تم کیا جانو میرے تنہا ہونے میں میری کتنی قوت صرف ہوئی ہے تب کہیں جا کر میری طاقت صرف ہوتی ہے۔ فکر اور سوچ بچار کچھ ایثار کا تقاضا تو کرتی ہے۔ ویسے تو معلومات روزانہ کی بنیاد پر آپ کے ذہن کی ہارڈ ڈسک پر ڈھیر لگاتی جاتی ہیں۔ مگر اس میں علم کتنا بنتا‘ شاید وہ کہ جس پر آپ عمل کرتے ہیں یا کم از کم عمل پیرا ہونے کا ارادہ کرتے ہیں۔ بیٹھے بٹھائے کچھ باتیں آپ کو چونکاتی بھی ہیں۔ ہاں آپ بالکل بے نیاز نہ ہو جائیں یا دوسرے لفظوں میں فرار حاصل نہ کر لیں۔ جہاں آپ محسوس کرتے ہیں کہ: ہمارے پاس حیرانی نہیں تھی ہمیں کوئی پریشانی نہیں تھی میرا سب سے چھوٹا بیٹا عزیز بن سعد اچانک مجھ سے پوچھنے لگا ابو پھلدار پودے پھل کیوں بناتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ پھل کیوں اٹھاتے ہیں؟ میں نے حیرانی میں اسے دیکھا اور کہا کہ بیٹا ان کا کام ہی یہ ہے‘ مگر کیوں؟ اس نے پھر استفسار کیا۔ اب میں سمجھ گیا کہ اس میں کوئی پہیلی ہو گی۔ چند ساعتوں کے بعد وہ مجھے لاجواب پا کر بولا’’کیونکہ انہیں اپنے سچ کو چھپانا ہوتا ہے۔ تو وہ اس کے اردگرد حفاظتی تہہ چڑھاتے ہیں‘‘ ایک لمحے کے لئے میں کہیں اور نکل گیااور میرے ذہن میں ریشم کا کیڑا آیا جو اپنے اردگرد ریشم بنتا جاتا ہے اور وہ اس کی نذر ہو جاتا ہے۔ بہرحال بندہ سوچتا تو ضرور ہے کہ اپنا تخم چھپانا پودے کو کتنی مشقت میں ڈالتا ہے۔ مگر انسان کے لئے دہرا فائدہ ہے کہ آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔ شکیب اپنے تعارف کے لئے یہ بات کافی ہے ہم اس سے ہٹ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے ویسے بھی ایک تخلیق کار کو انشائیہ تخلیق کرنے کا شوق نہیں مرض ہوتا ہے۔ وہ نہیں رہ سکتا۔ یہاں انشائیہ سے مراد صنف انشائیہ نہیں بلکہ صرف انشاپرداری کی بات ہے۔ یعنی کچھ نیا۔ میں اس انشاء کی وضاحت کرنا اگرچہ معیوب جانتا ہوں کہ میں کوئی کلاس نہیں لے رہا اور نہ ہی میں اردو کا پروفیسر ہوں۔ پھر بھی کچھ اپنے جیسے لوگوں کے لئے بتاتا چلوں کہ انشاء اور خبر میں فرق ضرور ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ خبر کے پیچھے واقعہ ہوتا ہے اور واقعہ کے بغیر خبر ممکن نہیں۔ انشاء نئی چیز ہوتی ہے بغیر کسی واقعہ کے ۔ اس انشاء کا تعلق ابن انشاء سے بھی نہیں کہ جس نے کہا تھا انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو۔ اس شہر میں جی کو لگانا کیا۔ بہرحال کچھ نیا ہونا چاہیے۔ وہی جو اظہار شاہین نے کہا تھا: اپنے ہونے کا پتہ دے کوئی شیشہ کہیں گرا دے واقعتاً یہی انفرادیت آپ کو ممتاز اور منفرد کرتی ہے۔تبھی تو Shelleyشیلے اپنے پیپر میں تین گھنٹے تک بیٹھا خدا کے بارے میں سوچتا رہا کہ خدا کے حوالے سے اسے لکھنا تھا۔ آخری وقت میں اس نے فقرہ لکھا تو کوزے میں دریا سمٹ آیا۔ اس نے تحریر کیا: "Running water saw its lord and blushed" بات کسی اور طرف نکل گئی پتہ نہیں ہر نئی بات مجھے ہرا بھرا کر دیتی ہے۔ یہ درست کہ پرانی باتیں بھی سونے سے لکھی جا سکتی ہیں۔ میری مراد نیا پن ہے نئی ایجاد، دریافت یا پھر نیا انکشاف، مجھے اپ ڈیٹ کر دیتا ہے۔ اس دن ڈاکٹر ناصر قریشی بتانے لگے کہ یہ اس ’’نار‘‘ اور ’’نور‘‘ کا مادہ اصل میں ایک ہی ہے۔ جدید علوم سے اسے سمجھنا کافی آسان۔ یہ جو روشنی ہم تک پہنچتی ہے یعنی سورج کی کرنوں سے تو اس روشنی میں حدت اور گرمی بھی ہوتی ہے۔گویا یہ کرنیں روشنی اور حدت کا مجموعہ ہیں۔ روشنی نور کی طرح ہے اور حدت کو نار سمجھ لیں۔ روشنی ہدایت کہ راستہ دکھاتی ہے ۔ نار یا آگ سزا ہے۔ ویسے انرجی کی بحث تو بہت دلچسپ ہے کہ یہ کسی نہ کسی صورت میں باقی رہتی ہے۔ کہتے ہیں کہ شاید ایسا زمانہ آئے کہ ایک آدمی کو ثابت ادھر سے کسی مشین میں ڈالا جائے اور دوسری طرف مشین سے ثابت نکال لیا جائے۔ فی الحال ہمارا یہ موضوع نہیں ۔ چلیے روشنی سے ایک شعر یاد آ گیا: روشنی بن کے اندھیروں میں اتر جاتے ہیں ہم وہی لوگ ہیں جو جاں سے گزر جاتے ہیں واقعتاً سائنس نے ہمیں فطرت کو سمجھنے میں کتنی مدد دی ہے۔ خود اپنے آپ سے بھی ہم آشنا ہوتے۔ آپ قوس قزح کو ہی دیکھ لیں کہ ہم بارش کے بعد اسے کسی مائی کی پینگ سمجھتے تھے ایسے ہی جیسے ہمارے چندا ماموں پر ایک بڑھیا چرخہ کات رہی ہوتی تھی۔ یہ تصورات اپنی جگہ خوبصورت ہیں مگر حقیقت بھی تو کچھ کم دلچسپ نہیں ہوتی۔ جب ہمیں پتہ چلتا ہے کہ بارش کے بعد قوس قزح میں بارش کے وہ قطرے جو معلق ہو جاتے ہیں۔ روشنی گزرنے کے باعث پرزم یعنی منشور میں تبدیل ہو جاتے ہیں منشور تو آپ نے دیکھا ہوگا مثلث شکل کا وہ شیشے سے بنا ہوا جس میں روشنی گزاریں تو وہ سات رنگوں میں بٹ جاتی ہے۔ یعنی بینڈ آف کلر ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔ یہ الگ بات کہ چار رنگ نظر آنے والے ہوتے ہیں اور تنی خالی آنکھ نظر نہیں آتے۔ جب ہر قطرہ منشور بنتا ہے تو سب قطرے مل کر قوس قزح یعنی دھنک رنگ کی پینگ بنا دیتے ہیں۔ کیسی کمال کی بات ہے کہ جو چیز سارے سات رنگ جذب کر لے وہ بھی سیاہ نظر آتی ہے اور جو ساتوں رنگ منعکس کر دے وہ سفید دکھائی دیتی ہے۔ میں نے خانہ کعبہ کو پہلی مرتبہ دیکھا تو یہی لگا کہ اس میں سارے رنگ جذب ہو جاتے ہیں‘ سارے امتیاز یہاں مٹ جاتے ہیں اور حاجیوں کے احرام پر کوئی رنگ باقی نہیں رہتا۔ سب اس کے حضور ایک ہو جاتے ہیں۔ شعیب بن عزیز نے شعر پڑھا تو فون کیا کہ تم نے سائنس نہ پڑھی ہوتی تو یہ شعر شاید نہ ہوتا: رنگ سارے ہی یہاں جذب ہوئے جاتے ہیں اور گردش میں جہاں بھر کا اجالا ہے میاں چلیے اپنی اس حمد کا ایک اور شعر آپ کے لئے لکھتا ہوں اور دعا کا طالب ہوں: والہانہ کوئی پتھر کو کہاں چومتا ہے اس محبت میں محمدؐ کا حوالہ ہے میاں میرے پیارے اور معزز قارئین! امید ہے آپ اس انداز نگارش کو بھی پسند کریں گے کہ آپ بھی ایک ہی انداز سے تنگ آ جا چکے ہونگے کیونکہ کبھی کبھی ہمیں اپنی باتیں بھی کرنی چاہئیں۔ آخری بات سے شاید بات کھل جائے کہ میری بیگم کہنے لگیں کہ اچھا ہوا۔نواز شریف باہر چلے گئے وگرنہ اخبار کو ان کی بیماری نے گھیر رکھا تھا۔ آدھا اخبار ان پر ہوتا تھا یا مولانا فضل الرحمن پر۔ اس کی بات دل کو تو لگتی ہے کہتے ہیں مولانا کو اتنے دن کے آزادی مارچ سے کیا فائدہ ہوا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا کتنا نقصان ہوا۔