ان سطور میں چند روز پہلے، ایک بزرگوار کا ذکر ہوا تھا۔ تازہ کالم میں، ان کی تشنہ لبی اور دست ِطلب ایک گام اَور آگے بڑھے ہیں۔ ہوتے ہوتے، ان کا کالم فلاں اور فلاں شے کا، اشتہار بنتا جا رہا ہے! لگتا ہے کہ یہ خدمت، ابھی تک مْفت کی جا رہی ہے اور بزرگوار سوکھے ٹرخائے جاتے ہیں۔ چنانچہ، ان کی تحریر سراپا شوق بھی ہے اور احتجاج بھی! جوش صاحب کہتے ہیں کہ ع پیٹ بڑا بدکار ہے بابا، پیٹ بڑا بدکار لیکن دنیا میں تنگ کرنے والی چیزیں، پیٹ کے سوا اَور بھی تو ہیں! اپنے تازہ کالم میں، بزرگوار اپنی نارسائی کی شکایت کرتے کرتے، بڑے نادر مشورے بھی دے گئے ہیں۔ کہنا چاہیے کہ ملکی معیشت کے سْدھار اور ترقی کا بھی، گویا راستہ دکھا دیا ہے! یہ راستہ ذرا گنجلک اور کٹھن ہے، لیکن ان کے عزائم خبر دیتے ہیں کہ قوم کو اس پر، چلا کر دَم لیں گے! کالم جہاں چشم کْشا تھا وہیں حیرت افزا بھی۔ چشم کْشا یوں کہ ان نادر نکتوں تک، کسی دوسرے کا دماغ کیوں نہ پہنچا؟ اور حیرت افزا اس لیے کہ بزرگوار کے تخیل کی بلند پروازی، مزید کیا کچھ دکھا کر رہے گی! کالم نگار صاحب بتاتے ہیں کہ جن ممالک میں سیاحت کو فروغ ہے، وہاں موصوف کی دونوں پسندیدہ ’’صنعتیں‘‘ بھی زوروں پر ہیں۔ بلکہ سیاحت چلتی ہی ہے ان دونوں صنعتوں کے بَل پر! اسی ضمن میں بنکاک اور دلی کے بعض ’’مقامات ِخاص‘‘ کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان بزرگوار کی مار، لگتا ہے کہ صرف بنکاک کے ’’شعلوں‘‘ تک ہے۔ قدم ِہمت اگر بڑھے، تو ممکن ہے کہ آئندہ کسی کالم میں وہ اَور حقیقت افشائی کریں۔ مثلا تاج محل صرف بہانہ ہے۔ سیاحوں کا بیشتر وقت دراصل ’’اْس بازار میں‘‘ گزرتا ہے۔ دیوار ِچین بھی فقط عْذر ہے۔ لْعبتان ِچینی کی خیر ہو، زائرین کو انہی کی لگن کھینچے لیے جاتی ہے! یہاں واشنگٹن ڈی سی میں، ٹھٹ کے ٹھٹ، قصر ِسفید دیکھنے نہیں، کسی اَور جگہ آتے ہیں! آیفل ٹاور، بکنگھم پیلس، سینٹرل پارک، ڈزنی لینڈ، ہالی ووڈ وغیرہ بھی، سب حیلے ہیں، بہانے ہیں۔ اس فن کی مزید نزاکتوں کا، ان کے کالم شاید متحمل نہ ہو سکیں۔ سو ’’بہتوں کا بھلا ہو گا‘‘ کے انداز میں، کیا ہی اچھا ہو کہ وہ تحقیق سے، سیاحوں کے لیے ایک ہدایت نامہ لکھیں اور بتائیں کہ فلاں شہر میں دیکھنے کے صحیح مقامات کہاں واقع ہیں؟ کتنا زاد ِراہ، کَے روز چلے گا؟ وغیرہ وغیرہ۔ حق ہے کہ سیاحت کے بین الاقوامی ادارے، بزرگوار کے نام، باقاعدہ سپاس نامہ لکھیں۔ جو بات وہ جھجک اور شرما حضوری میں نہیں بتا سکتے، بزرگوار نے آخر کھول دی ہے۔ اس واقعی خدمت کے اعتراف میں، انہیں بنکاک سے آگے، باقی دنیا کی بھی سیر کرائی جائے۔ ساتھ ہی، وہ دوسری شے، جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ع چھْٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی اس کے تاجر بھی، انہیں اعزازی طور پر، خالص، عمدہ اور مفت فراہمی کریں! یہی کام مقامی سطح پر بھی ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ وزارت ِسیاحت کے سوا، اَور وزارتیں بھی تو ہیں، جنہیں ایسے انمول موتیوں کی ضرورت ہے۔ دیکھیے اب قلم ِفیض رقم سے آیندہ کس وزارت کا سْدھار ہوتا ہے! ع ہے کہاں تمنا کا، دوسرا قدم یارب! ٭٭٭٭٭ ایک خیال، دو شاعر شاعری میں خیال کا لَڑ جانا، کوئی نئی چیز نہیں! لیکن نعم البدل چھوڑ، اگر یہ بدل بھی نہ نکلے، تو مضمون سے دست برداری ہی بہتر ہے! انوکھی بات نہیں کہ اساتذہ کے شعروں سے، بعد میں آنے والے فیض اٹھاتے ہیں۔ لیکن ان میں اضافہ اور بہتری، خاصا مشکل کام ہے۔ مثلا وعدے کے موضوع کو لیجیے۔ غالب کہتے ہیں تیرے وعدے پر جیے ہم، تو یہ جان، جھوٹ جانا کہ خوشی سے مَر نہ جاتے؟ اگر اعتبار ہوتا؟ شعر میں دِل سے زیادہ، ’’پاسبان ِعقل‘‘ کی کارفرمائی ہے! لفظوں کی بازی گری اور خیال کا پیچ البتہ اس میں موجود ہیں۔ اب میر کا شعر دیکھیے۔ اْس کے ایفاے عہد تک، نہ جیے عْمر نے ہم سے بے وفائی کی وعدہ کے سلسلے میں عموما، ایک فریق کا ذکر ہوتا ہے۔ یعنی وعدہ کرنے والا۔ کیا اس کا وعدہ سچا ہے یا باطل؟ لیکن میر بتاتے ہیں کہ وعدہ پر اعتبار کرنے والے کا حصہ بھی، اس میں کم نہیں ہے! معشوق وعدہ کر کے، نچنت ہو گیا، آزاد ہو گیا۔ مگر عاشق کو نہ اپنی جگہ سے جنبش ہوتی ہے اور نہ کیفیت میں ہی کوئی فرق آتا ہے۔ ایک آخری آہ جو نکلتی ہے، وہ عْمر کی بے وفائی پر نکلتی ہے! حافظ ِشیرازی کو لسان الغیب کہا جاتا ہے۔ فرماتے ہیں گنہ اگرچہ نبود اختیار ِما حافظ تو در طریق ِادب کوش و گو "گناہ ِمن است" یعنی، گناہ کرنے میں بے اختیاری کے باوجود، ادب و محبت کا تقاضا یہ ہے کہ گناہ کا اعتراف کرلو! لسان العصر اکبر الٰہ آبادی کا شعر ہے۔ اگرچہ تلخ مِلا جام، عْمر ِفانی کا مگر محل نہیں، ساقی سے بد گمانی کا صرف مصرع ِاول میں، حافظ کی سی بے اختیاری کا اعتراف تو ہے ہی، عْمر ِفانی اور اْس پر بھی تلخ جام، یہ دونوں شکایتیں اضافہ ہیں! اور دوسرے مصرع میں نکلی ہوئی فریاد؟ یہ نہایت دکھی دِل کی دین ہے!