرید کم ہوجاتی ہے۔ ماہرین معیشت کے مطابق پاکستان میں افراطِ زر کی شرح نو فیصد سے زیادہ ہوجائے تو ملکی معیشت کے لیے فائدہ کی بجائے نقصان کا باعث بنتی ہے۔ اسی طرح اگر یہ شرح چار فیصد سے کم ہو تو معاشی ترقی کا عمل سست پڑ جاتا ہے۔گزشتہ پچاس برسوں میںسے اکتیس سال ایسے گزرے ہیں جب ہمارے ملک میں افراط زر کی اوسط شرح9.1 رہی ہے۔ ہرسیاسی پارٹی جب اپوزیشن میںہوتی ہے تو مہنگائی کا رونا دھونا شروع کردیتی ہے لیکن اس مہنگائی میں سب نے برابر کا حصہ ڈالا ہے۔ افراطِ زر اُونچی ہونے کا زیادہ نقصان غریب اور سفید پوش آدمی کو ہوتا ہے۔ اب حکومت کو اپنے اخراجات کیلئے سٹیٹ بینک سے قرضے لینے کی بجائے ٹیکسوں اور دیگر محاصل کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کرنا پڑے گی۔ حکومت سیاسی وجوہات کی بنا پر اس مشکل کام کو انجام دینے سے گریز کرتی ہے لیکن کبھی نہ کبھی یہ کام کرنا پڑے گا۔ اسی طرح ماضی میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے سٹیٹ بینک کے ذریعے اربوں ڈالرزمارکیٹ میں فروخت کیے تاکہ ڈالر کے مقابلہ میں روپے کی قدرمصنوعی طور پر اونچی رکھی جاسکے۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ ملک میں زرمبادلہ کا بحران پیدا ہوگیا ۔ موجودہ حکومت کو ایک دم روپیہ کی قدر میں کمی کرنا پڑی۔جب سٹیٹ بینک کے ایک نگران گورنر نے روپے کی قدر کو فطری طور پر نیچے گرنے دیا تو وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے انہیں عہدہ سے ہٹادیا تھا۔سٹیٹ بینک کی خود مختاری کے قانون کے بعد وفاقی حکومت مرکزی بینک کو مجبور نہیں کرسکے گی کہ وہ فاریکس مارکیٹ میں مداخلت کرکے کرنسی کومصنوعی طور پر اُونچا نیچا کرسکے۔ ملک کی دیرپا‘ پائیدار معاشی ترقی کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی زراعت اور صنعت کی پیداوار بڑھائیں۔ کرنسی چھاپ چھاپ کر کام نہ چلائیں۔ نوٹ چھاپنے سے عارضی خوشحالی آتی ہے۔ یہ ایسا بلبلہ ہوتا ہے جو ہر چند سال بعد پھٹ جاتا ہے جسکا ہمیں کئی بار تجربہ ہوچکا ہے۔ اس وقت پاکستان بوجوہ مشکل معاشی حالات کا شکار ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط ماننا ہماری مجبوری ہے۔آئی ایم ایف صرف قرض نہیں دیتا بلکہ معیشت کی صحت کا سرٹیفکیٹ دیتا ہے۔ اسکی سند دیکھ کر دیگر عالمی ادارے جیسا کہ عالمی بینک‘ ایشیائی ترقیاتی بینک منصوبوں کے لیے قرض دیتے ہیں۔ حکومت عالمی بینکوں سے قرض لے یا سکوک بانڈز جاری کرے آئی ایم ایف کی مہر چاہیے۔ آئی ایم ایف پروگرام جاری رہنے کی صورت میںنسبتاًکم شرح سود پر قرض ملتا ہے ورنہ زیادہ سود دینا پڑتا ہے۔اسٹیٹ بینک کے ترمیمی قانون کی خوبیاں خامیاںعملی تجربہ کے بعد واضح ہوکر سامنے آجائیں گی تو ان کی روشنی میںاسے بدلا جاسکتا ہے۔ اگر حکومت مرکزی بینک کے گورنر سے بہت ہی ناخوش ہو تو اُسے مستعفی ہونے کے لیے کہہ سکتی ہے۔قانون کو تبدیل کرنے کے لیے پارلیمان کی سادہ اکثریت درکار ہوگی۔ یہ کوئی آئینی ترمیم نہیں کہ اسے تبدیل کرنا مشکل ہوجائے۔ پہلے بھی چار بار ترامیم کی گئی ہیں۔ جب ہمارے معاشی حالات بہتر ہوں گے اورحکومت ضرورت محسوس کرے گی تواِس قانون پر نظر ِثانی کرلے گی۔کسی ملک کے مرکزی بینک کا بنیادی مقصد قیمتوں کے استحکام اور معاشی ترقی میں توازن قائم رکھنا ہوتا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے ایکٹ میں حالیہ ترامیم سے یہی ہدف حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔