اِسرائیل نے غزہ کی پٹی سے آنے والے فلسطینی کارکنوں کے لیے اپنی واحد کراسنگ کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ اِسرائیل کا اس فیصلہ کواس پسماندہ علاقے کے 20 لاکھ باشندوں کی "اجتماعی سزا" پر قرار دیا جاسکتا ہے جو تقریباً 15 سال سے اسرائیلی،مصری ناکہ بندی میں رہ رہے ہیں۔ 23 اپریل ہفتے کے روز اعلان کردہ یہ اقدام، اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ کی پٹی پر حکمران گروپ حماس پر جمعہ کو دیر گئے اسرائیل پر تین راکٹ فائر کرنے کا الزام عائد کرنے کے بعد سامنے آیا ہے، جب کہ رمضان کے دوران مقبوضہ فلسطین میں تناؤ بڑھتا جا رہا ہے بالخصوص گزشتہ ایک ہفتے کے دوران اسرائیل کے زیر قبضہ فلسطینی علاقے میں کشیدگی کے واقعات میں اِضافہ ہوا ہے جس سے اندیشہ ہے کہ صورتحال ایک دفعہ پھر بڑے پیمانے پر ہونے والی کشیدگی کی طرف بڑھ رہی ہے اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ محصور غزہ کی پٹی کے رہائشیوں کو ایک اور جنگ کا سامنا ہونے کا خدشہ ہے۔ پچھلے سال رمضان المبارک کے آخری ایام میں، یروشلم کے پڑوس میں واقع شیخ جراح جیسے پرانے شہر میں برسوں سے آباد فلسطینی خاندانوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کی وجہ سے تشددکی لہر پیدا ہوئی جو بعد میں اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی سرزمین میں وسیع پیمانے پر فلسطینیوں کے احتجاج کا محرک بنی۔ رمضان کے مقدس مہینے کے دوران اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے مسجد الاقصی پر چھاپوں نے کشیدگی کو مزید بڑھا دیا اور جس کے نتیجے میں غزہ پر 11 روزہ اسرائیلی حملہ شروع ہوا، جو اِسرائیل کے بقول حماس کی جانب سے اسرائیل کی جانب فائر کیے جانے والے راکٹوں کے جواب میں کیا گیا تھا۔ اِس سال 22 مارچ کے بعد سے، اِسرائیل کے اندر فلسطینیوں کے حملوں یا "مسلح کارروائیوں" میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں تین پولیس افسران سمیت 14 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق، جنوری سے اب تک اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں 36 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ اِس کے بعد سے اسرائیل کے ساتھ ایک اور فلسطینی تصادم کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ مقبوضہ مشرقی یروشلم میں بھی حالیہ کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے جہاں اسرائیلی فورسز نے رات گئے فلسطینیوں پر حملے اور گرفتاریاں کی ہیں جبکہ اِس کشیدگی کی بنیادی وجہ اسرائیلی آباد کاروں کا پابندیوں کے باوجود اپنے سالانہ پاس اوور کی قربانی (Passover sacrifice) کے تہوار کے موقع پر مسجد اقصیٰ کے احاطے میں داخل ہوکر اپنی عبادات کرنا ہے۔ اِس سال مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان میں کشیدگی میں اضافے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہودیوں کا پاس اوور کا جشن بھی رمضان کا مہینے کے دوران آگیا ہے جبکہ ہر سال پاس اوور کے تہوارعبرانی کیلنڈرکے مہینے نیسان کی پندرہ سے آغاز ہوتا ہے اور اکیس کو اِختتام ہوتا ہے جو کہ اِس سال پندرہ اپریل سے بائیس اپریل تک ہے۔ اِسرائیل کے موجودہ حکومتی اتحاد کی حیثیت اِنتہائی متزلزل ہے جس کی وجہ سے وہ عوام میں یہ تاثر دینے کی کوشش کررہی ہے کہ وہ اپنے عوام کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کی بھرپور طاقت رکھتی ہے کیونکہ دوسری صورت میں اسے عوامی حمایت کھو جانے کا خدشہ ہے۔ اِسرائیل اَپنے شہریوں کو یہ دکھانے کی کوشش کرے گا کہ وہ انہیں تحفظ فراہم کر سکتا ہے، خاص طور پر انفرادی تحفظ، تاکہ اِسرائیلی جہاں چاہیں، جب چاہیں، بغیر کسی خوف کے جا سکتے ہیں، کیونکہ وہ یہ احساس کھو چکے ہیں۔ اِس دفعہ پاس اوور کے تہوار کے موقع پر یہودی آباد کاروں کا اِسرائیلی مسلح دستوں کی نگرانی میں مسجدِ اقصیٰ کے احاطے میں داخل ہونا اِس بات کا تاثر دینا ہے کہ مسجدِ اقصیٰ کے احاطے سمیت مقبوضہ مشرقی یروشلم پر اِسرائیل کا مکمل کنٹرول ہے۔ غزہ، جہاں دو اہم فلسطینی مسلح مزاحمتی تحریکیں حماس اور فلسطینی اسلامی جہاد PIJ قائم ہیں، رمضان میں بارہا جنگ کا سامنا کرچکا ہے۔ غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی چار جنگوں میں سے دو مقدس مہینے میں شروع ہوئی ہیں۔ یاد رہے کہ مئی 2021 میں اسرائیل کی بمباری کے دوران 39 خواتین اور 67 بچوں سمیت کم از کم 260 فلسطینی ہلاک اور 1900 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ تقریباً 1,800 رہائشی یونٹوں کو منہدم کر دیا گیا، اور کم از کم 14,300 دیگر کو بری طرح نقصان پہنچا تھا۔ گزرتے وقت کے ساتھ فلسطینی مسلمان تنہا ہوتے جا رہے ہیں جبکہ آہستہ آہستہ عرب ممالک اسرائیل کو باقاعدہ تسلیم کر کے سفارتی تعلقات قائم کر رہے ہیں ۔خصوصاّ امریکی صدر ٹرمپ کے متعارف کردہ "معاہدہ اَبراہم" کے تحت۔ اسرائیل کے قیام کے فورًا بعد سرد جنگ کے دور میں فلسطین کا مسئلہ گروہی سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا جبکہ فلسطین کے تنازعہ کے حل نہ ہونے کی بنیادی وجہ مسلمان ممالک کا مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے عملی اقدامات کرنے کا فقدان ہے۔ مسلم ممالک، خاص طور پر ٹرمپ کے حمایت یافتہ معاہدوں کے د ستخط کنندگان کو، اِس بات کا احساس کرنا چاہئے کہ توانائی اور تیل کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے، تجارتی اور معاشی روابط کے قیام سمیت، اسرائیل کو کسی بھی قسم کی رعایتیں دینا فلسطین اسرائیل تنازعہ کے منصفانہ حل کیامکانات کو ختم کردے گا اور فلسطین اسرائیل تنازع کے دو ریاستی حل کا دروازہ مستقل طور پر بند کردیگا۔ اَب ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان ممالک اپنے قبلہ اَوّل کی مکمل آزادی اور فلسطینی مسلمان بھائیوں کے لیے ایک خود مختار ریاست کے قیام کے لیے ایک ٹھوس اور قابل عمل پالیسی اختیار کریں۔ اور اِس طریقے سے ہی اِسرائیل کے سب سے بڑے حمایتی امریکہ کے ذریعے اِسرائیل پر دباؤ ڈال کر فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کا خاتمہ ہو سکتا ہے تاکہ فلسطینی مسلمان اپنی خود مختار ریاست کے آزاد شہری کے طور پر رہ سکیں۔